شہوت سے نمٹنا
01/02/2024رویے سے دل تک
05/02/2024خطِ منقسم/تقسیم کی لکیر
ایسے بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے دُنیاچاہتی ہے کہ ہم انسانیت کو تقسیم کریں۔ ہم ایسا سیاسی بنیادوں(قدامت پسند یا آزاد خیال)، سماجی و اقتصادی بنیادوں("ایک فیصد” یا "ننانوےفیصد”)یا نسلی بنیادوں(سفید یا سیاہ)پر کر سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں اس حوالے سے مسیح جیسا مزاج رکھنے کے لیے بُلایا گیا ہے کہ ہم خود کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جوکہ ہماری اِس بات میں رہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کو کس نظر سے دیکھنا ہے اور اُن کی خدمت کیسے کرنی ہے ۔
تاہم رومیوں 8 باب میں پولس رسول بے دِینوں اور ایمانداروں کوکلامِ کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے اُن کے درمیان واضح فرق ظاہر کرتا ہے(9آیت)۔ مسیح پر ایمان نہ رکھنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ "جسمانی باتوں کے خیال میں رہتےہیں”(5آیت) جس سے مرادیہ ہے کہ غیر ایمانداروں پر اُن کی گناہ آلودفطرت غالب ہوتی ہے ۔ یہ بات ایک ایسے طرزِزندگی کا باعث بنتی ہے جسے "جسم کے مطابق” چلنے کے طور پر بیان کیا گیا ہے (4آیت)۔ بنیادی طور پر اُن کے دل ” جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں” (5آیت)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر ایماندار خدا کے ساتھ دشمنی کی حالت میں ہے ” کیونکہ وہ ” نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو ” سکتا ہے (7آیت) اور ایسی حالت میں ہے کہ "خدا کو خوش ” کرنے کے قابل نہیں (8آیت)۔ایسے شخص کا حتمی انجام ابدی "موت” ہے (6آیت)۔
غیر ایماندار کا ذکر کرنے کے دوران پولس رسول ضمیر غائب کا استعمال کرتے ہوئے بات کرتا ہے : مثلاً”وہ”(5آیت)، اور "یہ (نیت )” (7آیت)، اور "وہ” (مثال کے طور پر 5آیت)۔ لیکن جب وہ 9 آیت میں ایماندار کو بیان کرتا ہے تو وہ ضمیرِ حاضر یا مخاطب کی طرف لوٹ آتاہے: "تم”، یعنی اَے ایمانداروں۔ تمہاری شناخت یہ ہے کہ تم "رُوحانی باتوں کے خیال میں رہتے” ہو(5آیت) مطلب یہ ہے کہ تم رُوح القدس کے اختیار کے تابع ہو۔ اور یہ بات ایک ایسے طرزِ زندگی کا باعث بنتی ہے جسے "ُروح کے مطابق” چلنے کے طور پر بیان کیا گیا ہے (4آیت)۔ تمہارے دل بنیادی طور پر "رُوحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں”(5آیت)۔ پولس رسول 7-8 آیات میں جس تضاد کی طرف اشارہ کرناچاہتاہے وہ یہ ہے کہ تم خدا کے ساتھ صلح میں ہو کیونکہ تمہیں خدا کی شریعت کی خوشی کیساتھ تابعداری کرنے کے قابل بنایا گیا ہے (7آیت) اور اب تم خدا کو خوش کرنے کی حالت میں ہو(8آیت)۔ تمہارا حتمی انجام ابدی "زندگی اور اطمینان ” ہے (6آیت)۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یقیناً، خدا باپ کی محبت نے اِسے تحریک بخشی تھی: "اِس لئے کہ جو کام شرِیعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر۔۔۔ نہ کر سکی وہ خُدا نے کِیا۔۔ ۔ یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گُناہ آلُودہ جسم کی صُورت میں اور گُناہ کی قُربانی کے لئے بھیج کر ” کیا (3آیت) اور اس طرح "خُدا اپنی مُحبّت کی خُوبی ہم پر ۔۔۔۔ظاہِر کرتا ہے (5باب 8آیت)۔ یقیناً، یسوع مسیح کے مکمل کردہ کام نے –جو کہ "گناہ آلودہ جسم کی صورت میں
” اِس لیے آیا تھا کہ صلیب پر "جسم میں گناہ” کا تدارک کرے(گناہ (8باب 3آیت ) ، ہمارے لیے نئے دل خریدے۔
تاہم ، پولس رسول خاص طور پر کہتا ہے کہ خطِ منقسم/تقسیم کرنے والی لکیر رُوح القدس ہے۔ کیوں؟ چونکہ 9آیت بیان کرتی ہے کہ ” خُدا کا رُوح تم میں بسا ہؤا ہے”۔غیر ایماندار سے ایماندار میں تبدیل ہونے کی اصل شرط رُوح القدس کا کسی میں سکونت کرنا ہے -اِس لازم حقیقت کو نہ کسی مذمت/ملامت/سزا(1 آیت) کا تجربہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی جُدائی کا (39 آیت)۔ چونکہ رُوح ہمارے اندر بستا ہے اس لیے وہ ہمیں باپ ( وہ "خدا کا روح ہے”8 آیت) اور مسیح (وہ "مسیح کا روح ہے”9آیت) کے ساتھ باہمی رشتے میں جوڑتا ہے ۔یہی ہماری پہچان ہے۔ اور دنیا کے لیے ہماری خواہش ہے کہ وہ بھی یہ پہچان پائے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔