نجات
08/04/2025
علم الآخرت: ایک مکمل بائبلی تصور
15/04/2025
نجات
08/04/2025
علم الآخرت: ایک مکمل بائبلی تصور
15/04/2025

عبادت کے ضابطہ کا اُصول کیا ہے ؟

عبادت کے ضابطہ کا اُصول کیا ہے ؟سادہ لفظوں میں ، عبادت کے ضابطہ  کے اُصول سے مراد خدا کی اجتماعی  عبادت  پاک نوشتوں کے خاص رہنما اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے ۔ دوسرے لفظوں میں ، اس سے مراد ہے کہ کسی چیز کو  اجتماعی عبادت میں  تب تک شامل نہیں کرنا چاہئیے جب تک پاک نوشتے اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ 

بات صاف ہے کہ ہمیں ’’پوری زندگی ‘‘سے خدا کی عبادت کرنی ہے۔ جب مچھلیاں پکڑتے ، گالف کھیلتے ، ناشتہ کرتے یا گاڑی چلاتے ہوں۔پولُس رسول  اس بات کو صراحت سے پیش کرتا ہے کہ ’’ پس اَے بھائِیو۔ مَیں خُدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے اِلتماس کرتا ہُوں کہ اپنے بدن اَیسی قُربانی ہونے کے لِئے نذر کرو جو زِندہ اور پاک اور خُدا کو پسندِیدہ ہو۔ یِہی تُمہاری معقُول عِبادت ہے۔ اور اِس جہان کے ہم شکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صُورت بدلتے جاؤ تاکہ خُدا کی نیک اور پسندِیدہ اور کامِل مرضی تجربہ سے معلُوم کرتے رہو۔‘‘(رومیوں(۱۲: ۱- ۲)

اس وجہ سے کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہمیں اجتماعی عبادت کے لئے کوئی خاص ضوابط کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ فقط عبادت ہے۔ لیکن یہ بات کچھ نہایت اہم مسائل کو نظر انداز کرتی ہے ۔سچ ہے کہ جسے ہم ’’ساری زندگی ‘‘عبادت کہہ سکتے ہیں اس کے لئے ایک باقاعدہ اُصول (عام ضوابط کا مجموعہ) ہے ۔ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خدا کے جلال کے پیشِ نظر ہونا چاہئیے۔ ’’پس تُم کھاؤ یا پِیو یا جو کُچھ کرو سب خُدا کے جلال کے لئے کرو‘‘(1-کرنتھیوں 10: 31)۔ اسے ہم عمومی ضابطہ کا اُصول   کہہ سکتے ہیں ۔لیکن کیا اس اُصول کا کوئی خاص اطلاق ہے ؟ مصلحین (خصوصاً جان کیلون) اور پیوریٹنز نے اس کا جواب ہاں میں دیا ہے۔ خصوصاً خدا اس سوال کے بارے میں فکر مند ہے کہ ہم عوامی اجتماعات میں عبادت کیسے کرتے ہیں ؟

اپنے عام طرزِ بیان کے مطابق  کیلون  یوں رقم طراز ہے کہ: ’’خدا عبادت کے اِن تمام طریقوں کو ناپسند کرتا ہے جنہیں اِس کے کلام کی سند حاصل نہیں ۔اور 1689 کا دوسرا لندن بپتسماوی اقرار الایمان بیان کرتا ہے کہ سچے خدا کی عبادت کا قابلِ قبول طریقہ اِس نے خود ہی قائم کیا ہے، اور اِس کی اپنی منکشف مرضی تک محدود ہے، کہ وہ انسانوں کے متصورات اور اختراح کے مطابق عبادت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی شیطان کی تجاویز، کسی بھی مرئی نمائندگی کے تحت، یا کوئی دوسرا طریقہ جو پاک صحائف میں وضع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

ویسٹ منسٹر مجلس

جب ویسٹ منسٹر مجلس جمع ہوئی تو اس کا  بنیادی مقصد اسی سوال کا جواب دینا تھا۔  یہ مجلس جلد ہی دوسرے مسائل  کی طرف متوجہ  ہوئی، لیکن یہ عبادت کا مسئلہ تھا جو اس کے ابتدائی کاروائی( ایجنڈے) پر غالب رہا۔یہ مجلس  بعد میں خدا کی اجتماعی یا عوامی عبادت کے لئے ایک دستور العمل شائع کرے گی ۔ دستور العمل کی اصطلاح خود اہم ہے؛ یہ ایسی کتاب نہیں ہے جیسی کلیسیائے انگلستان کے پاس دعائے عام کی کتاب ہے۔   یہ مجلس اِس بات سے  متعلق  بڑی واضح تھی  کہ دستور العمل ایک بہت مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ 

ویسٹ منسٹر اقرار الایمان کا پہلا ہی باب پاک نوشتوں کے بیان میں ہے۔ یہ کہنے کا ایک طریقہ تھا کہ اس سے پہلے کہ ہم خدا یا نوعِ انسانی یا گناہ یا کلیسیاء یا عبادت کے بارے میں کچھ کہہ سکیں، ہمیں ٹھوس بنیاد اور اختیار کی ضرورت ہے اور وہ واحد اختیار خدا کا کلام ہے۔ تمام صحائف  تنفسِ خُدا کا حاصل ہیں  (2 تیمتھیس 3: 16-17)۔  آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے بولتے تھے (2 پطرس 1: 21)۔  جہاں تک ویسٹ منسٹر کی روایت  کی بات ہے، ہم پاک صحائف سے آغاز کرتے ہیں۔

ویسٹ منسٹر اقرار الایمان کے پہلے ہی باب میں پاک صحائف جو تمام تر علم کی بنیاد ہیں اِس  میں ایک باقاعدہ اُصول کے طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خدا کے اپنے جلال، انسان کی نجات، ایمان اور زندگی کے لئے تمام ضروری باتوں کے بارے میں خدا کی مشورت کو یا تو صاف طور پر پاک نوشتوں میں بیان کیا گیا ہے یا پھر ہم اسے صحیح اور بدیہی نتیجہ کے طور پر پاک نوشتوں سے اَخذ کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی وقت بھی کسی بات کا خواہ وہ روح کا مکاشفہ یا انسانی روایات کے وسیلہ سے ہو اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ہم اقرار کرتے ہیں کہ کلام میں مرقوم باتوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کا پاک روح ہمارے دلوں کو روشن کرے اور یہ خدا کی پرستش اور کلیسائی انتظام جو انسانی کاموں اور تنظیم میں بھی نظر آتا یے اسے فطرت کی روشنی میں دیکھنا چاہیئے  نیز کلام کے عام قواعد کے مطابق مسیحی بصیرت کو بھی کام میں لانا چاہیے‘‘ (ویسٹ منسٹر اقرار الایمان (۱باب ۶ جُز)

جو نکتہ اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کلام پاک دو خاص مسائل کے بارے میں کچھ اصول بیان کرتا ہے (وہاں دیگر بھی ہیں): کلیسیائی انتظام اور عوامی عبادت کی تشکیل۔ یہی اُصول عبادت کے باب میں دوبارہ ظاہر ہوتا ہے کہ :
’’فطرت کی تجلی ظاہر کرتی ہے کہ خدا موجود ہےجو سب پر اختیار اور حاکمیت رکھتا ہے وہ بھلا ہے اور سب سے بھلائی کرتا ہے اس لیے اپنے پورے دل ،پوری جان اور پوری طاقت سے اس کا خوف ماننا،اس سے محبت رکھنا ،اسکی ستایش کرنی اسے پکارنا اور اسکی خدمت کرنی چاہیے ۔لیکن لائق طور سے سچے خدا کی عبادت کرنا اس نے خود مقرر کیا ہے جو اس کی منکشف مرضی تک محدود ہے تاکہ انسان کے تخیلات اور ایجادات یا شیطان کی تجاویز کے مطابق کسی بھی مرئی اظہار یا پھر کسی بھی ایسے طریقے سے جو کلام مقدس میں مقرر نہ ہو اس کی عبادت نہ کی جائے‘‘ (ویسٹ منسٹر اقرار الایمان (۲۱ باب ۱جُز)

بات یہ ہے کہ پاک صحائف (یعنی خود خدا، چونکہ صحائف خدا کا کلام ہیں) حکم دیتا ہیں کہ ہم کیسے خدا کی عبادت کریں۔ لفظ حکم / مقرر کرنا اپنے اندر تصورِ اختیار رکھتا ہے۔ جب آپ دواخانے پر جاتے ہیں اور آپ کو یونہی کوئی دوا نہیں ملی جاتی بلکہ آپ کو ایک نسخے کی ضرورت ہے جو کہ ڈاکٹر کا دستخط کردہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے-  (آج کل یہ عام طور پر الیکٹرانک طور پر کیا جاتا ہے)اور ویسٹ منسٹر کے علماء  (ماہرینِ علمِ الٰہی جو ویسٹ منسٹر مجلس کے لئے جمع ہوئے) نے کیوں سوچا؟ یہ اِتنا اہم تھا؟ اِس کا جواب اقرار الایمان کے اِس سے پچھلے باب میں موجود ہے، جو کہ قابلِ غور ہے۔ اقرارالایمان کا سب سے اہم باب اور جو سترہویں صدی میں ایک بہت ہی خاص تناظر میں ترتیب دیا گیا ہے۔- ضمیر کی آزادی کا باب، اِس میں یہ انتہائی اہم بیان ہے کہ : ’’ضمیر کا واحد مالک خدا ہے اور اس نے اسکو ایسے انسانی نظریات اور احکامات سے آزاد رکھا ہے جو کسی بات میں ایمان اور عبادت کے معاملات میں اُس کے کلام سے متضاد ہیں‘‘ویسٹ منسٹر اقرارالایمان(۲۰ باب ۲ جُز)

عبادت میں کسی خاص عمل پر اِصرار کرنا جس کا پاک نوشتے واضح طور پر حکم نہیں دیتے، ضمیر کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ سترھویں صدی میں یہ ایک اہم مسئلہ تھا ۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بانیوں کے لئے بھی یہ ایک اہم مسئلہ تھا ، مثال کے طور پر، ضمیر کی آزادی، مذہبی آزادی کی واحد ضمانت تھی۔

ویسٹ منسٹر مجلس کا قیام اسکاٹ لینڈ پر بادشاہ (اور کلیسیائے) کی طرف سے عبادت کا طریقہ عائد کرنے کی کوششوں کے تناظر میں عمل میں آیا۔ اور اِن میں سے کچھ سکاٹس نے اس کام کی مخالفت کی ۔  مثال کے طور پر ، جینی گیڈس کی زبردست کہانی ہے۔ 1637 میں، چارلس اول نے اسکاٹ لینڈ کی عوام  پر انگریزی نژاد دعائیہ کتاب عائد  کریں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ’’جب ڈین جیمز حنا نے اس سے پڑھنا شروع کر دیا۔ . . جینی گیڈس نامی ایک مقامی خاتون نے جس پر وہ بیٹھی ہوئی تھی وہ فولڈنگ اسٹول اس کے سر پر مارا اور وہ چلّا رہی تھی کہ ’’میرے کان میں ماس مت کہو!‘‘

مذہبی اہمیت کے حامل اِن رسومات اور رواجوں کو جن کی  پاک نوشتوں میں تصدیق موجود نہ ہو مسلط کرنا ضمیر کی خلاف ورزی کرنا ہے۔

پاک نوشتوں کی سند:

بائبل عبادت کے ضابطہ کا اُصول کہاں سکھاتی ہے؟ عام طور پر کافی زیادہ جگہوں پر، خیمہ اجتماع کی تعمیر کے سلسلے میں خروج کی کتاب کی مستقل شرط بھی شامل ہے۔ سب کچھ کیا جائے ۔۔۔نمونہ کے مطابق. . . جو تجھ کو دکھایا گیا (خروج ۲۵: ۴۰)۔ اِس میں قائن کے ہدیہ پر سنایا گیا فیصلہ بھی شامل ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی قربانی (یا اس کا دل) خدا کے معیار کے مطابق نہیں تھا۔ (پیدائش ۴: ۳-۸) پہلا اور دوسرا حکم، جو عبادت کے حوالے سے خدا کی خاص سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے  (خروج ۲۰: ۲- ۶)۔سونے کے بچھڑے کا واقعہ، جو سکھاتا ہے کہ صرف ہماری اپنی اقدار اور ذوق کے مطابق عبادت نہیں کی جا سکتی ۔ندب اور ابیہو کی کہانی اور ان کا ’’اوپری آگ‘‘ چڑھانا (احبار 10)۔ ساؤل کی غیر مشروع عبادت کو خُدا کا رّد کرنا – خُدا نے کہا، ’’فرماں برداری قربانی چڑھانے سے بہتر ہے‘‘ (1 سموئیل۱۵: ۲۲)اور یسوع کا خود ساختہ عبادت اور ’’بزرگوں کی روایت‘‘ کو مسترد کرنا  (متی ۱۵: ۱۔ ۱۴)یہ سب باتیں پاک نوشتوں میں بیان کردہ اقدار اور ہدایات کے علاوہ کی جانے والی عبادت کے رّد کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

کُلُسّے اور کرنتھس میں غلط اجتماعی عبادت کے بارے میں پولس کا ردِ عمل خاص اہمیت کا حامل ہے۔ایک موقع پر ، پولس نے کلسے میں عوامی عبادت کو’’اتھیلو تھرسکیا‘‘(ethelothrskia  )کلسیوں 2 :23کے طور پر بیان کیا ہے، جس کے مختلف تراجم کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ ’’خودساختہ عبادت‘‘ (KJV) یا ’’اپنی ایجاد کی ہوئی عبادت‘‘(ESV)۔کلسیوں نے ایسے عناصر متعارف کروائے تھے جو واضح طور پر ناقابلِ قبول تھے۔  (یہاں تک کہ اگر وہ اپنے افعال کے لئے’’فرشتوں کے ذریعہ‘‘ کا دعوی کر رہے تھے – کلسیوں 2: 18 کی ایک ممکن تشریح، ’’فرشتوں کی عبادت‘‘ ہے۔غالباً یہ کرنتھیوں کے غیر زبانوں اور نبوت کے استعمال (غلط استعمال) کے بارے میں ہے جہاں ہمیں اجتماعی عبادت کو ’’منظم‘‘ کرنے کے لیے رسول کی شدید خواہش کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ وہ روحانی نعمتوں کے استعمال کی تعداد اور ترتیب دونوں کو اس طریقے سے منظم کرتا ہے جو ’’ساری زندگی‘‘پر لاگو نہیں ہوتا: مثلاً کسی بھی زبان کو مترجم کے بغیر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے (1 ۔کرنتھیوں 14 :27-28)، اور صرف دو یا تین نبی باری باری بول سکتے ہیں (1 کرنتھیوں ۱۴: ۲۷- ۲۸ )۔کم از کم، پولس کی کرنتھیوں کو دی گئی ہدایت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اجتماعی عبادت کو اس طور سے منظم کیا جانا چاہیے  جس کا اطلاق قدرے مختلف ہوتا ہے جو پوری زندگی کے لیے موزوں ہے۔

نتیجہ؟ عبادات کے خاص عناصر پر روشنی ڈالی جاتی ہے:

بائبل پڑھنا (1 تیمتھیس (۴: ۱۳)

• بائبل کی منادی کرنا (2 تیمتھیس (۴: ۲) 

• بائبل گانا (کلامِ منظوم) (افسیوں 5:19؛ کلسیوں 3 :16) – زبور کے ساتھ ساتھ دوسرے گیت جو کلام پر مبنی ہوں یعنی یسوع کی پیدائش، زندگی، موت، جی اُٹھنے اور صعود میں نجات کی تاریخ کے ارتقاء کو ظاہر کرتے ہیں۔

• بائبل سے دُعا کرنا—باپ کا گھر ’’دُعا کا گھر‘‘ ہے (متی ۲۱: ۱۳)

• دو کلیسیا ئی پاک رسومات کو  بائبل کو دیکھنا—بپتسمہ اور عشائے ربانی کو آگسطین نے ’’دیدنی کلام‘‘ کے طور پر پیش کیا(متی 28:19؛ اعمال 2:38-39؛ 1 کرنتھیوں 11 :23-26؛ کلسیوں 2: 11-12)۔ اس کے علاوہ، کبھی کبھار اِن عناصر جیسے قسمیں، نذریں، سنجیدہ روزے اور شکرگزاری کو بھی پہچانا اور نمایاں کیا گیا ہے (ملاحظہ فرمائیں ویسٹ منسٹر اقرارالایمان (۲۱ باب ۵ جُز)

اور بس! یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اجتماعی عبادت پر لاگو ہونے ولاے ضابطے کا اُصول کلیسیا کو نامناسب اور بیوقوفی کی حرکتوں سے آزاد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس بات کی تشہیر کرنے کے لیے ہم آزاد نہیں ہیں، کہ ادائیگی کرنے والےاگلے ہفتے کی اتوار کی عبادت میں بائبل کے اسباق کی نقل کریں۔

عبادت کے ضابطے کا اُصول  صرف ایک اُصول ہے۔ یہ ہر ایک سوال کا جواب نہیں دیتا جو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے، یہ کلیسیا کو ،میکانی عبادات کی یکسانیت کا پابند نہیں کرتا ہے۔اِس اُصول کی پابندی میں اُن معاملات میں، جن کا کلامِ مقدس نے خاص طور پر ذکر نہیں کیا تبدیلی کی کافی گنجائش ہے (ایڈیافورا)۔پس، اس طرح کے ضابطے کے اُصول کو اس بات کا تعین کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیا عصری یا روایتی گانے استعمال کیے جائیں، آیا تین آیات  کی تلاوت ہونی چاہئے یا تین ابواب کی،  ایک لمبی دعا کرنی چاہیے یا کئی چھوٹی دعائیں، آیا کہ  عشائے ربانی میں اصلی مے یا انگور کے رس کے ساتھ ایک ہی پیالہ یا انفرادی کپ استعمال کیے جائیں۔ان تمام مسائل پر یہ  اُصول ’’مگر سب باتیں شایستگی اور قرِینہ کے ساتھ عمل میں آئیں۔‘‘(۱۔ کرنتھیوں. 14: 40) کا اطلاق ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ عبادت کے ضابطے کو اس طرح استعمال ہیں کہ اجتماعی عبادت کو رسمی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اِن کے خیال میں زیادہ وزنی ہے۔ برعکس اس کے، سکاٹش اور آئرش پریسبیٹیرین کلیسیائیں ، پیوریٹنز کے  عبادتی طریق کی پیروی کرتی ہیں  اور اس وجہ سے وہ ان کی رسمی ترتیب میں (خفیف تغیر کی) گنجائش ہوتی ہے ۔تاہم، اگر کوئی یہ تجویز کرے کہ رقص یا ڈرامہ اجتماعی عبادت کا ایک دُرست پہلو ہے؟یہ سوال ان سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ بائبل میں اس کا جواز کہاں ہے؟ یہ تجویز کرنا کہ ایک مبلغ کو منبر کے پاس رقص کرنے  یا مندرجہ بالا معنی میں ’’ڈرامائی‘‘ آوازوں کے استعمال سے ادائیگی کرنا چاہیے، یہ بحث کو غیر معیاری بنا دیتا ہے۔حقیقت میں، کہ یہ دونوں باتیں جائز ہیں ایک بحث طلب موضوع ہے۔اس کے علاؤہ ان کو کسی عبادت میں لازمی بنا دینے کے لئے بائبل مقدس میں ایک آیت بھی نہیں ہے ۔ اس لیے زبوروں کے اشعار یا داؤد کے عہد کے صندوق کے سامنے رقص کرنے کی مثال (برہنگی کی حالت میں !) سے استدلال کرنا فضول ہے جب تک کہ ہم مصدقہ بائبلی اصولاتِ تفسیر کو ترک نہیں کرتے۔ یہ ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ ہیکل میں کوئی’’کوریوگرافر‘‘ یا ’’پروڈیوسر/ڈائریکٹر‘‘ کا عہدہ موجود نہیں تھا ۔مسیحی نقطہ نظر سے رقص یا ڈرامہ ایک جائز پیشے ہوسکتے ہیں لیکن یہ معاملہ فرق ہے۔ عبادت کے ضابطے کے اُصول کے بغیر، ہم ’’عبادت کرنے والے رہنماؤں‘‘ اور بدمعاشی کرنے والے پادریوں کے رحم و کرم پر ہیں جو غیر مطیع عبادت گزاروں پر خدا کو ناراض کرنے کا الزام لگاتے ہیں جب تک کہ وہ کسی خاص طور اور طریقہ کے مطابق شرکت نہ کریں۔ جب خدا کے بتائے ہوئے طریقے کا معاملہ ہو تو اطاعت کرنا ہی اصل آزادی ہے جب کہ غلامی اور شریعت پرستی  کچھ اور چیز ہے ۔

مدیر کا نوٹ ؛ آؤ خدا کی عبادت کریں مصنف ڈیرک ڈبلیو ایچ تھامس سے ماخوذ

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔