
مسیح
03/04/2025
عبادت کے ضابطہ کا اُصول کیا ہے ؟
10/04/2025نجات

جنگِ عظیم اوّل نے یورپ کو ہِلا کر رکھ دیا، روشن خیالی کی رجائیت کو تباہ کر دیا اور روشن خیالی کے بعد یورپ کا آغاز کیا۔ تاہم اَمریکہ میں نوجوان جنگ سے بے خوف سماجی اِصلاحات کے ذریعے زمین پر خدا کی بادشاہی کو قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ اُنہوں نے اپنے پیغام کو ”سماجی اِنجیل“ کا نام دیا اور اُس تحریک کے مرکزی مناد والٹر روشین بش Walter Rauschenbusch) 1861-1918ء)تھے۔ وہ نیویارک کے علاقے ” ہیلز کچن“ میں پائی جانے والی غُربت کو دُور کرنے کے لئے ایک ایسی ”اِنجیل“ کی منادی کر رہے تھے جو سماجی بہتری کا پیغام دیتی تھی اور وہ سماجی اِصلاحات کے ذریعے زمین پر خدا کی بادشاہی قائم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اُن کے نزدیک نجات کا مفہوم یہی تھا کہ سماجی عمل کے ذریعے زمین پر خدا کی بادشاہی قائم کی جائے۔
تاہم جے گریشام میچن (1881-1936ء) نے بھی جنگِ عظیم اوّل کا دَور دیکھا اور مختلف عقائد/نظریات کا دِفاع کیا۔ اُن کے مطابق موجودہ کلیسیا زمین پر مسیح کی رُوحانی بادشاہی کی نمائندگی کرتی ہے اور مسیحی ایک ایسی حالت میں زندہ رہتے ہیں جسے جان کیلون نے ”دوہری بادشاہی“(Institutes 3.19.15) قرار دیا تھا۔ میچن کے نزدیک نجات اِس قدر ایک عظیم حقیقت تھی کہ اُسے مکمل طور پر زمین پر نہیں لایا جا سکتا تھا۔ وہ اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ مسیحیت یقیناً ایک ”طرزِ حیات“ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیدا کیسے ہوئی؟ سماجی اِنجیل کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ وہ محض نصیحت کے ذریعے ہی اِس طرزِ حیات کو لا سکتے ہیں لیکن میچن کے مطابق یہ طریقہ ہمیشہ ”غیر موثر“ ثابت ہوتا ہے۔ میچن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسیحیت کی ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اِس نے بالکل ایک مختلف طریقہ اِختیار کیا۔ اِس نے اِنسانی زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے اِنسانی اِرادے سے اپیل نہیں کی بلکہ ایک کہانی سنائی، نصیحت کے ذریعے نہیں، بلکہ حقیقت پر مبنی ایک واقعہ بیان کرنے کے ذریعے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ طریقہ بظاہر ”غیر عملی“ دِکھائی دیتا ہے، تاہم یہی وہ بات ہے جسے پولس نے ”بے و قوفی کا پیغام“ کہا تھا۔۔۔یہ پیغام قدیم دُنیا کو بے وقوفی لگتا تھا اور موجودہ دَور کے لبرل اَساتذہ کو بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ تاہم اِس کے اَثرات اِسی دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں سب سے فصیح اور مؤثر نصیحت ناکام ہو جاتی ہے وہاں ایک سادہ سے واقعہ کی کہانی کامیاب ہو جاتی ہے۔ اِنسانوں کی زندگیاں محض ایک خبر کے ذریعے تبدیل ہو جاتی ہیں۔
سماجی اِنجیل نے اِنسانی مسائل کو محض مادی غربت تک محدود کر دیا۔ لیکن میچن کے نزدیک جو پولس رسول کے شاگرد اور آگسٹین کے نظریات کے پیروکار تھے ، ہمارا مسئلہ اِس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے۔ 1935ء میں اپنے ریڈیو خطبات میں، اُنہوں نے اِس بات کی وضاحت کی کہ گناہ محض ”غیر سماجی طرز ِعمل“جیسا کہ ترقی پسند مفکرین اور سماجی اِنجیل کے حامیوں کا خیال تھا، بلکہ گناہ کی حقیقی تعریف ” خدا کے حکم کی نافرمانی “ ہے۔ جیسا کہ ویسٹ منسٹر شارٹ کیٹی کیزم نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے: ”خدا کی شریعت کے مطابق نہ چلنا یا اُس کی خلاف ورزی کرنا“ (Q&A 14)۔سماجی اِنجیل کے حامیوں کے نزدیک، گناہ کی سزا محض غربت تھی، لیکن میچن کے لئے، جیسے کے پولس اور آگسٹین کے نزدیک ”گناہ کی مزدوری موت ہے“ (رومیوں 23:6)۔ اور یہ موت کسی عام معنوں میں نہیں بلکہ ایک مخصوص نوعیت کی تھی یعنی اَبدی سزا۔ جس طرح مسیح کی راست بازی اُن سب کو عطا کی جاتی ہے جو ”مسیح میں ہیں“ محض فضل اور اِیمان کے ذریعے، اِسی طرح آدم کا گناہ بھی اُن سب میں شمار کیا جاتا ہے جو اُس میں ہیں، اور لعنت یہ تھی کہ ”جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا“ (پیدایش 17:2)۔ گناہ کا جرم اَبدی سزا کا مستحق ہے۔ اِس تناظر میں ہمیں میچن کے نظریہِِ نجات کو لازمی طور پر سمجھنا ہو گا۔ یعنی خدا کے اِلٰہی غضب سے رِہائی پا کر اُس کی برکات اور حمایت میں داخل ہونا۔ جنہیں خدا نجات دیتا ہے وہ پہلے ہی گناہ کی سزا کے مستحق ٹھہرائے جا چکے ہوتے ہیں، اور وہ محض فضل کے ذریعے اور صرف اِیمان کے ذریعے نجات پاتے ہیں۔ میچن نے اپنے خطبات کا بہت بڑا حصہ قدیم بدعتی پلاگیئس (جس کا اِنتقال تقریباً 410ء میں ہوا) کے نظریات پر صرف کیا جس نے آگسٹین کے گناہ اور فضل کے نظریات کو مسترد کر دیا تھا۔ اُس کے نطریات کو اِفسس کی مجلس نے ردّ کر دیا تھا (431ء)۔ پلاگیئس کا نظریہ یہ تھا کہ ہم سب آدم کی طرح نیک پیدا ہوتے ہیں اور ہم سے ہر ایک کو یہ صلاحیت بخشی گئی ہے کہ ہم فضل کی مدد کے بغیر کاملیت تک پہنچ سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم ابلیس کی بجائے یسوع کی پیروی کریں۔ میچن نے جدیدیت پسندوں کے خلاف اپنی فکری جنگ کے دوران پلاجیس کے نظریات پر خاص توجہ مبذول کی، کیوں کہ جدیدیت پسندوں کے خیالات بہت حد تک پلاگیئس سے ملتے جُلتے تھے۔ میچن کو شکایت تھی کہ پلاگیئس کے پیروکار گناہ کو سطحی اَنداز میں دیکھتے ہیں۔ بائبلی ( اور اوگسطین) کے نظریات کے مطابق اِنسانی فطرت گناہ اور اُس کے اَثرات کے باعث اِتنی بگڑ چکی ہے کہ ہم خود کو نجات دینے کے بالکل قابل نہیں رہے۔ ہم مکمل طور پر خدا کے آزاد اور حاکمِ اعلیٰ فضل پر منحصر ہیں۔ میچن کا نظریہِ نجات نہایت واضح تھا:
” جو کچھ(یسوع) نے کیا وہ صرف یہ نہیں تھا کہ اُس نے گنہگاروں کے لئے اپنی نجات آپ حاصل کرنا ممکن بنا دیا۔ نہیں! اُس نے اِس سے کہیں بڑھ کر کیا۔ اُس نے حقیقت میں اُنہیں نجات دی۔ اُس نے اُنہیں پوری قدرت سے ایسی نجات بخشی جس کی کوئی مزاحمت نہیں کر سکتا تھا۔ خدا کے برگزیدوں کی نجات کا ہر مرحلہ اُس کے اَزلی منصوبے کے عین مطابق پورا کیا گیا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے ہم بائبلی نظریۂ نجات کے پورے بیان میں واضح کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں یہ بات دُہراتا ہوں، اور اگر محض بحث وتکرار سے مَیں اُسے ہمیشہ کے لیے تمہارے ذہنوں اور دِلوں میں بٹھا سکتا تو مَیں اُسے سینکڑوں بار دُہرانا پسند کرتا۔ مَیں یہ کہتا ہوں کہ خدا نے اپنے نجات بخش کام کے ذریعے گنہگاروں کے لیے یہ ممکن نہیں بنایا کہ وہ خود اپنی نجات حاصل کر سکیں، بلکہ اُس نے خود اُنہیں نجات دی“۔
اس نے 1923ء میں اپنی کتاب ”مسیحیت اور لبرل اِزم“ (Christianity and Liberalism) میں تقریباً اِنہی اَلفاظ میں یہی بات پہلے ہی کہی تھی۔
سماجی اِنجیل کے حامیوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہم محبت کے ذریعے نہ صرف اپنی نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن میچن کے نزدیک ایسا نظریہ محض ”نیم-پلاجین ازم“ (Semi-Pelagianism) تھا۔ سماجی اِنجیل کے ماننے والوں کے مطابق، دُنیا کی اُمید اِس میں ہے کہ ”یسوع کے اُصولوں کو اِس پر لاگو کیا جائے“۔ وہ یہ سب چیزیں ایسے سکھاتے تھے گویا وہ کوئی نبی یا اُستاد تھے۔ تاہم میچن کے نزدیک، ”مسیح کا نجات بخش کام، جو بائبل کا مرکز ی حصہ ہے، ہر ایک کی رُوح پر روح اُلقدس کے ذریعے لاگو ہوتا ہے “۔ اِسی لئے ہم معاشرے کے لئے کسی مستقل اُمید کو محض ”یسوع کے اُصولوں“ یا اِس طرح کی چیزوں میں نہیں پاتے، بلکہ ہم اِسے رُوح کی اِنفرادی طور پر نئی پیدایش میں پاتے ہیں۔
جس دُنیا کو میچن نے جانا تھا وہ جنگِ عظیم اوّل کے دوران فرانس کے میدانِ جنگ میں ختم ہو گئی۔ لیکن سماجی اِنجیل کے حامیوں کے برعکس، میچن کے نزدیک، اِنجیل اُس کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔ قومیں اور سلطنتیں بکھر جاتی ہیں لیکن مسیح کی بادشاہی قائم رہتی ہے، اُس کی اِنجیل جاری رہتی ہے اور اُس کی کلیسیا ہمیشہ قائم رہے گی کیوں کہ تہذیبیں مٹ سکتی ہیں، لیکن خدا لاتبدیل ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گنہگاروں کو اُس کے غضبِ اِلٰہی سے بچنے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔