تین چیزیں جو آپ کو یشوع کی کتاب کے بارے میں جاننی چاہئیں
13/08/2024تین چیزیں جو آپ کو رُوت کی کتاب کے بارے میں جاننی چاہئیں
20/08/2024تین چیزیں جو آپ کو قضاۃ کی کتاب کے بارے میں جاننی چاہئیں
قضاۃ کی کتاب میں دو تعارُف (قضاۃ ۱: ۱-۲: ۵؛ ۲: ۶- ۳: ۶)، دو نتائج (قضاۃ ۱۷: ۱-۱۸: ۳۱؛ ۱۹: ۱-۲۱: ۲۵)، بارہ قاضی (چھ بڑے قاضی اور چھ چھوٹے قاضیوں) کے بیانات اور ایک مخالف قاضی، ابی ملک کا بیان ملتا ہے۔ یہ ایک نفیس ادبی کارنامہ ہے جو اسرائیل کی تاریخ میں نون کے بیٹے یشوع کی موت(قضاۃ ۱:۱؛ ۲: ۸) سے لے کر اسرائیلی بادشاہت کی آمد سے پہلے کے دَور کا ذِکر کرتا ہے۔الہٰیاتی طور پر، قضاۃ کی کتاب میں اسرائیل کی بت پرستی کے ذریعے سے عہد شکنی میں بتدریج زوال کا ذکر کِیا گیا ہے جو خداوند کے اِنہیں عہود کے ساتھ مستقل وفاداری کے تناظر میں ہے۔ یہاں تین چیزیں ہیں جو آپ کو قضاۃ کی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت جاننی چاہئیں۔
۱۔قضاۃ کی کتاب میں قاضی، مسیح کا نمونہ ہیں۔
قاضیوں کو خداوند خدا کی طرف سے برپا کِیا جاتا تھا، اور وہ روح کے ذریعے سے خدا کے لوگوں کو اُن کے دشمنوں سے چھڑانے، اپنے ملک میں چین سے رہنے اور اُنہیں عہد کی فرماں برداری کو فروغ دینے کے قابل بناتے تھے (قضاۃ ۲: ۱۶- ۱۹)۔ عصرِ حاضر کے مُفسرین عموماً قاضیوں کو اِخلاقی طور پر بدعنوان افراد کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو اپنے وقت کی بد کرداری میں ملوث تھے۔ تاہم، یہ نئے عہد نامے کے ابتدائی مُفسرین کا نظریہ نہیں تھا۔
عبرانیوں کی کتاب میں کئے گئے جائزے پر غور کریں۔ داؤد اور سموئیل کے ساتھ جدعون، برق، سمسون، اور اِفتاح (بعض نام نہاد بدترقانون شکن ) کو ایسے لوگوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے ’’جنہوں نے اِیمان ہی کے سبب سے سلطنتوں کو مغلوب کِیا۔ راست بازی کے کام کئے۔ وعدہ کی ہوئی چیزوں کو حاصل کِیا۔ شیروں کے مُنہ بند کئے۔ آگ کی تیزی کو بجھایا۔ تلوار کی دھار سے بچ نکلے۔ کمزوری میں زور آور ہوئے۔ لڑائی میں بہادُر بنے۔ غیروں کی فوجوں کو بھگا دِیا (عبرانیوں ۱۱: ۳۳- ۳۴)۔ اِن وفادارخادموں کی تعریف آیت ۴۰ کے ذریعے سے جاری ہے، اور اِنہیں مزید ایسے لوگوں کے طور پر بیان کِیا گیا ہےکہ ’’ دُنیا اُن کے لائق نہ تھی‘‘ (عبرانیوں ۱۱: ۳۸)۔
یہ بیان قاضیوں کے ابتدائی تاریخی جائزوں میں سے ایک سے بہتر مطابقت رکھتا ہے۔ یشوع بِن سراخ لکھتے ہیں کہ ’’ ایسے قاضی ،جن میں سے کسی ایک کو جب بھی بلایا گیا، وہ جن کے دِل کبھی بے وفا نہیں تھے، جنہوں نے کبھی خداوند خدا سے منہ نہیں موڑا تھا – اُن کی یاد مبارک ہو! اوَر اُن کی ہڈیاں اپنی جگہوں سے کلیاں نکالیں۔ اوَر اُن کےنام تازہ رہیں اوَ ر اُن کے بیٹے بزرگی کریں(یشوع بِن سراخ ۴۶: ۱۴- ۱۵)۔
جیسا کہ آپ قاضی کے متعلق بیانات کا سامنا کرتے ہیں، یاد رکھیں کہ یہ آپ کی ہدایت کے لئے لکھے گئے ہیں (رومیوں ۱۵: ۴) تاکہ ہم یسوع مسیح کو تکتے رہیں (عبرانیوں ۱۲: ۲)، جو سمسون کی طرح خدا کے لوگوں کی رہائی کے لئے اپنی جان دینے کے لئے اُس خدواند کے ذریعے سے مقرر کِیا گیا تھا (قضاۃ ۱۶: ۳۰)۔
۲۔قضاۃ کی کتاب کی ساخت الہٰیاتی ہے، نہ کہ محض تواریخی۔
جب آپ قضاۃ کی کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو کم از کم تین مختلف اعداد و شمار کا سامنا کرنا پڑے گا: دُشمن کے ظلم و ستم کے برس، وہ برس جن کے دوران میں ملک کو ستایا اور تنگ کِیا گیاتھا، اور وہ برس جن کے دوران میں ایک قاضی نے خدمات سرانجام دی تھیں۔ مثال کے طور پر، خداوند خُدا نے موآب کے بادشاہ عجلون کے ذریعے سے اٹھارہ برس کے ظلم و ستم کے بعد، اہُود کو بنی اسرائیل کے چھڑانے والے کے طور پر مقرر کِیا (قضاۃ ۳: ۱۴- ۱۵) اور اِس کے بعد، ملک میں اسّی برس تک چین رہا (قضاۃ ۳: ۳۰)۔ اِسی طرح، سمسون کے متعلق یہ بات دو دفعہ درج ہے کہ وہ بیس برس تک اِسرائیلیوں کا قاضی رہا (قضاۃ ۱۵: ۲۰؛ ۱۶: ۳۱)۔
بعض مُفسرین نے تمام اعداد و شمار کو شامل کرکے قضاۃ کی کتاب کی مدت کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، بعض بیانات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں، اوریوں احاطہ کئے گئے اَدوار میں رخنے موجود ہیں۔ قضاۃ کی کتاب میں زیادہ تر قاضی مقامی طور پر اپنے لوگوں کو چھڑایا کرتے تھے، اور بعض موقعوں پر سارے اسرائیل کو رہائی نہیں دِلا پاتے تھے۔ مزید برآں، اِس کتاب کے دو نتائج میں سے پہلے میں، موسیٰ کے پوتے یونتن کو دان کے قبیلے میں ایک ناجائز کاہن کے طور پر مقرر کیا گیا تھا (قضاۃ ۱۸: ۳۰)۔ یہ واقع قضاۃ کی کتاب کے ابتدائی دَور میں ہوا ہوگا، آخری اَدوار میں نہیں۔ اِس طرح، قضاۃ کی کتاب کی ساخت الہٰیاتی ہے، محض تورایخی نہیں۔
دوہرے تعارُف اور نتائج ایک دوسرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ پہلا تعارُف اور دوسرا نتیجہ ایک دوسرے کی عکاسی کرتا ہے اور اسرائیل کی میراث کے بحران، خاص طور پر ، اسرائیل کی ملک پر قبضہ کرنے میں ناکامی (قضاۃ۱: ۱- ۲: ۵) اور بنیمین کے قبیلے کا تقریباً مکمل خاتمہ، اُن کے سدوم جیسے گناہ کے باعث ہو اتھا ( قضاۃ ۱۹: ۱-۲۱: ۲۵)۔ دوسرا تعارُف اور پہلا نتیجہ بھی ایک دوسرے کی عکاسی کرتا اور اسرائیل کے اِیمان کے بحران کو بیان کرتا ہے، جس کا اِظہار اُن کی مسلسل بت پرستی میں کِیا گیا تھا، جو ملک پر قبضہ کرنے کی نااہلی اور اُن کی اخلاقی بد عنوانی کی وجہ بنا (قضاۃ ۲:۶- ۳: ۶؛ ۱۷: ۱-۱۸: ۳۱)۔
اِن تمہیدوں اور نتائج کے مابین ہم قضاۃ کی کتاب کے بیانات کا سامنا کرتے ہیں۔ چھ بڑے قاضیوں کو تین تین کے دو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: غُتنی ایل، اہُود، دبورہ/ برق، جدعون، اِفتاح اور سمسون۔ اورنام نہاد معمولی یا چھوٹے قاضیوں کے متعلق بہت مختصر بیانات (تین آیات یا اِس سے بھی کم) ہیں اور بڑے قاضیوں میں زیادہ باضابطہ عناصر کا فقدان ہے۔ چھوٹے قاضیوں کو، اسرائیل کے قبائل کی تعداد کے مطابق بارہ عدد حاصل کرنے کے لئے شامل کِیا گیا تھا۔ اہم قاضیوں کے بیانات کی نشاندہی کرنے کے لئے اِن کو درج کِیا گیااور اِن کی گروہ بندی کی گئی ہے۔ شمجر نے دبورہ/ برق کے بیان کو پہلی جامع قاضی کی کہانی کے طور پر نشان زدکِیا ہے۔ اِس کے بعد تولع اور یائیر نے اِفتاح کے بیان کو بھی نشان زَد کِیا۔ آخر میں،اِبصان، ایلون، اور عبدون نے سمسون کو آخری اور سب سے زیادہ اہم قاضی کے طور پر نشان زَد کِیا۔
جیسے جیسے بڑے قاضیوں میں پیش رفت ہوتی ہے ویسے ویسے اسرائیل کی بدعنوانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اور یوں قاضی کو اپنی قوم کی رہائی کے لئے قیمت بھی زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے، کیوں کہ آخری قاضی سمسون نے دشمن کو شکست دینے کے لئے اپنی جان دے دی ( قضاۃ ۱۶: ۳۰)۔
۳۔ قضاۃ کی کتاب، اسرائیل کی بادشاہت کی راہ ہموار کرتی ہے۔
یہ عمومی طور پر تسلیم کِیا جاتا ہے کہ اِس کتاب کے نتائج میں چار ایک جیسے بیانات، اسرائیل کی بادشاہی کی پیش گوئی کرتے ہیں: ’’ان دِنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہیں تھا‘‘ (یہوداہ ۱۷:۶؛ ۱۸: ۱؛ ۱۹: ۱؛ ۲۱: ۲۵)۔ اِن میں سے دو بیانات کے بعد، اُس وقت کی نوعیت کی وضاحت کی گئی ہے: ’’ہر شخص جو کچھ اُس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا وہی کرتا تھا‘‘ (قضاۃ ۱۷: ۶؛ ۲۱: ۲۵)۔ اِسرائیل کو ایک ایسے بادشاہ کی ضرورت تھی جو خدا کی شریعت کو جانتا ہو، اِس شریعت کا تابع ہو، اور فرماں برداری میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہو (دیکھیں، ۱۷: ۱۴-۲۰)۔
قضاۃ کی کتاب ہمیں غیر متوقع طریقوں سے اُس بادشاہی کے لئے بھی تیار کرتی ہے جو اسرائیل کے پہلے دو بادشاہوں یعنی ساؤل اور داؤد کی آمد کے ساتھ آئے گی۔ قضاۃ کی کتاب یہوداہ کے حامی (داؤد) اور بنیمین کے مخالف (ساؤل) کے متعلق متنازع ہے۔ مثال کے طور پر، کتاب کے پہلے باب میں یہوداہ کےاپنے علاقے پر نسبتاً، کامیاب قبضے کے بارے میں اُنیس آیات وقف کی گئی ہیں (یہوداہ 1: 2-20)۔ اِس کے فوری بعد ایک آیت، جس میں بنیمین کا اپنے علاقے پر مکمل قبضہ کرنے میں ناکامی اور پھر کنعانیوں کے ساتھ مسلسل قیام کے متعلق بیان کِیا گیا ہے: ’’ اور بنی بنیمین نے اُن یبوسیوں کو جو یروشلیم رہتے تھے نہ نکالا۔ سو یبوسی بنی بنیمین کے ساتھ آج تک یروشلیم میں رہتے ہیں‘‘ (قضاۃ ۱: ۲۱)۔ اور پھر آخرکار، قضاۃ ۱۹ باب میں، جِبعہ میں، بنیمینی ، سدوم کے گناہ کا اِرتکاب کرتے ہیں اور پھر سارے قبیلے کو مکمل تباہی یعنی قتل کر کے خاک میں مِلا دِیا جاتا ہے (قضاۃ ۲۰: ۲۱)۔ اِس طرح، جب بنی اسرائیل دوسری سب قوموں کی طرح ایک بادشاہ کا مطالبہ کرتی ہے (۱- سموئیل ۸: ۵)، تو خداوند اُنہیں وہی دیتا ہے جو وہ بنیمین کے قبیلے میں جبعہ کے شہر سے مانگتے ہیں یعنی ساؤل۔ یقینی طور پر ایک پیشگی انتخاب کے باعث ساؤل ، بادشاہ کی حیثیت سے اپنے کردار میں بہت المناک طور پر ناکام رہا تھا۔
یہ مضمون بائبل کی ہر کتاب کا حصہ اورتین چیزیں جاننے کے مجموعے سے ہے
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔