
نیا آسمان اور نئی زمین
07/05/2025
معادیاتی (آخرت)زندگی
13/05/2025مکاشفہ کی کتاب میں پائی جانے والی علامتیں

پوری بائبل خدا کا لاخطا کلام اور مستند مکاشفہ ہے۔ یہ مکاشفہ اَلفاظ کے ذریعے ہم تک پہنچاہے اور یہ اَلفاظ مختلف اَدبی انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، بائبل مقدس کے بعض حصے تاریخی بیانات پر مشتمل ہیں جبکہ کچھ شاعرانہ انداز میں قلم بند ہوئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ خدا کا مکاشفہ ہے، تاہم اِس کے درُست مفہوم کو سمجھنے کے لئے اِسے اِس کے مخصوص اَسلوبِ بیان میں مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ جب بائبلی تاریخ بیان کرتی ہے کہ داؤد ایک چروایا تھا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی بھیڑوں کی گلہ بانی کرتا تھا۔ جب زبور 23 کی شاعری یہ بیان کرتی ہے کہ ”خداوند ہمارا چوپان ہے“ تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند اپنے لوگوں کی اُسی طرح دیکھ بھال کرتا ہے جیسے ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر کوئی سمجھے کہ زبور 23 یہ سکھاتا ہے کہ خداوند حقیقت میں بھیڑوں کی گلہ بانی کرتا ہے تو وہ حقیقی پیغام کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔ کلامِ مقدس کی درُست تفسیر اور اُس کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ ہم مختلف اَدبی طریقوں کو پہچانیں جن میں بائبل کے اِنسانی مصنفین کو لکھنے کے لئے اِلہام بخشا گیا اور اِس بات کو سمجھیں کہ وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
اَدبی اَسلوب اور مصنف کے اِرادے پر گہری توجہ مبذول کرنا خاص طور پر اُس وقت ضروری ہو جاتا ہے جب ہم مکاشفہ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہاں پر یوحنا گہرے اَلفاظ کو علامتی زُبان کا اِستعمال کرتے ہوئے لکھ رہا ہے جو اکثر شاعرانہ انداز رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مکاشفہ کے پہلے باب میں یوحنا نے یسوع کو آسمانی ہیکل میں بیان کیا ہے جو کہ قابلِ غور بات ہے۔ وہ یسوع کا نام واضح طور پر اِستعمال نہیں کر رہا لیکن اُس کا مطلب بالکل واضح ہے۔ وہ آدم زاد سے کسی شخص کو دیکھتا ہے (مکاشفہ 13:1) تاہم وہ اِبتدا میں جو تصویر پیش کرتا ہے وہ بظاہر سادہ سی معلوم ہوتی ہے۔ ” اور اُن چراغ دانوں کے بیچ میں آدم زاد سا ایک شَخص دیکھا جو پاؤں تک کا جامہ پہنے اور سونے کا سِینہ بند سِینہ پر باندھے ہُوئے تھا۔ اُس کا سر اور بال سفید اُون بلکہ برف کی مانِند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شُعلہ کی مانِند تھِیں “(مکاشفہ 13:1-14)۔ ہمارے پاس پہلے سے کچھ سولات ہو سکتے ہیں۔ کیا پُرجلال مسیح حقیقت میں آسمان پر سفید بالوں کے ساتھ موجود ہیں؟ یہ ممکن تو ہے، لیکن شاید یوحنا یہاں پر شاعرانہ انداز میں بات کرتے ہوئے وہ مسیح کی بلوغت اور اُس کی حکمت کی طرف اِشارہ کر رہا ہے۔ کیا آسمان پر موجود مسیح کی آنکھیں واقعی آگ کے شعلے کی مانند ہیں؟ ایک بار پھر یوحنا ہمیں سکھا رہا ہے کہ مسیح کی بصارت کی گہرائی اور تفتیش کرنے کی قدرت بہت شدید ہے، بجائے اِس کے کہ وہ آنکھوں کے کسی مخصوص رنگ کو بیان کر رہا ہو۔
یہ سوالات دراصل یوحنا خود ہی یسوع کی آخری دو خصوصیات بیان کر کے ہمارے لئے حل کر دیتا ہے: ” اور اُس کے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نکلتی تھی اور اُس کا چہرہ اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب “(مکاشفہ 16:1)۔ یہ واضح ہے کہ یوحنا ہمیں سکھا رہا ہے کہ یسوع کے منہ سے خدا کا تیز اور فیصلہ کُن کلام نکلتا ہے، جیسا کہ ہم عبرانیوں 12:4 میں پڑھتے ہیں: ” کیوں کہ خدا کا کلام زِندہ اور مؤثّر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زِیادہ تیز ہے اور جان اور رُوح اور بند بند اور گُودے گُودے کو جُدا کر کے گُذر جاتا ہے اور دِل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے“۔ اِس سے بھی زیادہ یقینی طور پر، جب یوحنا لکھتا ہے کہ اُس کا چہرہ ایسے چمکتا تھا جیسے تیزی کے وقت آفتاب، تو وہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اُس کی بیان کردہ تفصیل آسمان پر یسوع کی ظاہری صورت سے بڑھ کر ایک گہرے معنی کو بیان کر رہی ہے۔ اگر یسوع کا چہرہ واقعی سورج کی مانند چمک رہا ہوتا، تو پھر یوحنا اُس کے بال، آنکھیں یا منہ دیکھ ہی نہ پاتا۔ یوحنا یسوع کے چہرے کے چمکنے کا ذِکر اُس کی جلالی حیثیت اور اُس نور کی تکمیل اور پاکیزگی کو بیان کرنے کے لئے کرتا ہے جو اُس میں ہے۔
یوحنا نے اِس کلام کو علامتی زُبان میں لکھنے کے انداز کا چناؤ کیوں کیا؟ اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ انداز اُس مفہوم کو بڑی طاقت کے ساتھ بیان کرتا ہے جو وہ ہمیں سمجھانا چاہتا ہے۔ یہ لکھنا کہ یسوع کا چہرہ ایسا چمک رہا تھا جیسے تیزی کے وقت آفتاب، ہمیں اُس کے جلال کے بارے میں بتانے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ دُوسری وجہ یہ ہے کہ یہ طرزِ بیان ہمیں رُکنے، غور کرنے اور گہرائی سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمیں اِس کتاب کو تیزی سے پڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اِس کی علامتی زُبان پر گہرائی سے غورو فکر کرنا چاہئے۔
مثال کے طور پر، یوحنا کے وسیلہ سے کلیسیاؤں کو تثلیث کی طرف سے دی گئی برکات پر غور کریں (مکاشفہ 4:1) جہا ں رُوح القدس کو ”اُن سات رُوحوں کی طرف سے جو تخت کے سامنے ہیں“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کیا یوحنا یہ سکھا رہا ہے کہ یہاں پر ایک کی بجائے سات رُوح القدس ہیں؟ جی نہیں! بلکہ وہ سات کے عدد کو علامتی طور پر اِستعمال کر رہا ہے تاکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اُس میں رُوح القدس کی کاملیت اور معموری کو ظاہر کرے۔ اِس تشریح کی تائید مکاشفہ 5:4 سے بھی ہوتی ہے: ” اور اُس تخت میں سے بجلیاں اور آوازیں اور گرجیں پیدا ہوتی ہیں اور اُس تخت کے سامنے آگ کے سات چِراغ جل رہے ہیں۔ یہ خُدا کی سات رُوحیں ہیں “ ۔ جیسے سات چراغ سات رُوحوں کی علامت ہیں، اُسی طرح سات رُوحیں درحقیقت رُوح القدس کی علامت ہیں۔ درحقیقت، اِس کتاب میں زیادہ تر مقامات پر اَعداد کو علامتی طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ہم مکاشفہ 5:5 میں بھی اِسی علامتی زبان کو دیکھتے ہیں جہاں اُس فاتح کا ذِکر ہے جو مہروں سے بند طومار کو کھول سکتا ہے، اُسے ”یہوداہ کے قبیلے کا ببر اور داؤد کی اصل“ بیان کیا گیا ہے۔ ایک بار پھر یوحنا یہاں پر کسی حقیقی شیر کی طرف اِشارہ نہیں کر رہا بلکہ وہ یسوع کی طاقت اور حاکمِ اعلیٰ ہونے کی قدرت کو بیان کر رہا ہے۔ پھر یوحنا اِس تصویر کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کر دیتا ہے جب وہ شیر کی بجائے ایک برّہ دیکھتا ہے: ” اور مَیں نے اُس تخت اور چاروں جانداروں اور اُن بُزرگوں کے بِیچ میں گویا ذِبح کِیا ہُؤا ایک برّہ کھڑا دیکھا۔ اُس کے ساتھ سِینگ اور سات آنکھیں تھِیں۔ یہ خدا کی ساتوں رُوحیں ہیں جو تمام رُوی ِزمِین پر بھیجی گئی ہیں“(6:5)۔ یسوع ایک طاقتور شیر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بیک وقت زِبح کیا ہوا برّہ بھی ہے جو نرسنگوں کی قدرت کے ساتھ رُوح القدس کی کامل معموری بھی رکھتا ہے۔
اب تک ہم نے جن مثالوں پر غور کیا ہے وہ پہچاننے اور سمجھنے میں نسبتاً آسان ہیں۔ یہ ہمیں یہ بھی دِکھاتی ہیں کہ یوحنا اکثر علامتوں کو اِستعمال کرتا اور پھر خود ہی اُن کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ مثلاً مکاشفہ 12:1 میں وہ سات چراغ دانوں کا ذِکر کرتا ہے اور پھر آیت 20 میں وہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ سات چراغ دان سات کلیسیائیں ہیں۔ جیسے ہی ہم اِس کتاب کے مطالعہ میں آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں کچھ زیادہ پیچیدہ اور گہرا مفہوم رکھنے والی علامتی زبان ملتی ہے۔ مثلاً پانچویں نرسنگے پر غور کریں جو ایک ٹڈیوں کی آفت لے کر آتا ہے۔ یہ عام ٹڈیوں کی مانند نہیں بلکہ گھوڑوں کی مانند دِکھائی دیتی ہیں جن کے چہرے اِنسانوں جیسے، بال عورتوں جیسے، دانت شروں جیسے، پروں کی آواز گرج دار اور اُن کی دُموں میں بچھوؤں کی طرح ڈنک ہوتے ہیں (مکاشفہ 10:9)۔ تو درحقیقت یہ آفت کیا ہے؟ یا پھر گھوڑے، بچھو یا مرکب مخلوق کی کوئی نئی قسم ہے جو ابھی تخلیق ہونا باقی ہے؟ ایک صدی سے زائد عرصہ قبل ایک مصنف نے خیال پیش کیا تھا کہ یہ آیت اُن فوجیوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو گھوڑوں پر سوار ہوکر پیچھے کی طرف بندوقیں چلا رہے ہوتے ہیں۔ دراصل اِس کی یہ تشریح حقیقت پر مبنی نہیں اور دَورِ جدید کے تناظر میں یہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ اگر ہم اِن تصاویر کو علامتی نقطہ نطر سے دیکھیں تو یہ زیادہ معنی خیز لگتی ہیں۔ یہ ایک ایسی آفت یا عدالت کی نمائندگی کرتے ہیں جو بے شمار طاقتور ہجوم کی صورت میں حملہ کرنے والی مخلوقات کے ذریعے آتی ہے، جو زہر آلود کر سکتی اور شدید اذّیت پہنچا سکتی ہیں۔ یوحنا بیان کرتا ہے کہ یہ ایک عارضی عدالت ہو گی جو پانچ مہینے کی جاری رہے گی۔ اگر پانچ مہینے طویل ہیں لیکن یہ لامحدود مُدت نہیں، بلکہ ایک محدود وقت کی مصیبت کی علامت ہے۔
جس طرح مکاشفہ کی کتاب میں تقریباً تمام تصاویر اور اَعداد و شمار علامتی ہیں، اِسی طرح وقت کے حوالے بھی زیادہ تر علامتی ہیں۔ تمام وقت کے اِشارے، آدھے گھنٹے سے لے کر ساڑھے تین سال تک، نسبتاً مختصر ہیں۔ سیاق و سباق کی روشنی میں، یہ اوقات تقریباً یقینی طور پر دُنیا میں راست بازوں کی مصیبت کے مختصر عرصے کی علامت ہیں۔ کتاب میں ایک خاص وقت کا حوالہ جو علامتی ہونے کی بجائے خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے وہ ایک ہزار سال کا عرصہ ہے (مکاشفہ 20)۔ اِس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اگرچہ یوحنا خدا کے لوگوں کی مصیبت کے وقت کو مختصر بیان کرتا ہے لیکن وہ فتح اور راحت کے وقت کو بہت طویل ظاہر کرتا ہے۔ جو بھی ہو لیکن اِس کا مزید مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ، یہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ خدا اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے براہِ راست تاریخ کی رہنمائی کر رہا ہے۔ (مَیں اِن تصویری اور علامتی موضوعات پر اپنی لیگونئیرکی تعلیمی سیریز ”مبارک اُمید “ میں تفصیل سے بحث کرتا ہوں۔ یوحنا وعدہ کرتا ہے کہ اِس کتاب کو بلند آواز سے پڑھنے والے اور اِس کے سُننے والے اور اِس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں (مکاشفہ 3:1)۔ درحقیقت، جب ہم آہستہ، غوروفکر اور سنجیدگی کے ساتھ اِس کا مطالعہ کریں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ خدا اِن تصویری علامتوں کے ذریعے ہمیں کیا سکھا رہا ہے تو ہم ضرور برکت پائیں گے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔