
لبرل ازم: ایک مختلف مذہب
18/03/2025
مسیحیت اور دُنیاوی فلسفہ
25/03/2025اَمریکی کلیسیا میں جدیدیت کا تنازع

ایلن میکری، جو جے گریشم میچن کے ساتھ ویسٹ منسٹر تھیولاجیکل سیمنری میں شامل ہونے والے اِبتدائی فیکلٹی ممبر میں سے ایک تھے، اُس نے ایک بار مشاہدہ کیاکہ ”مسیح کی کلیسیا نے سچائی کو برقرار رکھنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی ہے “۔یہ دائمی جدوجہد 1890ءسے 1930ء کی دِہائی کے درمیان ایک نہایت سنگین صورت اِختیار کر گئی۔ نئی صدی کی اُمید نے ایک ترقی پسند جذبے اور اِنسان کی نیکی اور اُس کی ممکنہ کامیابیوں پر بے پناہ یقین کو جنم دیا۔ جنگِ عظیم اوّل نے خاص طور پر یورپ کو ایک خاص دھچکا پہنچایا۔ تاہم اَمریکہ جو ایک سمندر کے فاصلے پر تھا اور جنگ سے براہِ راست متاثر نہ ہوا،1920ء کی دِہائی میں اندھادُھند راہِ فرار اِختیار کر گیا۔ اِس دَور کو بعد میں "The Roaring Twenties” کہا گیا۔ اِس وسیع تر دَور کی عمومی شناخت ”جدیدیت“کے نام سے ہوئی۔ جدیدیت کے بنیادی اہداف میں خدا کا اِنکار اور مذہب کی مکمل نفی شامل تھی۔ یہ ثقافتی زلزلہ اَمریکی کلیسیاپر بہت شدید انداز میں اَثر انداز ہوا۔
جب جدیدیت پسندوں نے خدا کو پیچھے چھوڑ دیا اور کلیسیا سے نکلنے لگے تو مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والی کلیسیائی قیادت نے اپنے اِلٰہیاتی عقائداورترجیحات پر نظر ثانی شروع کر دی۔ وہ ثقافتی گفت و شنید سے باہر نکلنے کو بالکل تیار نہیں تھے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا نظریہ سامنے آیا جسے کلیسیائی مورخین ”لبرل اِزم “کہتے ہیں۔ لبرل اِزم نے جدیدیت کی حساسیت کو اپنایا، جس کا خلاصہ بنیادی طور پر ماورائی اور مافوق الفطرت عقائد سے بیزاری اور اِنسانی نیکی اور اُس کی صلاحیت پر ایک اِلہٰی درجے کا یقین تھا۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ کتابِ مقدس کے نظریات کو لاخطا اور مستند تسلیم کرنے کا عقیدہ مسترد کر دیا گیا۔ اِس کا مطلب ہے کہ خدا کو صرف محبت اور قبولیت پر مبنی ایک ہستی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اِس کا مطلب ہے کہ مسیح کو ایک نیک اِنسان یا ایک شاندار اُستاد کی حد تک محدود کر دیا گیا۔ اِس کا مطلب ہے کہ صلیب کو محض محبت اور قربانی کی ایک مثال قرار دے دیا گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں قائم ہونے والی خدا کی بادشاہی کوآخرت کے بجائے زمین پر ایک مثالی اور سماجی اِنصاف کے نظام میں تبدیل ہو جائے گی۔ اِن مجموعی نظریات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کلیسیا نے اپنےحقیقی مقصد یعنی تاریکی میں نور بن کر چمکنا چھوڑ دیا۔
جیسا کہ میکری کا اِقتباس ہمیں یاد دِلاتا ےہے،تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سچائی کا دِفاع کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اُنیسویں صدی کی اِبتدائی دِہائیوں میں اِن کو ”بنیاد پرست“کہا جاتا تھا۔ ”بنیاد پرست“ کا لفظ سب سے پہلے کسی ایسے شخص کو بیان کرنے کے لئے اِستعمال کیا گیا جو بنیادی عقائد کا یقین رکھتا اور اُن کے لئے جنگ کرتا تھا۔ اِس میں کتابِ مقدس کا لاخطا ہونا ، مسیح کی اُلوہیت، صلیب پر اُس کا متبادل کفارہ، معجزات اور اِنجیل کی منادی اور اُس پر اِیمان جیسے بنیادی عقائد شامل تھے۔ بنیاد پرستی اور لبرل اِزم کے درمیان فرق کی بہتر تفہیم کے لئے اِن تین اَفراد پر غور کریں: چارلس اگستس بریگز (1841-1913ء) ہیری ایمرسن فوسڈک (1878–1969ء) اور جے گریشام میچن (1881–1937ء)۔
بریگز نے نیویارک میں یونین تھیولاجیکل سیمنری (پریسبیٹیرین چرچ آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ (PCUS میں تعلیم حاصل کی اور اُس نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے جرمنی کا رُخ کیا۔ بریگز نے مکمل طور پر ”اعلیٰ تنقیدی نظریہ “ کو اپنا لیا، یہ نظریہ بنیادی طور پر کتابِ مقدس کواِلٰہی ماخذ ہونے کی تردِید کرتا اور اِسے اُسی سخت جانچ پڑتال کا نشانہ بناتا ہے، جیسے کہ کسی بھی عام متن کو پرکھا جاتا ہے۔ مشہور مبلغ بلی سنڈؔے اپنی بشارتی عبادات میں اکثر یہ طنزیہ جملہ اِستعمال کرتا تھا: ”جہنم کو اُلٹا کر دیکھو تو نیچے یہ مہر لگی ہوگی کہ یہ جرمنی میں تیار ہوئی ہے“۔ جب سنڈے نے یہ کہا تو اُسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اِس کا براہِ راست اَثر بریگز جیسے امریکی اسکالر کے ذہن پر پڑا۔ 1880ء کی دِہائی کے دوران، بریگز نے قدامت پسندوں، بالخصوص پرنسٹن تھیولاجیکل سیمنری کی فیکلٹی کے ساتھ جھگڑا کیا۔ 1891ء میں جب ایڈورڈ روبنسن ببلیکل تھیولوجی یونین، میں اُسے اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا تو اُس نے اپنےاِفتتاحی لیکچر میں ایک زوردار حملہ کیا۔ اُس لیکچر کا عنوان ”کتابِِ مقدس کا اِختیار“ تھا، جس میں اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ ” لفظی اِلہام“ کا نظریہ، خدا کے کلام کو درُست طور پر سمجھنے میں ایک رکاوٹ ہے“ ۔ بریگز پر بدعتی ہونے کا اِلزام لگایا گیا اور 1893ء میں اُسے قصوروار پایا گیا، جس نے اُسے یونین سیمنری کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم، یونین نے فوراً ہی اُسے ایک آزاد مالیاتی معاونت کے ذریعے دوبارہ ملازمت پر بحال کیا۔ اِس فیصلے نے گویا روایتی عقیدے کے پشتے میں ایک دراڑ ڈال دی۔ یونین سیمنری، رفتہ رفتہ پریسبیٹیرین چرچ اور مجموعی طور پر اَمریکی چرچ میں آزاد خیالی کا مرکز بن گئی اور بہت سی یونیورسٹیوں اور بائبل سیمنریوں میں بائبلی اسکالرشپ آزاد خیال اور گمراہ کن نظریات سے بھر گئی جس کے نتیجے میں راسخ الاعتقاد اور مستند نظریات ایک ایک کر کے مٹنا شروع ہو گئے۔
ڈائٹرچ بون ہافر نے 1929-30ء کا عرصہ یونین میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارا اور اُسے اِنتہائی بدحال پایا۔ نیویارک شہر کے گرجا گھروں کو بھی اُس نے یکساں طور پر اِنتہائی خراب حالت میں پایا۔ اُس نے یکے بعد دِیگرے گرجا گھروں کا دورہ کیا، جس میں فاسڈک کا گرجا گھر بھی شامل تھا، اور بالآخر اُس نے اپنے گھر بھیجی گئی رپورٹ میں مختصراً لکھا کہ ”یہاں عِلم الٰہی کا فقدان ہے“۔اُس کا اصل مطلب یہ تھا کہ جو کچھ وہ منبروں سے سُن رہا تھا، وہ خدا کا کلام نہیں بلکہ محض اِنسانوں کی باتیں تھیں۔ تنقید عالیہ کی سوچ جس کا آغاز جرمنی سے ہوا، اَمریکہ کے علمی حلقوں سے ہوتی ہوئی امریکی کلیسیا میں سرایت کر گئی۔ بے شک خیالات کے نتائج ہوتے ہیں۔ اگر بریگز لبرل اِزم کے علمی دُنیا پر اَثرات کی نمائندگی کرتا ہے تو فاسڈک کلیسیا پر لبرل اِزم کے اَثرات کو واضح کرتا ہے۔ دو چیزوں نے فاسڈک کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا: وہ ایک پُرکشش اور بااَثر شخصیت کا حامل تھا، اور اُسے اَمریکہ کے امیر ترین شخص، جان ڈی راک فیلر، کی حمایت حاصل تھی۔
21 مئی 1992ء کو فاسڈک نے ایک وعظ پیش کیا کہ ”کیا بنیاد پرست جیت جائیں گے؟“ جس میں اُس نے مسیحی اِیمان پر جدید اِصطلاحات میں مکمل طور پرنظرِ ثانی کی۔ یہ مکمل طور پر روایتی مفاہمت تھی۔ مثال کے طور پر، مسیح کی کنواری سے پیدایش کے بارے میں اُس کا نظریہ دیکھیں۔ بنیاد پرست کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہمیں مسیح کی کنواری سے پیدایش کو ایک تاریخی حقیقت اور ناقابلِ تردِید سچائی کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ لیکن فاسڈک نے اِس کے برعکس کہا: ” کسی عظیم شخصیت کی وضاحت کے لیے کنواری سے پیدایش پر اِیمان رکھنا قدیم دُنیا کا ایک معروف طریقہ تھا، جس کے ذریعے غیر معمولی برتری کو بیان کیا جاتا تھا“۔ اِس کےبعد اُس نے مزید بیان کرتےہوئے کہا کہ بدھ اور زرتشت کی پیدایش بھی اِسی طرح بیان کی گئی ہے۔ پھر بھی مسیح کی کنواری سے پیدایش کا اِنکار مسیح کی اُلوہیت سے اِنکار کے مترادف ہے اور یہ اِنجیل پر راسخ الاعتقاد ہونے کا بھی اِنکار ہے۔رچرڈ ایچ ۔ نیئبر۔Richard H. Niebuhr نے لبرل اِزم کی تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ایک ایسا خدا جس میں غضب نہ ہو، ایسے اِنسانوں کو جو گناہ سے پاک ہوں، ایک ایسی بادشاہی میں لے آتا ہے جس میں کوئی عدالت نہ ہو، ایک ایسے مسیح کے ذریعے جو صلیب پر مصلوب نہ ہوا ہو“۔ یہ کچھ فاسڈک کی تعلیمات تھیں۔
اِس ہنگامے میں جے گریشام میچن سامنے آئے۔ میچن ایک وکیل کا بیٹا تھا جو بالٹی مور میں وکالت کرتاتھا، اور اُس کی والدہ (نی گریشن) میکون، جارجیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُس نے جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں کلاسیکی علوم کی تعلیم اور پھر پرنسٹن تھیولاجیکل سیمنری سے ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اِس کے بعد وہ مزید تعلیم کےلئے جرمنی چلا گیا۔ پھر وہ پرنسٹن سیمنری میں واپس آیا، جہاں اُس نے 1906ء تا 1929ء تک بطور پروفیسر خدمات سر اَنجام دیں، جو جنگِ عظیم اوّل کے دوران فرانس میں وائی۔ ایم۔ سی۔ اے کے ساتھ دو سالہ خدمات کے سبب تعطل کا شکار ہو گئی۔ اُسے”پرنسٹن کے شیر“ بینجمن بریکنریج وارفیلڈ کی حمایت حاصل تھی۔ جب وارفیلڈ 1921ء میں وفات پا گیا تو اِیمان کے محافظ ہونے کا منصب میچن کے سپرد ہو گیا۔
میچن نے اپنی اَسناد حاصل کر لی تھیں اور اُس نے جرمن کے اعلیٰ تنقیدی نظریات کا براہِ راست سامنا کیا، اور وہ تیز فہم ذہن کا مالک تھا۔ وہ راسخ الاعتقاد نظریات، مافوق الفطرت عناصر اور اِنجیل سے محبت کرتا تھا۔ اِن سب چیزوں کا اَثر 1923ء میں شائع ہونے والی اُس کتاب ”مسیحیت اور لبرل اِزم“ پر ہوا۔یہ کتاب مسیحیت کے بنیادی نظریات کا جائزہ پیش کرتی اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ لبرل اِزم مسیحیت کا کوئی نیا ورژن نہیں ہے، بلکہ سراسر ایک جھوٹی اِنجیل ہے۔ نتیجتاً،لبرل اِزم کوئی اُمید پیش نہیں کرتی۔ یہ روٹی کے بجائے پتھر پیش کرتی ہے۔
میچن کی کتاب کو لبرل اِزم کے حامیوں نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنی تنقیدی تحاریر میں اُس پر شدید حملے کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدیدیت کے ماہرین، جیسے کہ والٹر لِپ مین اور ایچ۔ایل مینکن نے اِس کتاب کا احترام کیا اور میچن کے دلائل کی صداقت کو تسلیم کیا۔ بنیاد پرستی کے حامیوں کےلئے اپنے اِیمان کی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے اِس کتاب نے اُن کی ریڑھ کی ہڈی میں مضبوطی پیدا کی۔ لیکن میچن کے ساتھ اِس کتاب کے بعد کیا ہوا؟
1929ء میں پرنسٹن تھیولوجیکل سیمنری نے اپنے بورڈ کی تنظیم ِنو کی اور براہ راست لبرل اِزم کی طرف مڑ گئی، جس کے نتیجے میں میچن کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ جس کے بعد وہ ڈیلاوئیر دریاعبورکرکے فلدلفیہ چلا گیا اور وہاں جا کر ویسٹ منسٹر تھیولاجیکل سیمنری قائم کی۔ جب میچن نے ایک نیا مشن بورڈ منظم کیا، کیوں کہ اُس وقت کی مذہبی تنظیموں نے اپنی توجہ اِنجیل کی منادی سے ہٹا کر سماجی تبدیلیوں ی جانب مرکوز کر لی تھی، تو اُسے اُس کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ 1936ء میں اُس نے آرتھوڈوکس پریسبٹرین کی تشکیلی قیادت کی۔ چند ماہ بعد، یکم جنوری 1937ء کو میچن شمالی ڈکوٹا میں نمونیا کی وجہ سے وفات پا گیا، جہاں وہ ایک نئے فرقے کے ایک چرچ میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے گیا تھا۔
میچن کے پہلے سوانح نگار اور ساتھی نیڈ اسٹون ہاؤس نےجان بنیان کے بہادر کردار کے بعد اُسے ”سچائی کے لئے بہادر“ کہا۔ اور واقعی وہ ایسا ہی تھا۔ میچن کی کتاب اور اُس کی جدوجہد وقت کے لحاظ سے نہایت موزوں تھی۔ لیکن اِس کی ایک معنی خیز ابدیت بھی ہے۔ لہٰذا ” مسیحیت اور لبرل ازم “شاید آج، اپنی پہلی اِشاعت کے سو سال بعد، اصل کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابلِ اِطلاق ہے۔ جب ہم اپنے دَور میں اِیمان کے لئے ہونے والی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی کشمکش میں حصہ لے رہے ہیں، تو ہمیں میچن اور اُس کی کتاب کے لئے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور بہتر ہوگا کہ ہم اُس کے ورق گردانی میں کچھ وقت گزاریں۔
بالکل یہی وجہ ہے کہ ہم بر سر پکار ہیں، جیسا کہ میچن نے کیا، مضبوطی سے کھڑے ہو کر اور ایمان کے لیے جو ایک بار مقدسین کو بخشا گیا تھا، یسوع مسیح کی خوشخبری اور ہمارے ثالوث خدا کے جلال کی خاطر۔ کیونکہ انجیل کے بغیر بنی نوع انسان کے لیے اُمید کا کوئی پیغام نہیں ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔