
گھر کا اشتیاق
27/05/2025
منادی بمقابلہ بائبل کا مطالعہ
03/06/2025حلیمی کو فروغ دینا

کیا آپ حلیم ہیں؟ آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں ؟ روح کا پھل اُس مسیحی میں ظاہر ہوتا ہے جو حلیم ہے۔ ہماری تہذیب حلیمی یا عاجزی کو اکثر اوقات نرم روّیے کے طور پر بیان کرتی ہےجو کہ با لعموم کمزور ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ مسیحی بعض اوقات اسےضبط شدہ طاقت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
لیکن سترھویں صدی کے ڈچ پادری اور ماہرعلم ِ الٰہیات ول ہیلمس اے بریکلؔ ایک ایسی وضاحت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اس اصطلاح کے نئے عہد نامے میں استعمال کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ یہ جس یونانی لفظ سے ماخوذ ہے اُس کی اثاث ’’منتقل کرنا‘‘ ہے۔ پس حلیم شخص وہ ہوتا ہے’’جو آسانی سے دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے اور جس کے ساتھ دوسرے آسانی سے رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔‘‘
مختصراً حلیم لوگ قابلِ رسائی ہوتے ہیں۔ حلیم لوگوں کے پاس دوسروں کی روحوں تک پہنچانے یا منتقل کرنے کے قابل کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، اور وہ ایسا کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اُنہیں دوسروں سے کچھ حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے، اس لیے وہ دوسروں کو سننے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
لوگ فطری طور پر جانتے ہیں کہ دل کے حلیم لوگوں کے سپرد جو خزانہ کیا گیا ہے وہ اُس کو منتقل کرنے کے لیے دوستانہ تعلق قائم کرتے ہیں ۔ اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُس خزانہ کو حاصل کرنے کے لیے اُن کے ساتھ تعلق قائم کرنا محفوظ ہے۔ حلیم شخص رابطے کے ذرائع کو کھلا رکھتا ہے۔ حتٰی کہ وہ مخالفین یا اجنبیوں کے لیے بھی قابلِ رسائی ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر بہت اچھا ہوتا ہے۔جس مسیحی نے اِس طرح کے پھل کو ظاہر کرنے کے لیے خود کو منظم کیا ہو ایسے مسیحی کے لیے دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا آسان ہوتا ہےیا آسان محسوس ہوتا ہے ۔ حلیم لوگ دوسروں تک ایسے طریقوں سے رسائی کرتے ہیں جن سے دوسروں کو اُن کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔
اس کے برعکس، کس قِسم کے مرد یا عورت میں حلیمی کا فقدان ہوتا ہے؟ یہ دیکھنا آسان ہے کہ بہت اونچا بولنے والا ، بے حِس،تلخ مزاج شخص حلیمی کے امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ لیکن خوفزدہ اورشرمیلا شخص بھی حلیم کہلانے میں ناکام رہتا ہے۔ ایسی شخصیات کو حلیم بنانے کے لیے روح القدس کا کام ضروری ہے۔
ایک حلیم شخص ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جب حالات ناگوار ہوں یا جب مشکل معاملات پر بات کرنی ہو ، حلیم لوگ دوسروں پر یہ ظاہر کر تے ہیں کہ وہ تنازعات کےباوجود بھی اُن سے محبت کرتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کے لیے واقعی بڑی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیرؔی برِجّز نے لکھا ’’حلیمی ہمارے اس انداز سے واضح ہوتی ہے کہ ہم کس طرح شفاف شیشوں کے کارٹن کو سنبھالیں گے؛ یہ اس بات کو جاننا ہے کہ انسانی شخصیت قیمتی لیکن نازک ہے اور اسے احتیاط کے ساتھ سنبھالنا چاہیے۔‘‘
نیا عہد نامہ ہمیں مختلف طرح سے حلیم بننے کی ہدایت کرتا ہے۔ جب لفظ حلیمی استعمال کیا جاتا ہے تو بالعموم اس کا تعلق لفظی اور غیر لفظی دونوں طرح سے باہمی رابطہ قائم کرنے سے ہے۔
دوسروں کی برائی یا جھگڑا کرنے کے لیے مشہور ہونے کی بجائے ہمیں اپنے الفاظ میں نرم اور شائستہ ہونا چاہیے حتیٰ کہ حاکموں اور اختیار والوں کے ساتھ بھی:’’ان کو یاد دِلا کہ حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور ان کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کے لیے مستعد رہیں ۔کسی کی بدگوئی نہ کریں تکراری نہ ہوں بلکہ نرم مزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں ۔‘‘ (طِطُس ۳ : ۱ـ ۲ )
اساتذہ اور بزرگانِ کلیسیا کو حلیمی کے ساتھ مخالفین کی بھی اصلاح کرنی چاہیے :
’’اور مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور بُرد بار ہو ۔اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے ۔شاید خدا انہیں توبہ کی توفیق بخشے تاکہ وہ حق کو پہچانیں۔ اور خداوند کے بندہ کے ہاتھ سے خدا کی مرضی کے اسیر ہو کر ابلیس کے پھندے سے چھوٹیں‘‘ (تِیمُتھِیسُ ۲ : ۲۴ ـ۲۶ ؛ مزید دیکھیں ۱۔کُرِنتھِیوں ۴ : ۲۱ ؛ ۲۔ کُرِنتھِیوں ۱۰ : ۱ )
کلیسیا کو حلم مزاجی کے ساتھ قصُور میں پکڑے جانے والے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ قصوروار کو معلوم ہونا چاہیے کہ کلیسیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس پررحم کیا جائے گا:’’اے بھائیو ! اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو روحانی ہو اس کو حلم مزاجی سے بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ ۔کہیں تو بھی آزمایش میں نہ پڑ جائے۔‘‘ (گلتیوں ۶ : ۱ )
جب مسیحی انجیل کی بشارت اور ایمان کا دفاع کرتے ہیں تو اُن میں غرور یا مباحثی جذبہ آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے۔وہ لوگ جن کے ساتھ ہم گفتگو کرتے ہیں گفتگو کے اختتام پر اس احساس کو اپنے ساتھ لیے جائیں کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ احساس صرف حلیمی کے ذریعے ہی پہنچایا جا سکتا ہے:’’اور اگر راستبازی کی خاطر دکھ سہو بھی تو تم مبارک ہو۔ نہ اُن کے ڈرانے سے ڈرو اور نہ گھبراؤ۔ بلکہ مسیح کو خداوند جان کر اپنے دِلوں میں مقدس سمجھو اور جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اس کو جواب دینے کے لیے ہر وقت مستعد رہو مگر حلم اور خوف کے ساتھ۔ اور نیت بھی نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں تمہاری بدگوئی ہوتی ہے انہی میں وہ لوگ شرمندہ ہوں جو تمہارے مسیحی نیک چال چلن پر لعن طعن کرتے ہیں‘‘ (۱۔ پطرس ۳ : ۱۴ـ۱۶؛ مزید دیکھیں آیات ۳ـ ۴ )۔
پس اگر ایک کلیسیا متحد ہونا چاہتی ہے تو اِسے پوری عاجزی اورحلیمی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے: ’’پس میَں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اس کے لائق چال چلو۔ یعنی کمال فروتنی اور حلم کے ساتھ تحمل کر کے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔ اور اسی کوشش میں رہو کہ روح کی یگانگی صلح کے بند سے بندھی رہے۔ ‘‘ (افسیوں ۴ : ۱ـ ۳ )
خود سے یہ پوچھیں کہ کیا آپ میں یہ پھل موجود ہےاور کیا آپ کلیسیا میں اِس کو فروغ دے رہے ہیں ؟: جب میں دوسروں تک رسائی کرتا ہوں تو کیا وہ مجھے خوش آمدید کہتے ہیں؟ کیا دوسرے لوگ مدد کے لیے آسانی سے میرے پاس آتے ہیں؟ اگر لوگ، بچے اور بالغ باقاعدگی سے آپ کے پاس آسانی سے نہیں آتے ہیں تو یہ اِس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ آپ کو اِس فضل میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مسیحی اس خوبی کو کیسے فروغ دیتے ہیں؟ چونکہ یہ روح کا پھل ہےاس لیے یہ جانتے ہوئے کہ باپ روح القدس دینے کے لیے خواہشمند ہے ،ہمیں خُدا سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اپنا روح القدس ہمیں عطا کرے (لوقا ۱۱ : ۱۳ )۔ ہم یسوع کے جؤے کو بھی ایمان سے اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ حلیم اور دل کا فروتن ہے (متی ۱۱ : ۲۹ )۔ ہم دل میں بوئے گئے کلام کو حلیمی سے قبول کرتے ہیں (یعقوب ۱ : ۲۱)، ہم حلم کے طالب ہوتے ہیں اور اس کے لیے کُشتی لڑتے ہیں (۱۔ تِیمُتھِیُس ۶ : ۱۱ـ ۱۲)، اور ہم شعوری طور پر اِسے ہر روز پہنتے ہیں ۔(کُلِسّیوں ۳ : ۱۲ )
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔