تین  چیزیں جو آپ کوواعِظ کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کومتی کی اِنجیل  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کوواعِظ کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024
تین  چیزیں جو آپ کومتی کی اِنجیل  کے بارے میں جاننی چاہئیں  
20/09/2024

تین  چیزیں جو آپ کوغزل الغزلات کی کتاب  کے بارے میں جاننی چاہئیں  

غزل الغزلات کی کتاب، سلیمان بادشاہ کی روایت میں ایک منظوم تحریر ہے ( غزلُ الغزلات ۱: ۱)، جس  میں واِعظ اور اِمثال کی کتاب جیسا ادب بھی شامل ہے۔عبرانی میں غزل الغزالات کی کتاب کے عنوان کی گرائمر (’’گیتوں کے گیت‘‘)ہے، جس کا مطلب ہے  ’’ سب سے بہترین گیت‘‘، جیسے ’’بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ یا ’’ خداوندوں کا خدا‘‘۔

 یہ اعلیٰ نام    غیر معمولی طور پر  متاثر کُن ہے، کیوں کہ سلیمان بادشاہ نے ایک ہزار پانچ گیت لکھے تھے (۱-سلاطین ۴: ۳۲)۔ بظاہر، زمرے کے لحاظ  سے یہ سب سے بہترین ہے، لیکن کلیسیا نے غزل الغزلات کے پیغام کو اِس کے قریبی اور یہاں تک کہ جِنسی مواد کی وجہ سے مکمل طور پر  سراہنے کے لئے جدوجہد کی ہے۔  یہاں تین چیزیں ہیں جو آپ کو غزل الغزلات  کی کتاب کے بارے میں جاننی چاہئیں۔


۱۔ غزلُ  الغزلات کے مرکزی پیغام  کی سمجھ،آخر میں آتی ہے۔

یہ خصوصیت پرانے عہد نامے میں دیگر  تحریروں میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، واعِظ کے آخری باب میں، مُصنف نے آخر کار ہر  چیز کو اپنے مناسب تناظر میں پیش کیا ہے:  ’’حاصلِ کلام یہی ہے۔ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ اِنسان کا فرضِ کُلی یہی ہے‘‘ (واعِظ ۱۲: ۱۳)۔ اسی طرح، ایک بار جب ہم ایوب کی کتاب کا آخری باب پڑھتے ہیں، تو ہم واپس جانے اور جو کچھ ہوا،  اُس کے سبب کو سمجھنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ہدایت کےاِسی  طریقے کا اِطلاق ،  غزل الغزلات کی کتاب پر بھی  ہوتا ہے۔

کتاب میں مرکزی تدریسی اکائی ، غزل الغزلات ۸: ۶- ۱۰ آیات میں واقع ہے۔ نچوڑ کے طور پر، یہ گیت سیکھاتا ہے کہ شادی کے عہد میں وابستگی ( غزل الغزلات  ۸: ۶ الف) اور قربت ( غزل الغزلات ۸: ۶ ب) دونوں شامل ہونی چاہئیں۔ ایک شادی جو اِن   دونوں حقائق کو برقرار رکھنے کے لئے پُرعزم ہے وہ مشکلات کو بہتر طریقے سے برداشت کرے گی  ( غزل الغزلات ۸: ۷ الف)، آزمائش کا مقابلہ کرے گی ( غزل الغزلات ۸: ۷ ب)، اور اِس تعلق کے تناظر میں کاملیت (شالوم) کو فروغ دے گی ( غزل الغزلات ۸: ۱۰)۔  یہ دُنیا ، شادی کے رشتے میں، قربت کے حصے کو پسند کرتی ہے، لیکن چٹان جیسے مضبوط عہد  کی کاملیت کو مسترد کر دیتی ہے۔  دوسری طرف، کلیسیا  گرمی جوشی  سے  زِندگی بھر، چٹان کی مانند مضبوط وابستگی کی تصدیق کرتی ہے، لیکن اُس نے پیدائش ۲ باب میں شادی کے تعلق کے تناظر میں جنسی قربت کی بھلائی کو فروغ دینے کے لئے بہت کم کام کِیا ہے۔ ہمیں دونوں حقائق کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہونا چاہئے۔ 


۲۔ غزل الغزلات  کی کِتاب، شادی  اور خدا کے اپنے لوگوں کے ساتھ تعلق،  دونوں کو بیان کرتی ہے۔

غزل الغزلات کی کتاب، محض شادی کے تناظر میں وابستگی اور قربت کے بارے میں ہی بیان نہیں کرتی ہے۔ بلکہ یہ اُس قِسم کے تعلقات کے بارے میں بھی بات کرتی ہے جو خداوند خدا  اپنے لوگوں کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم، یہ محض ایک فرضی تمثیل نہیں ہے جس میں خداوند خدا اور بنی اسرائیل یا یسوع مسیح اور اُس کلیسیا کے درمیان تعلق کو بیان کِیا گیا ہے۔ یہ کتاب، بغیر کسی ندامت کےازدواجی زندگی  کے تناظر میں وابستگی اور قربت کے متعلق حکمت کا ایک  گیت ہے۔ لیکن بائبل مقدس اِس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ پیدائش ۲ باب  میں شادی کا عہد، مکاشفہ  ۱۹ – ۲۲ ابواب  میں معادیاتی (Eschatological) شادی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مرتب کِیا گیا تھا۔

اِفسیوں ۵ باب کے آخر میں، پولُس رسول کا یہی نقطہ ہے جب وہ پیدائش ۲باب کا حوالہ دیتا ہے: ’’اِسی سبب سے آدمی باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے۔ یہ بھید تو بڑا ہے لیکن مَیں مسیح اور کلیسیا کی بابت کہتا ہوں‘‘ ( اِفسیوں ۵: ۳۱- ۳۲)۔ شادی کے رشتے میں و ہ تمام اچھائیاں جو خدا نے قائم کی  ہیں، وہ نئے آسمان اور نئی زمین میں بڑھیں گی اور کامل ہوں گی۔  مزید برآں، گناہ کی وجہ سے شادی میں ہونے والے تمام دُکھ و مصیبت اور خسارے کا خاتمہ ہو جائے گا۔  کتابِ مقدس میں، شادی ایک اہم موضوع ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ  بائبل مقدس کے شروع سے آخر تک  شادی کا یہ  رشتہ ترتیب دیا گیا ہے   ۔ اِس طرح، شادی کا عہد، ہمیں اُس اُمید کی یاد دِلاتا ہے جو اُس اختتام پر ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ 


۳۔غزل الغزلات میں علامتی  زبان بہت زیادہ استعما ل ہوئی  ہے۔

شاعری، مُسلمہ بیانیہ یا نثر سے زیادہ،جمالیاتی  لسانی  انداز کا استعمال کرتی ہے۔ کسی دوسری زبان  اور  قدیم ثقافت کے علامتی تاثرات  ہمارے اپنے ثقافتی اور لسانی سیاق و سباق سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مَیں اِن الفاظ سے اپنی بیوی کی تعریف نہیں کرسکوں گا کہ، ’’تیرے بال بکریوں کے گلّے کی مانند ہیں‘‘ (غزل الغزلات ۴: ۱) یا  ’’تیری کنپٹیاں تیرے نقاب کے نیچے انار کے ٹکڑوں کی مانند ہیں‘‘ ( غزل الغزلات ۴: ۳)۔ غزل الغزلات  ۴: ۲ میں ہم مزید پڑھتے ہیں کہ:  

تیرے دانت بھیڑوں کے گلّے کی مانند ہیں 

جن کے بال کُترے گئے ہوں اورجن کو غُسل دِیا گیا ہو۔ 

جن میں سے ہر ایک نے دو بچے دئیے ہوں اور

اُن میں ایک بھی بانجھ نہ ہو۔

مَیں نے کبھی ایسے واقعے کا مشاہدہ نہیں کِیا اور نہ  مجھے ہی بھیڑوں کے بارے  میں زیادہ تجربہ ہے، اِس لئے،  اِن تعریفی الفاظ کو  سمجھنے کے لئے کچھ کام یا توجہ درکار ہے ، جہاں اُس خاتون کے دانت سفید ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی بانجھ نہیں ہے۔ غزل الغزلات ۴: ۱۱ میں استعمال کی جانے والی زبان پر غور کریں، جس میں عورت کو رومانوی طور پر عمدہ یا پسندیدہ قرار دِیا  گیا ہے۔  اِس میں لکھا ہے کہ: 

اے میری زوجہ! تیرے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے۔

شہد و شِیر تیری زبان تلے ہیں۔

تیری پوشاک کی خوشبو لُبنان کی سی ہے۔

شہد، شہد و شِیر اور لبنان کی خوشبو ہماری پسند یا خواہش کی جدید وضاحتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہے، لیکن ہم تعریفی الفاظ کے اِن قدیم طریقوں کو داد دے  سکتے ہیں، کیوں کہ یہ ساری تشبیہات ہمارے اپنے تناظر میں سُرخ مے، عِطر، یا گلاب کی پنکھڑیوں جیسی چیزوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ 

غزل الغزلات  کی کتاب  میں استعاراتی زبان بھی استعمال  کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم  اِن آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

میری ماں کے بیٹے مجھ سے ناخوش تھے 

اُنہوں نے مجھ سے تاکستانوں کی نگہبانی کرائی 

لیکن مَیں نے اپنے تاکستان کی نگہبانی نہیں کی۔ ( غزل الغزلات ۱: ۶)۔ 

اِن آیات میں ایک خاتون بتاتی ہے کہ اُس کی جلد کی رنگت سیاہ ہو گئی ہے، کیوں کہ اُس کے بھائیوں نے  اُسے اپنے خاندانی تاکستان  کی نگہبانی کرنے پر مجبور کِیا تھا ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ  اُس کے پاس اپنے تاکستان یعنی اپنے بدن کی دیکھ بھال کرنے کا وقت نہیں تھا۔ یہی استعاراتی ترتیب، اِس کتاب کے آخری باب میں دوبارہ سے ظاہر ہوتی ہے، جہاں سلیمان کا تاکستان،  ایک عورت کے اپنے تاکستان کے ساتھ مل کر ظاہر ہوتا ہے؛ اور یہاں ایک دفعہ پھر تاکِستان کا مطلب، اُس کا بدن ہے ( غزل الغزلات ۱۱: ۸)۔ 

آخر میں، غزل الغزلات کی کتاب  اُن موضوعات پر پردہ ڈالنے کے لئے حُسن ِ تعبیر یا خوش کلامی  کا استعمال کرتی ہے۔یہ ایک  نازک اسلوب ہے اور  جس کے لئے کسی حد تک شائستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔  مثال کے طور پر، محبوب کو  قربت کی دعوت کے طور پر بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ’’اپنے باغ میں آئے اور اپنے لذیذ میوے کھائے‘‘ ( غزل الغزلات ۴: ۱۶)۔  اسی طرح، ہم پڑھتے ہیں ’’ مَیں نے کہا مَیں اِس کھجور پر چڑھوں گا اور اِس کی شاخوں کو پکڑوں گا‘‘ ( غزل الغزلات ۷: ۸)۔  باب ۳ میں  اکثر نظر انداز کئے جانے والے الفاظ دِکھائی دیتے ہیں جہاں سلیمان بادشاہ کی ’’ پالکی‘‘ کے اِرد گرد ساٹھ پہلوان کو ’’شمشیر زن‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے  ( غزل الغزلات ۳: ۸)، لیکن عبرانی متن  اُنہیں’’ شمشیر تھامے ہوئے‘‘ بیان کرتا ہے۔  دوسرے لفظوں میں وہ خواجہ سرا تھے۔ غزل الغزلات  میں علامتی زبان کا استعمال اُن چیزوں میں سے ایک ہے جو اِسے بہترین  گیتوں میں سے ایک بناتی ہے۔ کتاب کے اِس پہلو پر خصوصی توجہ دینے سے قارئین کو یقیناً،  اجرملے گی۔

یہ مضمون بائبل کی ہر کتاب کا حصہ اورتین چیزیں جاننے کے مجموعے  سے ہے

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔