علم الآخرت: ایک مکمل بائبلی تصور
15/04/2025
مخالفِ مسیح
23/04/2025
علم الآخرت: ایک مکمل بائبلی تصور
15/04/2025
مخالفِ مسیح
23/04/2025

موت اور درمیانی حالت

موت اور درمیانی حالت – موت اور قیامت کے درمیان وقفہ – کو علم الآخرت کے عنوان کے تحت شامل کیا جاتا ہے، لیکن وہ آخری چیزیں نہیں ہیں جو ہونے والی ہیں۔ آخری چیزیں جی اُٹھنے والے ہمارےخُداوند یسوع کی حاکمیت کی جلالی  آمدِ ثانی کے بارے میں  ہیں جب  راستبااز اور  اور ناراستوں  کی قیامت؛ آخری فیصلہ؛ اور نئے آسمان اور زمین وقو ع ہو گا۔

بہر حال، موت اور درمیانی حالت آخری چیزوں میں سے ہیں کیونکہ جب تک یسوع پہلے دوبارہ نہیں آتا، یہ ہمارے ذاتی مستقبل میں ہونے والی اگلی چیزیں ہیں۔ چونکہ ہم خُدا کی شبیہ پر پیدا ہوئے  ہیں جو شروع سے آخر کی منصوبہ بندی  ہے، اس لیے ہم اپنے اور کائنات کے مستقبل کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ خدا کا کلام مستقبل کی  چیزوں کی ایک جھلک کے لیے ہماری تمناؤں کا جواب دیتا ہے۔مکمل طور پر نہیں  اور نہ ہی ہمارے تجسس کو پورا کرنے کے لیے بلکہ ہمارے بے چین دلوں کو تسلی دینے کے لیے۔

موت: شکست خوردہ  ایک دشمن لیکن تباہ شدہ نہیں

موت ہماری دشمن ہے۔ درد میں اضافہ اور طاقت میں کمی اکثر اس سے پہلے ہوتی ہے۔ یا یہ حادثات یا تشدد کے ذریعے غیر متوقع طور پر زندگی چھین لیتی ہے۔ یہ ناقابل تلافی  طور  پر انسانی رشتوں کو منقطع کرتی  ہے، زندہ بچ جانے والوں کو غم پہنچاتی ہے۔ یسوع خود اپنے دوست کی قبر پر غم میں رویا (یوحنا ۱۱)۔ موت ہمیں نامعلوم علاقے میں لے جاتی ہے۔ موت ہمیں ہمارے مقدس خالق اور منصف کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے (عبرانی ۹: ۲۷)۔ ہم موت کو خوش آمدید نہیں کہتے۔

لیکن مسیحیوں کو موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موت ایک ایسا دشمن ہے جو شکست  خوردہ ہے  لیکن ابھی تک مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ مسیح کی آمد ِ ثانی  اور ہمارے جی اٹھنے پر، یہ  ’’آخری دشمن ‘‘ ختم ہو جائے گا، ’’فتح اُسے  نگل جائے  گی  (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۲۶، ۵۴- ۵۷)۔ تاہم  ہماری آخری فتح پہلے ہی محفوظ ہو چکی تھی جب خُدا کا بیٹا مجسم ہو ہا(ہماری طرح جسمانی صورت اختیار کی)، س جِس صُورت میں کہ لڑکے خُون اور گوشت میں شرِیک ہیں تو وہ خُود بھی اُن کی طرح اُن میں شرِیک ہُؤا تاکہ مَوت کے وسِیلہ سے اُس کو جِسے مَوت پر قُدرت حاصِل تھی یعنی اِبلِیس کو تباہ کر دے۔اور جو عُمر بھر مَوت کے ڈر سے غُلامی میں گرِفتار رہے اُنہیں چُھڑا لے۔ کیونکہ واقِع میں وہ فرِشتوں کا نہیں بلکہ ابرہامؔ کی نسل کا ساتھ دیتا ہے۔ ‘‘ (عبرانیوں ۲: ۱۴ – ۱۶)۔

موت ہمارے مادی جسم کو ہماری شناخت اور شخصیت کے غیر مادی مرکز سے، ہماری روح  کو الگ کرتی ہے (متی ۱۰: ۲۸؛ ۱۔ تھسلنیکیو۵: ۲۳)۔ موت کے وقت، جسم دفن ہو جاتا ہے اور گل سڑ جاتا  ہے، لیکن روح ’’خدا کی طرف لوٹ جاتی ہے جس نے اسے دیا‘‘ (واعظ ۱۲: ۷)، یا پھر  خُدا کے ساتھ ابدی خوشی لیے یا لامتناہی سزا اور مصیبت میں داخل ہونے کے لیے۔

درمیانی حالت: ’’مسیح کے ساتھ، بہت بہتر ہے‘‘

درمیانی حالت کے بارے میں بائبلی عکاسی  ایمان داروں  کی روحوں کے ذریعے محسوس ہونے والی خوشی پر مرکوز ہے۔ اپنے عنقریب مقدمے کے زندگی یا موت کے نتائج کو جانچتے  ہوئے، پولُس رسول  نے یہ نتیجہ اَخذ کیا کہ اپنی خاطر، وہ سزائے موت کو معافی پر ترجیح دے گا: مَیں دونوں طرف پھنسا ہُؤا ہُوں۔ میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ کُوچ کر کے مسیح کے پاس جا رہُوں کیونکہ یہ بُہت ہی بِہتر ہے۔ ‘‘ (فلپیوں ۱: ۲۳)۔ پس ہمیشہ ہماری خاطِر جمع رہتی ہے اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خُداوند کے ہاں سے جلا وطن ہیں۔کیونکہ ہم اِیمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔ غرض ہماری خاطِر جمع ہے اور ہم کو بدن کے وطن سے جُدا ہو کر خُداوند کے وطن میں رہنا زِیادہ منظُور ہے۔ ‘‘ (۲: کرنتھیوں ۵: ۶ – ۸)۔

اس باشعور، باہمی میل جول کا ایک اور اشارہ خود یسوع کی باتوں سے ملتا  ہے۔ یسوع نے توبہ کرنے والے چور سے وعدہ کیا جب وہ دونوں صلیب پر جان دینے کو تھے، ’’مَیں تُجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فِردَوس میں ہو گ ‘‘ (لوقا ۲۳: ۴۳)۔ عبرانیوں کا خط بیان کرتا ہے کہ جب مسیحی زمین پر عبادت کرتے ہیں، تو ہم ایک آسمانی جماعت میں شامل ہوتے ہیں جس میں’’  کامِل کِئے ہُوئے راست بازوں کی رُوحوں‘‘ (عبرانیوں  ۱۲: ۲۱- ۲۴) شامل ہیں۔

مکاشفہ کی کتاب ’’ان مُردوں پر برکت کا اعلان کرتی ہے جو خُداوند میں مرتے ہیں۔ . . تاکہ وہ اپنی مشقت سے آرام پائیں‘‘ (مکاشفہ ۱۴: ۱۳)۔ اُن کا   ’’آرام‘‘ لاشعوری ’’روح کی نیند‘‘کی حالت نہیں ہے (جیسا کہ بعض استدلال کرتے ہیں)۔ بلکہ، مسیحی شہداء کی روحیں انصاف کے لیے خدا سے اپیل کرتی ہیں اور اُس کا تسلی کا کلام حاصل کرتی ہیں (مکاشفہ ۶: ۹ ۔ ۱۱؛ دیکھیں ۲۰: ۴)۔ وہ ایک ایک بِھیڑ  ہیں جو خدا کے تخت اور برّہ کے سامنے عبادت کرنے کے لیے بڑی مصیبت سے گزری ہے (مکاشفہ ۷: ۹ – ۱۷)۔ وہ مسیح کے ساتھ آسمانی تختوں پر حکومت کرتی ہیں (مکاشفہ ۲۰: ۴)۔

پاک صحائف بے ایمانوں کی درمیانی حالت کے بارے میں بہت کم  بیان کرتے ہیں، لیکن یسوع کی امیر آدمی اور لعزر کی تمثیل اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے(لوقا ۱۶: ۱۹ – ۳۱) ۔ تمثیل کا نکتہ یہ ہے کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنا بھی اُن لوگوں کو قائل نہیں کرے گا جو کلام پاک کی تردید  کرتے  ہیں۔ اِس نتیجے کی حمایت کرنے کے لیے، یسوع نے موت کے بعد ایک راست بازبھکاری اور ایک بے دل مال دار شخص  کے شعوری وجود کی تصویر کشی کی۔ اِس دُنیاوی منظر کشی میں، یسوع ایمان داروں  کی روحوں ابرہام  کے ساتھ  مگر بے ایمانوں کی روحوں دوزخ کے  عذاب میں مبتلا ہیں ، یہ ایک  ناقابلِ عبور خلیج  کی علامت ہے جو ملحدوں کو توبہ اور موت کے بعد راحت  سے  دستبردار کرتا ہے۔

قیامت: اب بھی بہتر ہے۔

موت میں چلے جانا اور مسیح کے ساتھ رہنا اس گناہ زدہ دُنیا میں زندگی سے ’’بہت بہتر‘‘ ہے، لیکن وہ درمیانی حالت ہماری آخری اُمید نہیں ہے۔ وہ دن اب بھی بہتر ہے جب ہمارا نجات دہندہ آسمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی اُس قُوّت کی تاثِیر کے مُوافِق جِس سے سب چِیزیں اپنے تابِع کر سکتا ہے ہماری پَست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صُورت پر بنائے گا‘‘ (فلپیوں ۳: ۲۱)۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔