نجات یافتہ لوگوں کی شکر گذاری
20/05/2024خُدا کا مطمئن بچہ
24/05/2024فرمانبرداری کرنے پر بھروسہ کریں
خُدا کی ماہیت کے بارے میں کوئی بھی چیز انسان کے لئے اُس پر شک کرنے کا باعث نہیں بننی چاہیئے(اِستشناہ32باب3تا4آیات)،تا ہم ،حّوا نے باغ عدن میں خُدا کے ارادہ پر سوال اٹھایا ،لوگوں نے خُدا کے کلام اور اُس کے ارادوں پر شک کیا۔بے اعتقادی خُدا کی ذات پر ناانصافی اور نااہلیت کا شائبہ پیدا کرتی ہے اور ہو سکتا ہے اس کا اظہار اُس کی الٰہی قدرت پر بُڑ بُڑا کر کیا جائے ، دستگیر خُدا اپنے وعدو ں کو پُورا کرتا ہے ،اُس پر بھروسہ کرنے سے پہلے ثبوت تلاش کرنا،یا خُدا کی ذات سے آزادی کا مطالبہ کرنا (پیدائش 16باب1تا6آیات،18باب10تا14آیات؛ متی16باب1آیت 4آیت)۔کامل ذات کے بارے میں ہمارا شک اُس کے بارے میں ہمارے نامکمل اور ناقص علم کو ظاہر کرتا ہے ۔
ہم تب تک بھروسہ نہیں کر سکتےجب تک کہ ہمیں اُس شخص کے کردار کے بارے میں یقین نہ ہو جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں۔شک و شبہات کی طرف ہمارا جُھکاؤ دیکھ کر ،خُدا بڑی مہربانی سے ہمیں اپنے قابل اعتبا ر ہونے کا یقین دلاتا ہے ۔اُس نے اپنے وعدوں کو نشانیوں کے ساتھ پورا کیا ، جو کہ خو د اپنی ذات میں کافی ہونا چاہیئے(قضاۃ 6باب36تا40آیات؛ مرقس2باب8تا12آیات؛ یوحنا 10باب38آیت؛20باب30آیت)۔وُہ جو جھوٹ نہیں بول سکتا اُس نے اپنے غیر متغیر کردار پر ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کی قسم کھائی (عبرانیوں 6باب13تا19آیات)۔اپنے بیٹے کو دے کر ،اُس نے اپنی منصفانہ ،محبت کرنے والی اور قابل اعتبار فطرت کا بہتریں مظاہر ہ کیا (رومیوں 5باب6تا10آیات؛ 8باب31تا32آیات)۔
ہمیں اپنے ایمان پر نہیں بلکہ خُدا پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ابرام کے ایمان کا ہیرو خُدا ہے ، ابرام نہیں ۔جب اضحاق کو قربان کرنے کا حُکم دیا گیا ،تو ابرام نے یہ دلیل دی چونکہ خُدا کامل ہے،اس کا وعدہ پورا ہونا چاہیئے۔اگر اضحاق کو مرنا ہی ہے تو خُدا ضرور اُس کو دوبارہ زندہ کرے گا(عبرانیوں 11باب17تا19آیت) ۔داؤد کا ایمان تقریباً تباہ ہو چکا تھا کیونکہ شریر اُس وقت تک اقبالمندی حاصل کرتے رہے جب تک اُس نے خُدا کے انصاف کی قدر نہ کی (زبور 73)۔ خُدا کو جاننا ہی ہمارے فرمانبردار ایمان کو تقویت بخشتا ہے ۔
خُدا کو جانے اور اُس پر بھروسہ کیے بغیر ،ہم اُس سے اور اپنے پڑوسیوں سے محبت کر کے اُس کی مکمل اطاعت نہیں کر سکتے(1یوحنا 4باب7آیت)۔کوئی شخص صرف خوف سے اطاعت کر سکتا ہے ،لیکن ایسی اطاعت مکمل معرفت سے پیدا نہیں ہوتی کیونکہ حقیقی اطاعت خُدا کے بارے میں گہری معرفت سے حاصل ہوتی ہے جس پر بھروسہ کی بنیاد ہے (یوحنا 15باب12تا15آیات)۔مسیح ہمارے لئے اپنی جان دے کر باپ سے محبت اور اُس کی اطاعت کر سکتا تھا کیونکہ وہ مکمل طور پر باپ پر بھروسہ کرتا تھا ۔ایمان اور محبت کے بغیر جان دینا حقیقی اطاعت کا باعث نہیں بن سکتا (1کرنتھیوں 13باب3آیت)کیونکہ حقیقی اطاعت ایمان اور محبت سے صادر ہوتی ہے(یوحنا 14باب15آیت،21آیت،23تا24آیات؛ رومیوں 1باب5آیت؛ 1یوحنا 3باب23آیت)۔اِس لئے، خُدا کی صحیح معرفت کے بغیر ہمارا بھروسہ ،محبت اور اطاعت ختم ہو جائے گی (متی 26باب35آیت،74آیت)۔
باقی ماندہ گناہ کی وجہ سے جو اکثر خُدا کے بار ے میں ہمارے علم کو دھندلا کرتا اور روکتا ہے ،ہم خُدا پر شک کرتے ہیں ،غلط طور پر یقین کرنا کہ اُس میں کوئی چیز ہماری بے اعتقادی کی ضمانت دیتی ہے ۔تکمیل کے وقت،جب ہم خُدا کو پورے طور پر پہچانیں گے(1کرنتھیوں13باب12آیت)،تو شک کرنا یا محبت نہ کرنا اور اِس طرح خُدا کی نافرمانی کرنا ناممکن ہو جائے گا کیونکہ ہمارا یقین کہ وُہ مکمل طور پر قابل بھروسہ ہے مزید شک و شبہات کا شکار نہیں ہو گا ۔اعتماد ، محبت اور اطاعت میں ہمارا حتمی کمال لازم وملزوم طریقے سے خُدا کی مکمل معرفت سے جڑا ہو ا ہے ۔اطاعت کے تناظر میں ، خُدا کے ساتھ ایک بھروسے پر مبنی رشتہ اُس کے بارے میں گہر ی رفاقت پر مبنی ہے ۔
کیونکہ مسیح نے ہمیں معرفت الٰہی دینے کے لئے ہماری طرف سے مکمل طور پر بھروسہ اور اطاعت کی ۔آیئں ہم دُعا کریں کہ ہم اُس کو جاننے اور اس پر بھروسہ کرنے میں ترقی کریں ،جو ہمیں محبت بھری فرمانبرداری میں تیزی سے چلنے کے قابل بناتا ہے ۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔