خدا اور اِنسان
01/04/2025
نجات
08/04/2025
خدا اور اِنسان
01/04/2025
نجات
08/04/2025

 مسیح 

جے گریشم میچن کی تصنیف’’مسیحیت اور لبرل ازم‘‘ میں ایک اہم نقطہ اِس بات پر زَور دیتا ہے کہ یسوع مسیح کی درُست معرفت حاصل کی جائے۔ میچن ایک مخصوص/ سرکردہ کلیسیائی رُکن اور زیرک عالم ہونے کی حیثیت سےکلیسیا اور علمی دونوں حلقوں میں یسوع کے غیر راسخ العتقادی نظریات سے بخوبی واقف تھا، اوربے شک یہی غلطیاں اکثر ہمارے دَور میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عصرِ حاضرکے علمی ادب  میں یسوع مسیح کو اکثر ناصرت کے ایک یہودی نبی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح اِبنِ خدا بھی ہے، لیکن اُسے ہمیشہ خدا کا الہٰی بیٹا نہیں  سمجھا جاتا۔ عموماً، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یسوع ناصری ایک انسانی ہستی تھی جس کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن اُنہیں خدا کا الہیٰ بیٹا قرار دینا محض ایک قیاس ارائی ہو گا۔  لیکن یہاں ہمیں محتاط رہنا ہو گا، کیوں کہ راسخ العقیدہ علمِ المسیح ہمیں خبردار کرتا ہےکہ یہ سوچنا بالکل غلط ہے کہ یسوع محض ناصرت کا ایک عام شخص تھا۔ اِس کے علاوہ ، یسوع کی حقیقی بشریت کو تسلیم نہ کرنا بھی درُست نہیں، کیوں کہ یہ نقطہ بھی راسخ العقیدہ علم المسیح کے لئے ناقابلِ سمجھوتہ ہے۔اِن پیچیدہ معاملات کو سمجھنے کے لئے ہمیں عقیدہِ مسیح کو مناسب انداز میں بیان کرنا ہوگا۔ 

ہم خدا کے شکرگزار ہیں کہ ہمارے پاس مسیح کے متعلق درُست تفہیم حاصل کرنے کے لئے عظیم کلیسیائی عقائد موجود ہیں، جوصدیوں کی وفادارانہ  بائبلی تعلیم پر مبنی ہیں۔ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ مسیح کے متعلق بات کرنا دراصل تثلیث کے دوسرے اقنوم یعنی خدا کے ازلی بیٹے کے بارے میں بات کرنا ہے۔ تجسیم میں ہم خدا کے اسی الٰہی بیٹے اور اسی الہٰی ذات سے ملتے ہیں۔ لہٰذا، یسوع مسیح کے بارے میں اِس انداز سے بات کرنا درُست نہیں کہ گویا ہم ناصرت کے کسی عام بشر سے مل رہے ہوں۔ اِس طرح یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ تجسیم میں دو الگ شخصیات ہیں—جیسے  ہم مسیح کی الہٰی ذات اور اُس کی انسانی ذات دونوں سے ملتے ہیں۔ اِس کے برعکس، یسوع مسیح ایک ہی ذات ہے— یعنی ایک الٰہی ذات جس نے بشریت کو اپنایا۔ اگرچہ وہ اپنی انسانی ذات کے اعتبار سے بیت لحم میں پیدا ہوئے اور ناصرت میں پرورش پائی (متی ۱:۱۸- ۲۳؛ لوقا ۲: ۱- ۱۴)، لیکن اُس کی اَصل ابتدا سے ہے (میکاہ ۵: ۲)، کیوں کہ وہ خدا کا ابدی بیٹا ہے۔  

اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اقنومی اتحاد کو درُست طور پر سمجھیں(ویسٹ منسٹر اقرارالایمان باب ۸ جُز ۲)۔ اقنومی اتحاد سکھاتا ہے کہ تجسیم میں دو الگ ذاتیں (الوہیت اور بشریت)ایک ہی شخص یعنی مسیح میں باہم مل گئیں۔ اصطلاح ہائپو سٹاسس(Hypostasis) جس سے لفظ ہائپوسٹیٹک ماخوذ ہواہے اوراِس سے مراد ایک الہیٰ ذات ہے، اور اتحاد  سے مراد ایک شخص میں دو ذاتیں یعنی الوہیت اور بشریت کاباہم مل جانا۔ اِس کا مطلب ہے تجسیم میں مسیح اپنی الہیٰ ذات کو برقرار رکھتا ہےاور ساتھ ہی انسانی ذات کو بھی اختیار کرتا ہے۔ یہ دو الگ ذاتیں ناقابلِ جدا طور پر کسی تبدیلی، آمیزش، اور اُلجھاؤ کے بغیرمسیح میں باہم مل گئیں ہیں۔ مسیح  کی دونوں ذاتیں اپنے طور پر عمل نہیں کرتیں، بلکہ صرف مسیح ابنِ خدا کی شخصیت عمل کرتی ہے۔ یہ ایک اہم مسیحی اصول ہے: یعنی اقانیم عمل کرتے ہیں اُس کی ذاتیں نہیں۔ 

اِس کے علاوہ، مسیح کی بشریت ہر اقنوم کے مطابق مناسب عمل کرتی ہے۔ اگرچہ، تجسیم میں خدا کا بیٹا وہی رہتا ہے جو وہ ازل سے ہے (الہٰی)، لیکن اُس نے ہمارے  لئےاور ہماری نجات کے لئے حقیقی انسانی ذات اختیار کی۔ اقنومی اتحاد میں، ہم واحد مسیح کی بشریت کے بارے میں بات کرتے ہیں جو حقیقی خدا اور حقیقی انسان ہے۔ 

یہ شاید تعجب کی بات نہیں کہ اقنومی اتحاد کی ہمیشہ درُست تصدیق نہیں کی جاتی۔ معتدد بدعات مسیح کوغلط طریقے سے بیان کرتی ہیں۔آریوسیت نے تعلیم دی کہ ابنِ خدا اُس طرح کامِل الہٰی نہیں جس طرح باپ الہٰی ہے۔ لیکن یہ یسوع کی کامِل الوہیت کی واضح بائبلی تعلیم سے انحراف ہے(یوحنا ۱:۱؛ ۲۰: ۲۸؛ عبرانیوں ۱: ۸؛ ۱-یوحنا ۵: ۲۰)۔  مزید یہ کہ الوہیت کے حوالے سے کوئی دو الگ رائے نہیں: یا تو یسوع الٰہی ہے یا نہیں۔ دیگر بدعات بیان کرتی ہیں کہ یسوع مسیح کامِل انسان نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، اپولینار ازم  (Apollinarism)کے مطابق یسوع اِنسانی ذہن نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اِس صورت میں یسوع ایک انسان کی حیثیت سے کم درجہ رکھتاہے، اور یوں وہ بنی نوع انسان کے نجات دہندہ کے لئے اہل نہیں ، کیوں کہ ہم سب گناہ آلودہ ذہن رکھتے ہیں جنہیں مخلصی کی ضرورت ہے۔یوتخُس ازم (Eutychianism)نے استدلال کیا کہ مسیح میں الٰہی اور انسانی  ذاتیں باہم مدغم ہو کر ایک نئی چیز تشکیل دیتی ہیں –یعنی الہٰی اور انسانی ذات کا ایک امتزاج ۔اِس کا مطلب ہے کہ یسوع کی انسانی ذات ہماری جیسی نہیں، اِس لئے یہ نقطہ نظر مسترد کر دینا چاہئے (عبرانیوں ۲: ۱۴- ۱۸)۔ ایک اَور بدعت جو مسلسل سر اُٹھا رہی تھی، وہ نسطوریت تھی۔ یہ غلط نظریہ مسیح میں دو الگ  شخصیات کا قائل تھا، اور اِس بدعت کا مقابلہ ۴۳۱ء، میں اِفسُس کی کونسل اور کریل الیگزینڈریا نے کیا۔ لیکن راسخ العقیدہ علم المسیح ہمیں سکھاتا ہے کہ مسیح کی ایک شخصیت ہے۔  

میچن سمجھ گیا تھا کہ یہ بات اتنی اہم کیوں ہے۔ ہم اناجیل میں دیکھتے ہیں کہ یسوع مسیح اِس بات کا خواہاں تھا کہ اُس کے شاگرد جانیں کہ وہ کون ہے، برعکس اُن قیاس آرائیوں کے جو عام لوگوں میں پائی جاتی تھیں (متی ۱۶: ۱۳- ۱۷)۔ یسوع زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ شاگرد واضح طور پر جانتے تھے کہ یسوع ایک انسان تھا، لیکن  اُنہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ مسیح اور خدا کا الہٰی بیٹا  بھی ہے۔ پولُس رسول چاہتا ہے کہ ہم مسیح کا صحیح طور پر اقرار کریں ( فلپیوں ۲: ۶-۱۱؛ ۱-تیمُتھیس۳: ۱۶)۔ مسیح کے بارے میں درُست سوچنا اور بولنا تمام مسیحیوں کے لئے بائبلی تشویش ہے۔ یہ محض ماہرِ علم الہیات کے لئے تجریدی قیاس آرائی نہیں ہونی چاہئے۔  جیسا کہ میچن لکھتے ہیں کہ ’’اگر یسوع وہ تھا جو نیا عہد نامہ اُس کی نمائندگی کرتا ہے، تو ہم محفوظ طریقے سے اپنی روحوں کی ابدی منزل کو اُس کے سپرد کر سکتےہیں۔‘‘

یہ کیوں اہم ہے کہ ہمارا نجات دہندہ ہمیں گناہ سے بچانے کے لئے حقیقی خدا اور حقیقی انسان دونوں ہونا چاہئے۔ صرف وہی جو خدا ہے وہ گناہ کے خلاف خدا کے غضب کا مقابلہ کر سکتا ہے اور ہمیں ابدی زندگی دے سکتا ہے (ویسٹ منسٹر تفصیلی کیٹیکیزم باب۳۸؛ ہیڈل برگ کیٹیکیزم باب۱۷)۔ مگر صرف وہی انسان جو ہماری مانند ہے، وہ ہمارے اُن گناہوں کی لعنت کو برداشت کر سکتا ہے جو ہم نے ابتدا میں کئے تھے   (ویسٹ منسٹر تفصیلی کیٹیکیزم باب۳۹؛ ہیڈل برگ کیٹیکیزم باب۱۶)۔صرف یسوع ہی کامل فرماں بردار، پچھلے آدم کی حیثیت سے، پہلے آدم کی نافرمانی پر فتح پاتا ہے اور خدا کا ابدی بیٹا رہتا ہے۔ آسمان کے نیچے اور کوئی نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلے ہم  بچائے جا سکتے ہوں، محض یسوع ہی واحد جی اُٹھا اور جلالی رب ہے، جو حقیقی خدا اور حقیقی انسان ہے۔ 

عظیم کلیسیائی عقائد مسیح کو تثلیث کے اُس دوسرے اقنوم کے طور پر بیان کرتے ہیں، جو ہمیں بچانے کے لئے ہمارے درمیان اُتر آیا۔ وہ انسان نہیں جو خدا بن گیا بلکہ وہ خدا ہے جو ہمارے لئے انسان بن گیا۔ یہ ایک اہم امتیاز ہے جس کے گہرے اثرات ہیں۔ یسوع مسیح کو بنیادی طور پر بشر قرار دینا یا یوں کہنا کہ وہ محض ایک  اِنسانی ہستی ہے، اِس کی کلیسیائی عقائد  تعلیم نہیں دیتے اور یہ اِنجیل کے بنیادی پیغام کی نفی ہے۔ میچن نے خود مشاہدہ کیا کہ متبادل کفارہ، مسیح کی بشریت کی یکتائی پر مبنی ہے۔ ہم گناہ کی ایسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں کہ کوئی معمولی انسان ہمیں اُس کی گہری کھائی سے نہیں نکال سکتا۔ ہمیں محض ایک نمونے یا مُعلم کی نہیں بلکہ ایک نجات دہندے کی ضرورت ہے۔ جیساکہ میچن نے زَور دیتے ہوئے کہا،’’یسوع ایمان کے لئے محض ایک مثال نہیں، بلکہ ایمان کا مقصد ہے۔‘‘ہماری نجات کے لئے محض ایک انسان کی نہیں بلکہ حقیقی انسانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو حقیقی انسان اور حقیقی خدا ہو۔ یعنی ہمیں یسوع مسیح کی ضرورت ہے۔ یہ بات میچن کے زمانے میں بھی سچ تھی اور آج ہمارے دَور میں بھی سچ ہے۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔