تین  چیزیں جو آپ کوزبور کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
14/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کوغزل الغزلات کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کوزبور کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
14/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کوغزل الغزلات کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024

تین  چیزیں جو آپ کوواعِظ کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  


۱۔ واعِظ کی کتاب ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ زِندگی مختصر ہے۔

بہت سے لوگ واعِظ کی کتاب کے  شروع میں ہی ٹھوکر کھاتے ہیں، کیوں وہ  کتاب کےبیان کردہ موضوع سے  لغزش کا شکار ہوتے ہیں۔ انگریزی بائبل کے کنگ جیمس ورژن (اور دیگر متعلقہ تراجم ) میں اِس کے موضوع کو یوں بیان کِیا گیا ہے کہ ’’باطِل ہی باطِل واعِظ کہتا ہے باطِل ہی باطِل۔ سب کچھ باطِل ہے (واعِظ ۱: ۲)۔  اور انگریزی بائبل کا این آئی وی(NIV) ترجمہ اِسے  بیان کرتا ہے کہ ’’ بالکل بے معنی!، سب کچھ بے معنی ہے۔‘‘ اور انگریزی بائبل کے ہی سی ایس بی(CSB) ترجمے کے مطابق : ’’بالکل بےکار،  سب کچھ بے کار ہے۔‘‘ اگر سب کچھ باطِل، بے معنی اور بے کار ہے ، تو اِس کا مزید مطالعہ کیوں کریں؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ بیان اُن تمام باتوں سے متصادم  معلوم ہوتا ہے جو بائبل مقدس ، ہمیں زِندگی کے بارے میں سیکھاتی ہے۔

 شاید مسئلہ اِن تراجم اور اِن کی توقعات کے ساتھ ہے۔ عبرانی لفظ جس کا ترجمہ ’’باطِل‘‘ (ہیبل/ Hebel)  ہے جس میں عارضی پن، عدم استحکام اور تیزی سے گزر جانے کا احساس ہے۔  یعقوب رسول اِس نظریے  کو اُس وقت بیان کرتا  ہے جب وہ اپنے خط میں لکھتا  ہے کہ، ’’تمہاری زِندگی چیز ہی کیا ہے؟ بخارات کا سا حال ہے۔ ابھی نظر آئے۔ ابھی غائب ہو گئے‘‘ (یعقوب ۴: ۱۴)۔  سب سے پہلی بات جو ہمیں واعِظ کی کتاب  کے بارے میں جاننی یا سیکھنی   چاہئے  وہ  یہ ہے کہ یہاں ہماری زِندگی  سورج کے نیچے  گزر رہی ہے۔

ہمارے دِن بہت کم ہیں اور جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ واعِظ کہتا ہے،’’ایک پُشت جاتی ہے اور دُوسری پُشت آتی ہے‘‘ (واعِظ ۱: ۴)۔ اور  یہ نظریہ ساری کتابِ مقدس میں پایا جاتا ہے  ( دیکھیں، زبور ۹۰: ۱۰؛  ۱۰۳: ۱۵؛  یعقوب ۴: ۱۴)۔اِسی طرح کانظریہ ہمیں ۲- کرنتھیوں ۴: ۱۸ میں بھی ملتا ہے: ’’جس حال میں کہ ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں، کیوں کہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں مگر اندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔‘‘  چونکہ ہماری زِندگی مختصر ہے،  ’’جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر‘‘ ( واعِظ ۹: ۱۰)۔  


۲۔ واعِظ کی کتاب ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ ہم ایک  برگشتہ دُنیا میں رہ رہے ہیں۔

دوسری چیز جو ہمیں واعِظ کی کتاب کے  بارے میں جاننی چاہئے  وہ واعِظ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک برگشتہ  دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ جب مَیں ایک مسیحی بنا، تو ایک پیرا چرچ خدمت جس کے ساتھ مَیں نے کچھ وقت گزارا تھا ، اُن کے پاس  ایک بشارتی کتابچہ تھا  جس میں یوحنا ۱۰: ۱۰ پر زور دِیا گیا تھا:
’’ مَیں اِس لئے آیا ہوں کہ وہ زِندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔‘‘ اِس سے مجھ میں اپنی زندگی کے لئے  آگے کے آسان راستے کی توقعات پیدا ہوئیں، حالانکہ اِس اقتباس کا مطلب بالکل بھی یہ نہیں تھا۔ درحقیقت، مجھے یہ سیکھنا تھا  کہ مجھے ایک نئی زِندگی دی گئی ہے،جب یہ دُنیا  ابھی تک دوبارہ  سے خلق بھی  نہیں ہوئی۔

پولُس رسول بھی ہمیں یہی بات سیکھاتا ہے جب وہ  اپنے خط  میں لکھتا ہے کہ ’’اِس لئے مخلوقات بطالت کے اختیار میں کر دی گئی تھی۔ نہ اپنی خوشی سے بلکہ اُس کے باعث سے جس نے اُس کو، اِس اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دِیا کہ مخلوقات  بھی فنا کے قبضے سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائے گی‘‘ (رومیوں ۸: ۲۰- ۲۱)۔  پولُس رسول جس لفظ کا استعمال کرتا ہے اُس کا ترجمہ انگریزی بائبل ای ایس وی (ESV) میں ’’بے کار ‘‘  کِیا گیا ہے، یہ وہی یونانی لفظ ہے جو ہفتادی ترجمہ (پرانے عہد نامے کا یونانی ترجمہ)  واعِظ کی کتاب  میں لفظ   ہیبل (Hebel)کا ترجمہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔  


۳۔ واعِظ کی کتاب ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ اِس برگشتہ  دُنیا میں خوشی ممکن ہے۔  

ہیبل لفظ کے مذکورہ بالا،  تراجم بالکل غلط نہیں ہیں۔کیوں کہ ہم ایک عارضی مخلوق ہیں اورگناہ کے باعث ناراست یا  بگڑی ہوئی دُنیا میں رہتے ہیں، لہٰذا، ہماری سرگرمیاں بعض اوقات  بے کار لگ سکتی ہیں۔ ہماری مصروفیت بھی بے معنی ہو سکتی ہے۔ ہماری زِندگی بالکل باطِل  لگ سکتی ہیں۔  اگر واعِظ کو یہ سب کچھ کہنا تھا، تو واقعی ہی یہ ایک ایسی کتاب ہوگی جس کے باعث ٹھوکر کھائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ، ہمیں تیسری چیز سیکھنے کی ضرورت ہے جو واعِظ کی کتاب کہتی ہے کہ : خوشی پھر بھی ممکن ہے، یہاں تک کہ اِس برگشتہ دُنیا میں بھی۔ 

واعِظ اِس بات کو  واضح کرتا ہے کہ خوشی ہمیشہ وہاں نہیں ملتی، جہاں ہم اِسے تلاش کرنے کی توقع کر تے ہیں۔ یہ  بڑی تقریبات یا یادگار لمحات میں بھی نہیں حاصل کی جا سکتی ۔ اِس کی بجائے، یہ ہماری دُنیاوی زِندگی کے عمومی اور سادہ  پہلوؤں میں پائی جاتی  ہے: ’’پس اِنسان کے لئے اِس سے بہتر کچھ بھی نہیں کہ وہ کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت کے درمیان خوش ہو کر اپنا جی بہلائے، مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ بھی خدا کے ہاتھ سے ہے‘‘ (واعِظ ۲: ۲۴)۔  سلیمان بادشاہ ہمیں بار بار  زِندگی کے اِن عمومی  پہلوؤں کو تلاش کرنے اور اِن سے لُطف اندوز ہونے  کے لئے سب سے پہلے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ 

اور دوسرا، وہ ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنے کی تاکید کرتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے اچھی نعمتیں یا بخشش ہے: ’’ ہر ایک اِنسان کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے فائدہ اُٹھائے۔ یہ بھی خدا کی بخشش ہے‘‘ ( دیکھیں،  واعِظ ۳: ۱۳؛  ۵: ۱۹- ۲۰؛ ۸: ۱۵؛ ۹: ۷)۔ جیسا کہ یعقوب رسول بیان کرتا ہے کہ: ’’ہر اچھی بخشش اور ہر کامِل اِنعام اُوپر سے ہے اور نُوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردِش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔ اُس نے اپنی مرضی سے ہمیں کلامِ حق کے وسیلے سے پیدا کِیا تاکہ اُس کی مخلوقات میں سے ہم ایک طرح کے پہلے پھل ہوں‘‘ (یعقوب ۱: ۱۷- ۱۸)۔ اور جو خوشی وہ ہمیں یہاں رہتے ہوئے دیتا ہے وہ ایک ایسی دُنیا میں آنے کی خوشی کا پیش خیمہ ہے  جہاں ہم ناراست  اور عارضی نہیں  ہوں گے ،  بلکہ اُس کی  لافانی مخلوق ہوں گے۔ 

یہ مضمون بائبل کی ہر کتاب کا حصہ اورتین چیزیں جاننے کے مجموعے  سے ہے

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔