
عبادت کے ضابطہ کا اُصول کیا ہے ؟
10/04/2025
موت اور درمیانی حالت
17/04/2025علم الآخرت: ایک مکمل بائبلی تصور

جب آپ اصطلاح ’’علم الآخرت‘‘ کے بارے میں سُنتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے۔ اگر آپ باقی مسیحیوں کی طرح ہیں، تو آپ فوراً مسیح کی دوسری آمد کے بارے میں سوچتے ہوں گے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی مسیح کی پیدائش کے بارے میں سوچا ہے؟ اُس کی پہلی آمد؟ جن کلیسیاؤں سے آپ تعلق رکھتے ہیں شاید اُن کی تعلیم کے مطابق آپ کلیسیا کے آسمان پر اُٹھائے جانے (Rapture) اوراُس بڑی مصیبت کے بارے میں سوچتے ہوں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی پینتی کوست کے دِن پر غور کیا ہے؟ شاید آپ نے مکاشفہ کی کتاب کے متعلق سوچا ہو، لیکن کیا آپ نے کبھی پیدائش؟ خروج؟ احبار؟ کی کتاب کے متعلق سوچا ہے؟
علم الآخرت دراصل آخرت سے متعلق باتوں کا نظریہ ہے، اس لئےجب ہم علم الآخرت کےمتعلق سوچتے ہیں تو ہم میں سے اکثر کی توجہ یسوع مسیح کی پیدائش کے بجائے اُس کی دوسری آمد پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ لفظ بذاتِ خود یونانی الفاظ کے مجموعے سے بنا ہے۔’’ ایسکاٹوس‘‘(eschatos) جس کا مطلب ہے ’’آخری‘‘اور ’’لوگوس‘‘ (logos ) جس کا مطلب ہے ’’کلام‘‘ ہے۔جب ہم اِن دو اصطلاحات کو آپس میں یکجا کرتے ہیں تو لفظ ’’علم الآخرت‘‘ بنتا ہے یعنی آخری باتوں کے متعلق بحث۔
اسی وجہ سے باقاعدہ علمِ الہٰیات کے ماہرین روایتی طور پر علم الآخرت کو مسیحی عقائد کے اُس حصے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو انفرادی اور عالمی تاریخ کے لحاظ سے ’’آخری باتوں‘‘ سے متعلق ہیں۔انفرادی علم الآخرت کا تعلق ہر فرد کے لئے ’’آخری باتوں‘‘سے متعلق ہے۔ دوسر ے لفظوں میں، یہ موت اور درمیانی حالت (موت اور جسم کے دوبارہ جی اُٹھنے کے درمیان کی حالت) جیسے موضوعات سے متعلق ہے۔ دوسری طرف، عمومی علم الآخرت عالمی تاریخ میں ’’آخری باتوں‘‘ سے متعلق ہے یعنی مسیح کی آمدِ ثانی، عمومی قیامت، آخری عدالت، جنت اور دوزخ وغیرہ۔
اگرچہ علم الآخرت کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ اِسے وسیع تر تناظر میں جاننا زیادہ ضروری ہے۔ ’’آخری باتیں‘‘ محض اتفاقی طور پر رُونما نہیں ہوتیں۔ علم الآخرت کے روایتی دائرہ کار میں آنے والے تمام واقعات خدا کے مقاصد اور منصوبوں سے منسلک ہیں، اور خدا کے تمام مقاصد اور منصوبے یسوع مسیح کی ذات اور خدمت سے وابستہ ہیں۔ یہ تمام مقاصد ا ور منصوبے ازل سے خدا کے پاس تھے یعنی جب خدا نے آسمان و زمین کو خلق کیا۔ اِس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا تخلیق سے لے کر اب تک جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ اِن مقاصد اور منصوبوں کے حصول کی طرف مبذول ہے۔ جب ہم اِس کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے بائبل کا سارا حصہ علم الآخرت سے متعلق ہے۔
اِس بات کو سمجھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ تمام صحیفے کس قدر مستقبل پر مبنی ہیں۔ مسیحی علم الآخرت خدا کے وعدوں پر مبنی ہے، اور یہ وعدے بذاتِ خود مستقبل پر مبنی ہوتے ہیں، یعنی مستقبل میں تکمیل کے منتظر۔ خدا کے وعدے پیدائش کے ابتدائی ابواب میں شروع ہوتے ہیں۔ جب آدم اور حوّا سانپ کے بہکاوے میں آکر گناہ میں گِر جاتے ہیں، تو خدا سانپ سے کہتا ہے، ’’مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا‘‘ (پیدائش ۳: ۱۵)۔ خدا یہاں وعدہ کرتا ہے کہ وہ گناہ میں گِرے ہوئے لوگوں کو اپنے فضل سے بدل دے گا ۔وہ عدالت کرے گا اور مخلصی بخشے گا اور یہ سب عورت کی نسل کے وسیلے سے پورا ہو گا۔ یہ خدا کے اُن معتدد وعدوں میں سے پہلا ہے جو نجات کے مقصد کے بارے میں ہیں۔ یہ وعدہ اُس کام کی طرف اشارہ کرتا ہے جو خدا مستقبل میں کرے گا۔ بالفاظِ دیگر ، یہ علم الآخرت سے متعلق ہے ۔
عہدِ عتیق میں خدا اپنے لوگوں کے ساتھ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ کسی نہ کسی طور پر تخلیق اور انسانیت کے لئے اپنے مقرر کردہ مقاصد کی تکمیل سے متعلق ہے۔اِس بات کا مشاہدہ ہم نہ صرف خداکے پہلے وعدے میں کرتے ہیں بلکہ اُن وعدوں میں بھی جو خدا نے نوح کے عہد ( پیدائش ۶- ۹)، ابرہامی عہد (پیدائش ۱۲؛ ۱۵؛ ۱۷)، موسوی عہد (خروج ۱۹- ۲۴)، اور داؤدی عہد (۲-سموئیل ۷باب) میں کئے تھے۔ مزید برآں، خدا ایک نئے عہد کے بارے میں بھی وعدہ کرتا ہے جو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ باندھے گا (یرمیاہ ۳۱باب)۔ اِس نئےعہد میں یہ وعدہ شامل ہے کہ خدا اپنی روح ہر بشر پر ڈالے گا (یوایل ۲باب)۔خدا کے تمام وعدے کسی نہ کسی طریقے سے مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور یہ سب وعدے مسیح میں پورے ہوتے ہیں (۲-کرنتھیوں ۱: ۲۰)۔
علم الآخرت کے حوالے سے خدا کے مقاصد اور منصوبے اُن مختلف مثالوں اوراشاروں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جو مسیح کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، خیمہ اور ہیکل کے مرکز میں قائم کردہ قربانی کا نظام مسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ دراصل حقیقی سردار کاہن ہے (عبرانیوں ۴: ۱۴)۔ وہ حقیقی عوضی قربانی ، اور خدا کا وہ برہّ ہے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے (یوحنا ۱: ۲۹)۔ وہ حقیقی ہیکل ہے جہاں خدا اپنے لوگوں کے درمیان سکونت کرتا ہے (یوحنا ۲: ۱۹-۲۱؛ ۱: ۱۴)۔ عہدِ عتیق کے کاہن ہی نہیں بلکہ داؤدی بادشاہ بھی مسیح کی مثالیں تھے۔ بحیثیتِ ابنِ داؤد (متی ۱:۱) مسیح اب خدا کے داہنی طرف بیٹھا ہے اور اُسے موعودہ بادشاہی سونپی گئی ہے (افسیوں ۱: ۲۰؛ دانی ایل ۷: ۱۳- ۱۴؛ اعمال ۲: ۳۲- ۳۶)۔ موسیٰ کی طرح موعودہ نبی ہونے کی حیثیت سے (استثنا ۱۸: ۱۵- ۱۸) مسیح جانتا تھا کہ اُس کی موت یروشلیم میں واقع ہوگی (لوقا ۱۳: ۳۳)۔ یسوع پچھلا آدم (۱-کرنتھیوں ۱۵: ۴۵) اور دُکھ اُٹھانے والا خادم ہے (اعمال ۸: ۳۲- ۳۵)۔ عہدِ عتیق کی یہ تمام مثالیں اور اشارے اِس معنی میں آخرت سے متعلق ہیں، کیوں کہ یہ مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ وہ وسائل تھے جن کے ذریعے سے عہدِ عتیق کے لوگ آنے والے مسیح کے متعلق جان سکتے تھے۔
اِس کے علاوہ، کلامِ مقدس کا ہر اہم موضوع جو پیدائش کی کتاب کے ابتدائی حصوں میں آشکار ہونا شروع ہوتا ہے، وہ علم الآخرت کی سمت میں ہوتا ہے۔ یہ تمام بڑے موضوعات پیدائش کے ابتدائی ابواب میں متعارف کرائے جاتے ہیں اور مکاشفہ کے آخری ابواب میں اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ پیدائش سے مکاشفہ تک خدا کی راہنمائی میں اِن میں سے ہر موضوع کو اِس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے کہ ہر چیز علم الآخرت کے مقاصد کی تکمیل کی جانب بڑھتی ہے۔ آئیے اِن میں سے بعض موضوعات پر توجہ مرکوز کریں۔
یقیناً، خدا صرف ایک موضوع نہیں بلکہ کلامِ مقدس کی کہانی کا محور ہے ۔ خدا ہی اول و آخر اور الفا واومیگا ہے۔ وہی ہے جس نے ازل سے ابد (آخرت) تک کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔وہ پروردگار خدا تاریخ کو اپنے مقررہ انجام کی طرف لے جاتا ہے۔خدا نے آسمان و زمین کو ایک خاص مقصد کے تحت خلق کیا۔ یہ مقصد نئی تخلیق میں مکمل طور پر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، یعنی نئے آسمان اور نئی زمین جن کے بارے میں مکاشفہ کے آخری ابواب میں بتایا گیا ہے۔ جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا کہ عہد کا موضوع پیدائش کی کتاب سے شروع ہوتا ہے اور پورے کلامِ مقدس میں علم الآخرت کی سمت میں جاری رہتا ہے۔ بادشاہی کا موضوع آنے والے مسیحا کی جانب اشارہ کرتا ہے جو یہودیوں کے بادشاہ کی حیثیت سے پیدا ہوا۔ پیدائش میں سبت کا تصور، عبرانیوں کی کتاب میں بیان کردہ آخری سبت کی طرف اشارہ کرتا ہے (عبرانیوں ۴باب)۔ پیدائش ۳باب میں خدا اور سانپ کے درمیان تصادم کا موضوع ایک ایسی عدالت کے وعدے کی طرف لے جاتا ہے جو شیطان کے آگ کی جھیل میں ڈالے جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گناہ کے باعث دُنیا میں آنے والی موت کا خاتمہ، روزِ آخرت میں قیامت (مُردوں میں سے جی اُٹھنے) سے ہو گا۔ مخلصی کا وہ مکمل کام جو پیدائش ۳ باب میں فضل کے وعدے سے شروع ہوتا ہے، یسوع مسیح کے اُس نجات بخش کام کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ ہمارے گناہوں کے لئے مؤا اور ہمیں راست باز ٹھہرانے کے لئے دوبارہ جی اُٹھا۔ جب ہم بائبل کے اِن تمام موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہم زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یسوع نے کیسے موسیٰ اور تمام انبیا سے شروع کر کے اِماؤس کی راہ پر جانے والے دو شاگردں کو سمجھایا کہ ساری بائبل مقدس دراصل اُسی کے بارے میں ہے (لوقا ۲۴: ۲۷)۔
جب ہم بائبل کے اِس وسیع تناظر میں علم الآخرت کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مسیح کی پہلی آمد بھی اُس کی دوسری آمد کی طرح علم الآخرت کا واقعہ ہے۔ جب کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا، تو خدا کے لوگوں کی ہزاروں سالوں سے علم الآخرت سے متعلق اُمیدیں پورا ہونا شروع ہو گئیں۔ اِسی لئے متی رسول اپنے انجیلی بیان میں بار بار لکھتا ہے کہ جو باتیں نبیوں نے کہی تھیں، وہ سب پوری ہوئیں (متی ۲: ۱۵، ۲۳؛ ۴: ۱۴؛ مرقُس ۱۴: ۴۹)۔ اس لئے مرقُس اپنے انجیلی بیان کا آغاز یسعیاہ نبی کی کہی ہوئی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کرتا ہے (مرقُس ۱: ۱-۳)۔ اس لئے جب یسوع مسیح ناصرت آئے اوروہاں عبادت خانے میں یسعیاہ ۶۱ باب میں مندرج وعدے پڑھے تو اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ ’’آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا‘‘ (لوقا ۴: ۲۱)۔
یسوع مسیح کی پہلی آمد نے عہدِ عتیق میں کئے گئے وعدوں کے مطابق طویل انتظار کے بعد آنے والے آخری ایام کا آغاز کیا ( عبرانیوں ۱: ۲؛ ۹: ۲۶؛ ۱-پطرس ۱: ۲۰)۔ وہ اِبن آدم ہے جو قدیم الایام تک پہنچ گیا اور اُس نے اُس موعودہ بادشاہی کو حاصل کیا جولازوال ہو گی (دانی ایل ۷: ۱۳- ۱۴)۔ اب وہ علم آخرت سے متعلق موعودہ نئے عہد کا درمیانی ہے (عبرانیوں ۹: ۱۵)۔ یسوع نے ہر بشر پر روح القدس نازل کر کے خدا کا وعدہ پورا کیا (اعمال ۲: ۱۷)۔ وہ روزِ آخرت میں مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلا پھل ہے (۱-کرنتھیوں ۱۵: ۲۰-۲۲)۔ روزِ آخر ، وہ جلال کے ساتھ دوبارہ آئے گا (۱-تھسلُنیکیوں ۴: ۱۳- ۱۸)۔
مختصر یہ کہ، اگر ہم علم الآخرت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے محض واقعات کے ایک سلسلے کی ترتیب معلوم کرنے تک محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی کہ علم الآخرت کا اصل محور یسوع ہے اور یہ کہ ساری بائبل اُس کی ذات اور اُس کی خدمت کے متعلق بیان کرتی ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔