خدُا کی بادشاہی کیا ہے ؟
08/03/2024
خُدا کی بادشاہی اورپاک نوشتے
21/03/2024
خدُا کی بادشاہی کیا ہے ؟
08/03/2024
خُدا کی بادشاہی اورپاک نوشتے
21/03/2024

خدا کی بادشاہی کا بادشاہ

قدیم زمانے میں، ایک بادشاہ بذاتِ خود عوامی تعمیراتی مہمات کی نگرانی کرتا، جنگ کے دوران اپنی قومی فوجوں کی قیادت کرتا اور انصاف کے نظام کو منظم کرتا تھا۔ اِن تمام امور کی ادائیگی میں وہ حکمت کا پرچار کیا کرتا تھا۔ بادشاہ اپنی سلطنت کی شناخت کے لئے مجسمہ اور اپنی رعایا کے لئے کامل عکس ہوتا تھا۔ اُسے اکثر قوم کا باپ کہا جاتا تھا۔ یہ عکس محض سیاست یا حکومت کے علاوہ بادشاہ اور اُس کے لوگوں کے درمیان گہرے تعلقات پیش کرتا تھا   ۔ اگر اِن کے درمیان تعلقات بہترین ہوتے تو سلطنت کے لوگ شان دار طور سے ترقی کرتے اور اگر بادشاہ اور اُس کی عوام کے درمیان تعلقات بدتر ہوتے تو عوام کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

’’بادشاہ‘‘ خدا کی نجات کے منصوبے میں

 نسلی ِ انسانی کی تخلیق کا یہی مقصد تھا کہ وہ ایک بادشاہ کے ماتحت ہو اور خدا تعالیٰ نے انسان کو اِسی لئے خلق کیا کہ وہ آسمان کی بادشاہی کا حصہ ہے۔ یہ دراصل خدا کے ارادہ میں شامل تھا جب اُس نے ہمیں ایماگو دئی(imago Dei)   ’’خدا کی شبیہ‘‘ یعنی ہمیں اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اُس نے انسان کو زمین کی مٹی سے بنایا اور اُنہیں اختیار دیا کہ وہ زمین کو معمورومحکوم کریں۔ پیدائش  کی کتاب  کےپہلے باب میں زمین کو ایک ایسے جسمانی محل کے طور پر دکھایا گیاہے جس میں انسان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مخلوقات پر حکومت کرے اور اپنے الٰہی بادشاہ اور خالق کی نمائندگی کرے (۲۷تا۲۸آیات)۔ بادشاہی  کی شناخت انسان کو اُس کی بنیادی پہچان کے متعلق بتاتی ہے۔ یہاں تک کہ زوال کی مکمل ناکامی اور تباہی کی روشنی میں، انسانیت کو اب بھی خدا کے جلال سے معمور زمین کے اس  منظر پر نگاہ رکھنے کے لیے بلایا جاتا ہے، جس مقصد کے لئے خدا نے اِس دُنیا کو اپنے جلال سے معمور کیا اورہماری ابدی رہائی اور چھٹکارے کا انتظام کیا۔ اب ضرور ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اُس کی کامِل مرضی کو مانگیں کہ جس طرح اُس کی مرضی آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو ’’جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ‘‘ (متی ۶باب۱۰آیت؛ یسعیاہ ۶باب۳آیت)۔ یسوع مسیح نے ہمیں اِس طرح دُعا کرنا سکھایا، کیوں کہ وہ بھی اُس دِن کا منتظر ہے۔

اِنسان کے گناہ میں گِرنے کے بعد، خدا باپ نے زمین کے تمام خاندانوں میں سے ایک خاندان کو چُن لیا۔ نجات کے منصوبے کی تکمیل کے لئے بادشاہ اُس کی نسل سے برپا ہوں گے۔ ابرہام سے نہ صرف یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ خدا اُسے ایک عظیم قوم بنائے گا بلکہ یہ کہ ’’ بادشاہ تیری اولاد میں سے برپا ہوں گے ‘‘ ( پیدائش ۱۷باب۶آیت)۔ پرانے عہد نامے کے بزرگانہ  دَور میں نجات کی اُمید کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ابرہام کی نسل میں سے ایک بادشاہ آئے گا جس کی سلطنت ابد تک قائم رہے گی۔

یہ تصور موسوی عہد میں بھر پور ہے جہاں ہمیں مستقبل کے بادشاہ کے لئے خدا باپ کے قائم کردہ وہ اُصول  اور قیود ملتی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک بادشاہ خدا کا وفادار بن سکتا ہے۔ (استثنا۱۷باب۱۴تا۲۰آیات)۔ ہمیں اِس بات سے تعجب نہیں  ہوناچاہئے کہ ایک حقیقی بادشاہ کو اپنی تاج پوشی سے پہلے اُصول و ضوابط کے اِس عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ موسوی تعلیمات زیادہ تر اُن برکتوں کو قبول کرتی ہے جو ابھی بنی اسرائیل کے لئے فراہم کرنا باقی تھیں۔ وہاں موعودہ سر زمین کے اطراف میں موآب کی گزرگاہوں پر واقع، بنی اسرائیل کی اُمید کی بڑی حد تک اِستثنا کی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، بشمول خدا کی طرف سے ایک مقدس جگہ کا انتظام، زمین پر رہنے کی شرائط، الٰہی حکومت کی وضع اور یہ کہ اسرائیل کے خدوخال کے مطابق کس قسم کے بادشاہ کو اُن پر حکومت کرنی چاہئے۔

یشوع کی تاریخی کُتب  سے  سموئیل کی دوسری کتاب میں یہ کہانی پیش کی گئی ہےکہ بنی اسرائیل اِس اُمید پر کس طرح قائم رہے اور ہمیں یہ دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہئے کہ بادشاہی ایک اَور عہد میں دوبارہ قائم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور اِس دفعہ داؤد بادشاہ کا تخت ابد تک قائم کیا جائے گا (۲-سموئیل  ۷باب)۔ اِس سے پہلے ابرہام اور موسیٰ کی طرح داؤد بادشاہ کے ساتھ خدا نے وہ عہد باندھا جس کی تکمیل مستقبل میں کئی سالوں بعد ہوئی۔  

عہدِعتیق کا متفقہ پیغام واضح ہے، ابتدا ہی سے ہمارے الٰہی بادشاہ نے انسانیت کو اپنے مقرر کردہ انسانی بادشاہ کی حکمرانی کے تحت متحد کرنے کا ارادہ کیا، جو زمین کو اپنی راست  اور  فیض رساں حاکمیت سے محکوم کرے گا۔ جیساکہ پرانے عہد نامہ میں ابدی بادشاہ کا بھید ابھی پوشیدہ تھا اور اِسی لئے داؤد کی نسل سے کسی مخصوص شخصیت کی شناخت نہیں ہو سکی، لیکن جب نئے عہد نامے میں خدا اِس بھید کو کھولتا ہے تو یسوع مسیح حقیقی ابدی بادشاہ اور عہد کے اصل وارث کے طور پر نظر آتا ہے۔ درحقیقت، خدا کے تمام وعدے مسیح میں ’’ ہاں‘‘ اور اُن لوگوں کے لئے ’’ آمین‘‘ ہیں جو اُس کی ابدی بادشاہی میں اُس کے ساتھ متحد ہیں (۲-کرنتھیوں ۱باب۲۰آیت)۔

مسیح کی موعودہ بادشاہی

یسوع مسیح اپنے آپ کو اُس بادشاہ کے طور پر ظاہر کرتا ہے جس کی منتظر تمام نسل ِ انسانی تھی، کیوں کہ وہ واحد کامل، بے عیب انسان اور عہد کا وارث ہے جو خدا تعالیٰ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اِس طرح وہ ’’پچھلا آدم‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱۵باب۴۵؛ رومیوں ۵باب۱۲تا۲۱آیات ۲۱؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵باب۲۲آیت)، حقیقی اسرائیلی (متی۲باب۱۵آیت؛ یوحنا ۱۵باب۱تا۱۷آیات)، ابنِ داؤد (متی ۱باب۱آیت؛۹ باب۲۷ آیت؛۲۰ باب ۳۰ آیت) اور فرصِ منصبی کی ادائیگی اور مذکورہ بالا عہود کی متوقع میراث کا حق دار ہے۔

مسیح سے پہلے کے عہد کے پیشواؤں کے برعکس، خداوند یسوع اپنے لوگوں کے لئے خدا کے ساتھ منفرد شناخت کی حیثیت سے اپنے عہد کوپیش کرتا ہے۔  رسولی مصنفین  مسیح کے اختیار کو کائنات میں  اعلیٰ اور اُتم   اظہارکے طور پر پیش کرنے  کے پابند تھے۔

 کیونکہ وہ اُس (خدا)کی ذات کا نقش‘‘ (عبرانیوں ۱باب۳آیت)، ــ’’الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے‘‘ (کلسیوں ۲باب۹آیت)، اور جسے ’’ہر طرح کی حکومت اور اختیار اور قدرت اور ریاست اور ہر ایک نام سے بہت بلند کِیا‘‘ (افسیوں ۱باب۲۱آیت۱)۔ اِس طرح مسیح کا عہد گذشتہ تمام عہُود سے افضل ہے؛ دراصل یہ وہ حقیقت ہے جس کی پیش گوئی عہدِعتیق میں ہوئی تھی (رومیوں ۵باب۱۴آیت؛ کلسیوں ۲باب۷آیت؛ عبرانیوں ۵باب۸آیت ؛۹باب ۲۳تا۲۳آیات؛ ۱۰باب۱آیت)۔  

پرانے عہد نامے میں جو بھی اور جس  چیزنے بھی مسیح کی بادشاہی کی پیش  کیا تھا وہ اب توقع، سایہ اور مثال کی حیثیت سے مستعفی ہو گئی ہے۔ یہ چیزیں مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اب اُس میں اپنا مطلب تلاش کرتی ہیں۔ابدی بادشاہی مسیح یسوع کی زمینی خدمت کے لئے ایک موضوعی نمونہ فراہم کرتی ہے۔ خداوند یسوع اپنی ابدی بادشاہی کی گواہی سے اپنی منادی کا آغاز کرتا ہے (متی ۴باب۱۷آیت؛ مرقس ۱باب ۱۵ آیت ) ، اور مسیح اپنے رسولوں کو حکم دیتا ہے کہ اُس کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد وہ نجات کے اِس منصوبے کو جاری رکھیں (متی ۲۸باب۱۶تا۲۰آیات )۔ ویسٹ منسٹر  مختصر کیٹیکیزم کے  مطابق ’’مسیح بحیثیتِ بادشاہ ہم کو اپنے تابع کرتا اور ہم پر حکومت کرتا ہے، ہماری حمایت کرتا ہے اور اپنے اور ہمارے دشمنوں کو روکتا اور  اُن پر غالب آتا ہے ‘‘(سوال و جواب۲۶)۔ جو لوگ خدا کے مقدسین میں شمار ہوتے ہیں وہ اُس ابدی بادشاہ کی تعظیم اور اطاعت کرتے ہیں جسے خدا نے اُن کے لئے مقرر کیا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی اور ذریعے سے نجات حاصل کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا یعنی اپنے اخلاقی اعمال یا کسی بچھڑے کی قربانی سے۔ ضرور ہے کہ وہ مسیح کی ابدی بادشاہی کو قبول کرے۔ جب کہ یسوع کے زمانے کے بہت سے فقیہوں اور فریسیوں نے بلاشبہ اُس کی تعلیم کی مخالفت کی، کیوں کہ وہ شریعت پرستی کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں نے کبھی یہ تصور ہی نہ کیا ہو کہ یسوع مسیح جیسی شخصیت پر ایمان لانے سے نجات مل سکتی ہے۔ پرانے عہد نامے میں مختلف بغاوتوں کی طرح ، اُن لوگوں کا خدا باپ کے مقررہ اختیار کو مسترد کرنا خود خدا کے خلاف بغاوت تھی (گنتی ۱۶باب؛ یوحنا ۸باب۱۹آیت)۔ اگر کوئی مسیح خداوند کی بادشاہت سے انکار کرتا ہے تو ابدی نجات حاصل کے لئے موسیٰ کی شریعت یا داؤدسے کئے گئے وعدوں کو قبول کرنا کافی نہیں۔ جیسا کہ یسوع مسیح نے خبردار کیا ’’ اگر تم مجھے جانتے ہو تو میرے باپ کو بھی جانتے ہو ‘‘ (یوحنا ۱۴باب۷آیت)۔

ابتدا ہی سے، الٰہی بادشاہ نے اپنے مقرر ہ ازلی بادشاہ کی حکمرانی کے ماتحت
ہمیں متحد کرنے کا ارادہ کیا۔

آج تک مسیح یسوع خدا قادرِ مطلق کے دہنے ہاتھ سے حکمرانی کرتاہے (اعمال ۵باب۳۱آیت؛ کلسیوں ۳باب۱آیت)۔ نتیجتاً، اب کلیسیا عہد کے سربراہ کے طور پر ماضی کے مقدسین کو نہیں دیکھتی اور نہ ہی گذشتہ نسل کی دنیاوی یادگار کو دیکھتی ہےبلکہ ہم ایک ابدی بادشاہ کو اپنا بنیادی اور اعلیٰ اختیار سمجھتے ہیں۔ 

مسیح کی ابدی بادشاہی

عالم گیر کلیسیا کے ارکان مسیح یسوع میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرے طور پر متحد ہیں جیسے وہ باپ، بیٹا اور روح القدس کے درمیان رفاقت میں شریک ہیں۔ یہ روحانی رفاقت ایمان داروں کو مسیح میں مستند بدن کے طور پر گناہ کی غلامی سے آزاد کرتی ہے وہ گناہ جو کبھی اُن پر حکمران تھا۔ کلیسیا آسمانی بادشاہی کا شہری ہوتے ہوئے مسیح میں ایک بدن، زمین پر خدا کا مَقدِس اور مسیح کی بادشاہی میں ایک نمائندہ کی حیثیت سے ایک دوسرے کو آپس میں مستحکم رکھتی ہے (متی ۱۶باب۱۹آیت)۔  مسیح اِس پہلو کو اپنے ساتھ دغا سے پہلے اپنی دُعا میں  اجاگر کیا ہے۔

’’مَیں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلے سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔ تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تُو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دُنیا ایمان لائے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا۔ اور جلال جو تُو نے مجھے دیا ہے مَیں نے اُنہیں دِیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔ مَیں اُن میں اور تُومجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تُو نے مجھ سے محبت رکھی اُن سے بھی محبت رکھی ‘‘ (یوحنا ۱۷باب۲۰تا۲۳آیات)۔

یقینا، مسیح یسوع اپنی کلیسیا کی رہنمائی کرتا ہے اور کلیسیا رُوح القدس کے ذریعے سے اُس میں متحد ہے، جسے رسول اپنے خطوط میں واضح طور پر ’’ مسیح کا رُوح ‘‘ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں (رومیوں ۹باب۸آیت؛ ۱-پطرس ۱باب ۱۱آیت)۔ پاک رُوح نہ صرف ایمان دار کی نئی پیدائش میں موثر ہے بلکہ وہ  اُن کی روحانی خوراک بھی ہے جس کے ذریعے سے ایک مسیحی خداوند یسوع مسیح کی ابدی بادشاہی کے شہری کے طور پر زِندگی بسر کرتا ہے۔ مسیح کی بادشاہی کا اطلاق ہم دو طریقوں سے اپنی زندگی میں کرسکتے ہیں۔ اوّل: یہ خدا اور اُس کے لوگوں کے درمیان ایک مناسب رشتہ قائم کرتی ہے، کیوں کہ مسیح حقیقی انسان ہے اور دوّم: خدا باپ اور انسان کے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتے کو بحال کرتی ہے، کیوں کہ مسیح الٰہی بھی ہے۔ مسیح یسوع کے وسیلہ  ہم خدا باپ کے ساتھ متحد ہوتے ہیں اور جب اُس کی رفاقت میں وقت گزارتے ہیں تو ہم حقیقی برکات سے حاصل کرتے ہیں۔ 

کلیسیا کے کردار اور کام  کی بنیاد مسیح  ہے۔ ہم اُس کے پاک روح سے زندہ ہوتے اور اُس کے وسیلے سے مسیح کی بادشاہی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ مسیح ہم میں اور ہم اُس میں رہتے ہیں۔ مسیح یسوع اب ہمارے لئے خدا باپ کے تمام رسولوں اور انبیا سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے؛ وہ عبرانی صحیفوں کی توقعات کی تکمیل ہے۔ ہمارے دِل پاکیزگی میں روح کے کام کے ذریعے سے اُس کے بادشاہی کے موافق ہو گئے ہیں۔ روح القدس کے ساتھ روحانی اتحاد کے باعث ہم خواہش مند ہیں کہ اُس کی ابدی بادشاہی جلد ہمارے درمیان ظاہر ہو۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔

سکاٹ ریڈ
سکاٹ ریڈ
ڈاکٹر سکاٹ واشنگٹن میں ریڈ ریفارمڈ تھیولاجیکل سیمنر ی میں پرانے عہد نامے کا پروفیسر ہے وہ Wholeness Imperative.کا مصنف بھی ہے۔