
حلیمی کو فروغ دینا
03/06/2025
اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا اچھا ہے؟
13/06/2025منادی بمقابلہ بائبل کا مطالعہ

مبارک خدا ! جس نے تمام مقدس صحائف کو ہماری تعلیم و تربیت کے لئے لکھا : ہمیں توفیق دے کہ ہمیں اِسے دانش مندی سے سُنیں، پڑھیں، نشان لگائیں، سیکھیں اور اِس کو اپنے اندر جذب کر یں کہ تیرے مقدس کلام کے صبر اور تسلی کے ذریعے ہم اُس بابرکت اُمید کو قبول کریں اور ہمیشہ مضبوطی سے تھامے رکھیں جو تُو نے ہمیں ہمارے نجات دِہندہ یسوع مسیح میں عطا کی ہے۔ آمین!
چناں چہ یہ دُعا 1662ء ”دُعائے عام کی کتاب“ کے ایڈیشن میں آمد کے دُوسرے اِتوار کے مجموعہ میں درج ہے۔ یہ بجا طور پر ایک مشہور دُعا ہے ، جس کی زُبان ہمیشہ ہمارے ماخذ کو پہچانے بغیر فرقوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اکثر بشارتی دُعاؤں میں سنائی دیتی ہے۔
وہ خاص جملہ بہت سے لوگوں کی یاداشت کا حصہ بن چکا ہے ، وہ یہ اِلتجا ہے کہ خداوند ہمیں کلامِ مقدس کو پڑھنے، نشان لگانے اور اپنے اندر جذب کرنے کی توفیق بخش۔ یہ کلامِ مقدس کی مرکزیت کے بارے میں ایک گہری بائبلی فکرمندی کوبیان کرتا ہے۔ یہ ایک فطری خواہش ہے کہ بائبل ہمارے ذہنوں اور دِلوں میں راسخ ہو اور ہماری زندگیوں میں پھل لائے، جو تمام مستند مسیحیوں کی رُوحانیت کا نشان ہے۔ جیسے نوزائیدہ شیر خواروں کو ”خالص رُوحانی دُودھ کی آرزُو“ کرنی چاہئے، تاکہ اِس کے ذریعے ہم ”نجات میں ترقی کر سکیں“ (1۔پطرس 2:2)۔ یہ رُوح القدس کی پیدا کردہ فطری تحریک ہمیں مقدس صحائف کے ذاتی مطالعہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر اُن متون کو جو کلامِ مقدس کی عظمت کو بیان کرتے ہیں ، جیسے کہ زبور 10:19-11 سنجیدگی سے لیا جائے تو وہ مسیحی زندگی جو کتابِ مقدس کے باقاعدہ اور تنہائی میں سرگرم مطالعہ اور چھوٹے گروہوں کو نظر انداز کرتی ہے، اُس کان کن کی مانند ہے جو بے وقوفی سے اُن قیمتی معدنی ذخائر کو نظرانداز کرتا ہے جہاں ”بہت سا خالص سونا یعنی کُندن“ پایا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی زندگی گزارنے کے مترادف ہے جو خدا کے کلام کے وعدوں اور مٹھاس سے محروم ہو جو کہ ” شہد سے بلکہ چھتے کے ٹپکوں سے بھی شیرین ہے“۔ یہ مہربان خدا کی طرف سے زندگی کے خطرناک راستوں پر اپنے خادموں کے لئے کلامِ مقدس میں دی گئی تنبیہات کو نظر انداز کرنا ہے۔ اور جب ہم خدا کے کلام کو جانتے اور اُس سے محبت نہیں کرتے، تو ہم کس طرح یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ ہمیں وہ ”بڑا اجر“ حاصل ہوگا جو اُس کے کلام پر عمل کرنے سے ملتا ہے؟ چناں چہ جس قدر ہم کتابِ مقدس کے قریب تر لوگ ہوں گے ، اُسی قدر ہم اِیمان سے بھرپور، صابر اور شادمان لوگ ہوں گے۔
بہرحال، ہماری اِجتماعی یاداشت میں دُعا کی کتاب کے اِس مطالعہ ”پڑھیں، نشان لگائیں ، سیکھیں اور اپنے اندر جذب کریں“ سے متعلق ایک نظر انداز کیا جانے والا سانحہ موجود ہے۔ یہ اُس درخواست کے پہلے حصے کی ہمارے شعور سے محرومی ہے: ”بخش دے کہ ہم اِس کو دانش مندی سےسُنیں، پڑھیں، نشان لگائیں اور دِل میں اُتار سکیں“۔ یہ دُعا کلامِ مقدس کی خدمت کے بنیادی مقام کو خداوند کے دِن (اِتوار) کو کلیسیائی سطح پر پڑھنے اور منادی کرنے کا تصور پیش کرتی ہے۔ ہم نے اِس درخواست کے ایک حصے کو تو اپنا لیا ہے ، لیکن زمانے کی رُوح کے بہاؤ میں بہتے ہوئے ، ہم نے اِسے اِس انداز میں اِنفرادی بنا لیا ہے جو ہمارے سپرد کی گئی اِصلاحی روایت کی بہترین حکمت کا اِظہار نہیں کرتی۔ تاریخی طور پر مصلحین کا ہمیشہ سے یہ اِیمان رہا ہے کہ کلامِ مقدس کا کلیسیائی سطح پر مطالعہ اورمنادی جو اُن پاسبانوں کے وسیلہ سے کی جاتی ہے جو اِس کام کے لئے بلائے گئے اور لیس کئے گئے ہیں، جس کا بنیادی مقصد گنہگاروں کی تبدیلی اور مقدسین کی نشونما ہے۔ جیسا کہ ویسٹ منسٹر کے بڑے کیٹی کیزم میں بیان کیا گیا ہے : رُوح القدس کلامِ مقدس کے مطالعہ کو ، خاص طور پر اُس کی منادی کو نجات کا مؤثر ذریعہ بناتا ہے (سوال و جوابات 155)۔ پولس رسول اِس نکتے کو بڑی شِدت سے بیان کرتا اور یہ پوچھتا ہے :
”مگر جس پر وہ اِیمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟ اور جس کا ذِکر اُنہوں نے نہیں سُنا اُس پر اِیمان کیونکر لائیں؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سُنیں؟“(رومیوں 14:10-15)۔
یونانی زُبان میں اِس سلسلے کے دُوسرے سوال کا مفہوم انگریزی تراجم سے کہیں زیادہ واضح ہے۔ درحقیقت پولس یہ پوچھتا ہے : ”اور جس کا ذِکر اُنہوں نے نہیں سُنا اُس پر اِیمان کیونکر لائیں؟ “ اِس کا مطلب بیک وقت واضح اور گہرا ہے : جب خدا کے بھیجے ہوئے خادم وفاداری سے خدا کے کلام کی منادی کرتے ہیں تو گنہگار نہ صرف مسیح کے بارے میں سنتے ہیں، بلکہ وہ خود اپنے لئے مسیح کی آواز کو سنتے ہیں جو اپنی خوش خبری کے کلام کے وسیلہ سے اُنہیں بلا رہا ہے۔ ہیلویٹک کے دُوسرےاِقرار اُلایمان میں، ہینرک بُلنگر، سوئیس اِصلاح کار جان کیلون کے ہم عصر تھے جو پولُس کے نقطہ ِنظر کو بڑی فصاحت کے ساتھ بیان کرتے اور ہم پر ظاہر کرتے ہیں کہ منادی ، چھوٹے گروہوں یا بائبل کے شخصی مطالعہ سے بڑھ کر مسیحی نشونما اور برکت کی توقعات کا مرکز کیوں ہونی چاہئے: جب خدا کے اِس کلام کی منادی کلیسیا میں اُن منادوں کے وسیلہ سے کی جاتی ہے جو باقاعدہ طور پر بلائے گئے ہیں تو ہم اِیمان رکھتے ہیں کہ خدا کا کلام واقعی سنایا جا رہا ہے اور اِیمان دار اُسے قبول کرتے ہیں۔ یا سادہ اَلفاظ میں ، جیسا کہ اِقرار اُلایمان کے چند نسائخ کے اندر اِس بات کا خلاصہ پیش کیا گیا ”خدا کے کلام کی منادی خدا کا کلام ہی ہے“۔ بالفاظِ دیگر، جب بائبل کی منادی اُس کے متن کے ساتھ وفادار رہ کر کی جاتی ہے تو مُردوں میں سے جی اُٹھا مسیح اپنے لوگوں سے رُوحُ القدس کی قدرت کے وسیلہ سے کلام کرتا ہے۔
سولہویں صدی کے اِختتام پر , جب سکاٹ لینڈ کے کنگ جیمز ششم حاضرین کے ساتھ کلیسیا میں زور زور سے گفتگو کر رہے تھے تو اُنہوں نے بار بار رابرٹ بروس کی منادی میں خلل ڈالا۔ بروس نے اپنی منادی روک کر براہِ راست بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”کہا جاتا ہے کہ دانا بادشاہ کا یہ قول تھا کہ جب شیر دھاڑتا ہے تو میدان کے سب جانور خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہوداہ کے قبیلے کا ببر آج اپنی اِنجیل کی آواز میں دھاڑ رہا ہے اور زمین کے تمام چھوٹے بادشاہوں کے لئے لازم ہے کہ وہ خاموش ہو جائیں“۔ بائبل کا مطالعہ چھوٹے گروہوں کی صورت میں کریں۔ اور شخصی مطالعہ کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ لیکن جب ہم اُسے اِجتماعی طور پر سنتے ہیں، تو ہمیں کس قدر خاموش ، حیرت اور عقیدت کے ساتھ یہوداہ کے قبیلے کے ببر کی گرج سننے کی توقع رکھنی چاہیے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔