مارٹن لوُتھر کا انتقال کیسے ہوا؟
26/07/2023ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: محدود یا مخصوص کفارہ
07/09/2023ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: غیر مشروط برگزیدگی یا چناؤ
برگزیدگی یا چناؤ کا اصلاحی نقطہ نظر جسے غیر مشروط برگزیدگی کے نام سے جانا جاتا ہے اس سے مُراد یہ ہے کہ خُدا ہم میں کسی نیک عمل اور حیثیت کو پیشگی دیکھ کر اور اس سے آمادہ ہوکر ہمیں نجات نہیں بخشتا۔ بلکہ برگزیدگی خُدا کے خود مختار فیصلہ پر مبنی ہے کہ وہ جسے چاہے بچائے۔ رومیوں کے خط میں ہم اس پیچیدہ تصور کو دیکھتے ہیں ۔
: رومیوں9باب10تا13آیات میں مرقوم ہے
اور صِرف یہی نہیں بلکہ رِبقہ بھی ایک شخص یعنی ہمارے باپ اِضحاق سے حامِلہ تھی۔اور ابھی تک نہ تو لڑکے پَیدا ہُوئے تھے اور نہ اُنہوں نے نیکی یا بدی کی تھی کہ اُس سے کہا گیا کہ بڑا چھوٹے کی خِدمت کرے گا۔تاکہ خُدا کا اِرادہ جو برگُزِیدگی پر مَوقُوف ہے اَعمال پر مَبنی نہ ٹھہرے بلکہ بُلانے والے پر۔چُنانچہ لِکھا ہے کہ مَیں نے یعقُوبؔ سے تو مُحبّت کی مگر عیسَو سے نفرت۔
یہاں پر پولُس رسول برگزیدگی کے نظریے کے بارے میں اپنی تفسیر پیش کر رہا ہے۔ وہ اِس موضوع پر رومیوں8باب میں بھی پُر معنی انداز میں بحث کرتا ہے لیکن یہاں پر وہ برگزیدگی کے نظریے کی اپنی تعلیم کو ماضی کے یہودی لوگوں میں جڑواں بھائیوں یعقوب اور عیسؔو کی پیدایش کے گردو پیش حالات و اقعات کو دیکھتے ہوئے پیش کرتا ہے۔ قدیم دُنیا میں یہ دستور تھا کہ پہلوٹھا ہی میراث یا آباؤاجداد کی برکات حاصل کرے۔ لیکن اِن جڑواں بھائیوں کے معاملہ میں خُدا نے اس عمل یا ترکیب کو اُلٹ دیا اور بڑے کی بجائے چھوٹے کو برکت دی ہے۔ جس نکتے کو پولُس رسول بڑی جانفشانی سے پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خُدا نہ صرف جڑواں بچوں کی پیدا یش سے قبل فیصلہ کر تا ہے بلکہ وہ اُنکے کسی اچھے یا بُرےعمل کو دیکھے بغیر ایسا کرتا ہے تاکہ خُدا کا مقصد پورا ہو ۔ ا س لئے ہماری نجات کا دارومدار ہم پر نہیں بلکہ اس کا دارومدار صرف اور صرف خُدا کے رحیم اور خود مختار فیصلے پر ہے۔
اس سے یہ مُراد بھی نہیں کہ خُدا لوگوں کو ایمان لانے یا نہ لانے کے بغیر نجات بخشے گا۔خُدا نجات کے لئے بعض شرائط کا حکم صادر فرماتا ہے جن میں مسیح پر شخص ایمان لانا شامل ہے۔ تاہم یہ شرط تصدیق (راستباز ٹھہرائے جانے) کے لئے ہےاور برگزیدگی کا نظریہ اس سے مختلف ہے۔جب ہم غیر مشروط برگزیدگی کی بات کرتے ہیں تو ہم بڑے محدود انداز میں چناؤ کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
تو پھر کن بنیادوں پر خُدا بعض لوگوں کو چُنتا ہے؟کیا یہ برگزیدگوں میں کسی پیشگی ردّ عمل، جواب یا کارکردگی کی بنیاد پر ہے؟ بہت سارے لوگ برگزیدگی اور تقادیر الٰہی کے نظریات کو اس طرح دیکھتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ابدیت میں خُدا نے وقت کی سرنگ سے دیکھا اور پہلے سے جانا کہ کون انجیل کو قبول کرے گا اور کون قبول نہیں کرے گا۔ نجات کی اس شرط پر پورا اُترنے والوں کے بارے میں اس پیشگی علم یعنی ایمان کا اظہار کرنےیامسیح میں ایمان لانے کی بنیاد پر خُدا نے اُنہیں بچایا ہے۔یہ مشروط برگزیدگی ہے اور جس سے مُراد یہ کہ خُدا نے برگزیدگی کا فضل انسان کے خود شرائط کو پورا کرنے کی بنیاد پر کیا ہے۔
غیر مشروط برگزیدگی میرے خیال میں ایک اور اصطلاح ہے جو غلط فہمی کا موجب بن سکتی ہے اس لئے مَیں ’’خود مختار برگزیدگی‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا زیادہ پسند کرونگا۔اگر خُدا اپنی خود مختاری سے بعض گنہگاروں کو اپنا فضل عطا کرنے کا انتخاب کر تا ہے اور دیگر سے اپنا فضل روکے رکھتا ہے تو کیا اس میں انصاف کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ وہ جنہوں نے یہ نعمت وصول نہیں کی کیا وہ کوئی ایسی شے وصول کرتے ہیں جس کے وہ مستحق نہ تھے؟ اگر خُدا اِ گہنگاروں کو ہلاک ہونے دیتا ہے تو کیا وہ اُن سے بے انصافی سے پیش آتا ہے؟ بےشک ایسا نہیں۔ایک گروہ فضل وصول کرتا ہے اور دوسرا انصاف۔ کسی ایک کے ساتھ بھی بے انصافی نہیں ہوتی۔ پولُس رسول کو اس احتجاج کی توقع تھی جسے وہ 14آیت کے پہلے حصے میں یوں بیان کرتا ہے:’’کیا خُدا کے ہاں بے انصافی ہے؟‘‘اور14آیت کے دوسرے حصے میں اس کا پُرو زور طریقے سے جواب پیش کرتا ہے :’’ہر گز نہیں!‘‘اس کے بعد وہ اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے : ’’کیونکہ وہ مُوسیٰ سے کہتا ہے کہ جِس پر رحم کرنا منظُور ہے اُس پر رحم کرُوں گا اور جِس پر ترس کھانا منظُور ہے اُس پر ترس کھاؤں گا‘‘ (15آیت)۔یہاں پر پولُس رسول اپنے قارئین کو وہ بات یاد دِلا رہا ہے جس کا اعلان موسیٰ نے صدیوں پہلے کیا تھا یعنی خُدا اس بات کا الٰہی حق رکھتا ہے کہ جب چاہے اور جس پر چاہے رحم کرے ۔ اس لئے وہ ابتدا ہی سے کہتا ہے ’’جس پر رحم کرنا منظور ہے اُس پر رحم کرُوں گا اور جس پر ترس کھانا منظور ہے اُس پر ترس کھاونگا۔ ‘‘یہ شرائط پوری کرنے والوں پر منحصر نہیں بلکہ اُن پر جن کو اپنی بخشش نوازتا ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔