
فضل کی خدمت کے عام وسیلے
06/02/2025
کلیسیا
13/02/2025بائبل مقدس

اگرچہ اصلاحِ کلیسیا کی جنگیں محض ایمان کے ذریعے سے تصدیق کے حوالے سے شدید تھیں، لیکن درُست طور پر یہ بھی دیکھا کیا گیا ہے کہ رومن کیتھولک کلیسیا کے ساتھ سب سے شدید جنگ اختیار سے متعلق تھی۔ فضل کی خالص خوشخبری کے متعلق تمام سوالات کےپیچھے ایک بنیادی سوال یہ تھا کہ ’’کون کہتا ہے؟‘‘ اختیار کا یہ سوال کسی گوشے میں پوشیدہ نہیں تھا۔ کئی نسلوں سے روم نےاپنی آواز کو سچائی کا حتمی ناقابلِ تسخیر ثالث قرار دیا تھا، جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کلیسیا کو بائبلی اور روایتی تفسیر کیسے کرنی چاہئے، اور کیسے ایمان اور تفہیم سے متعلق حتمی بات پہنچانی چاہئے۔روم کے نزدیک، حتمی اور ناقابلِ تسخیرآواز مجسٹریم(بشپوں اور پوپ کی بااختیار تعلیم) کی ہے، جس میں پوپ کے لئے خاص امتیاز ہے ، جب وہ ایکس کیٹھیڈرا (کرسی سے) سے خطاب کرتا ہے۔
مصلحین نے الہٰی دلیل کے ساتھ احتجاج کیاکہ کلیسیا اور اُس کے عہدیداروں کو کتابِ مقدس پر عدالت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کیوں کہ کلیسیا ’’کلام کی تخلیق creatura verbi‘‘ہے، یعنی کلام سے خلق کی گئی ہے۔ اِس طرح کلیسیا اور اُس کے تمام عہدیدار خدا کے کلام کے تابع ہیں۔ لیکن روم نے اُس اختیار پر قبضہ کر لیا جو صرف خدا کے کلام کا ہے، اوریوں کلیسیا کے ثانوی اختیار کو حتمی اختیار میں تبدیل اور مسخ کر دیا ۔ اِس لئے مصلحین نے یکساں طور پر روم کے اِس دعو ےکو ردّ کر دیا کہ روایات اور بائبل یکساں اختیار سے بولتی ہے، اور ساتھ ہی اُس کے فیصلہ کُن مجسٹریل آواز کو مسترد کیااور اُس کے لاخطا دعوؤں کو ناجائز قرار دیا۔ صرف بائبل مقدس ہی لاخطا ہونے کا درجہ رکھتی ہے اور سب سے بڑے مُنصف کے طور پر کام کرتی ہے۔(ویسٹ منسٹر اقرارالایمان باب۱جُز ۱۰)۔
روم کا مجسٹریل اختیار پر دعویٰ، دراصل خدا کے کلام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے بنی نوع انسان کے مسلسل انکار کا محض ایک مظہر ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں، جے گریشام میچن کو ایک نئے اور طاقت ور حریف کا سامنا کرنا پڑا-یعنی لہٰیاتی لبرل ازم۔ اگرچہ یہ حریف مصلحین کے سامنے باقی حریفوں کے مقابلے میں مختلف تھا، لیکن اِس کی آواز بلند، اثرورسوخ مضبوط، اور معاملے کی سنگینی بہت زیادہ تھی۔ میچن بخوبی جانتا تھا کہ اُس کا مقابلہ کس حریف سےہے، اور کتابِ مقدس کے شعوری اختیار کے تحت لوتھر جیسے عزم کے ساتھ اُس نے بہادری سے یہ سوال اُٹھایا کہ، ’’کیا ہم نئےعہد نامے کے یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کریں گے، یا ہم اُسے لبرل ازم کلیسیا کے ساتھ ردّ کر دیں گے؟‘‘
پہلی جنگِ عظیم کے بعد، جدیدیت کے دَور میں الہٰیاتی لبرلزم گویا ہر سو پھیلا ہوا تھا۔ اور مرکزی کلیسیا نے اِسے بخوشی قبول کر لیا تھا۔ سکوپس کے بدنامِ زمانہ“monkey” مقدے کے بعد ، بنیاد پرست مسیحیت تعلیم یافتہ اور صاحبِ ذوق طبقے کے لئے تمسخر کا نشانہ اور ایک آسان ہدف بن کر رہ گئی تھی۔۱۹۲۲ء میں ہیری ایمرسن فوسڈک کے معروف وعظ ’’کیا بنیاد پرست جیت جائیں گے؟‘‘، میں اگرچہ رواداری کے اعلیٰ قانون کی وکالت کی گئی تھی، لیکن اُس نے نہایت لطیف انداز میں یہ تاثر بھی دیا کہ تاریخی مسیحی ایمان بے معنی ہے۔ فوسڈک کی درخواست یہ تھی کہ سب لوگ محض باہم میل جول سے رہیں۔
لیکن معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ فوسڈک اور اُس کے آزاد خیال ساتھی کتنے حیرت انگیز طور پر روادار تھے ، حالانکہ وہ سب اِس اٹل عقیدے پر قائم تھے کہ نظریہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن فوسڈک نے اُن لوگوں کے لئے بہت کم محبت کا مظاہرہ کیا جو ایمان کے بنیادی اصولوں پر سختی سے کاربند تھے۔ ظاہر ہے کہ محبت کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور اُن کی وضاحت ضروری ہے۔میچن نے یہاں بجا طور پر یہ نقطہ دریافت کیا کہ ’’اِنسانی محبت، جو بظاہر اتنی سادہ نظر آتی ہے، درحقیقت عقائد سے لبریز ہے۔ ‘‘
جیسا کہ میچن نے معروف انداز میں مشاہدہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ ’’الہیاتی لبرل ازم ، مسیحیت کی کوئی ترقی یافتہ شکل نہیں، بلکہ اپنے زمانے کے فطرت پسند/انسانیت پسند نظریات پر مبنی ایک بالکل مختلف مذہب ہے۔ اپنی کتاب بعنوان’’مسیحیت اور لبرلزم‘‘ میں ، میچن نے اِس نئے مذہب، اِس کے نئے عقائد اور اِس کے خود ساختہ اختیار کوموثر طور پر بے نقاب کیا۔ یہ مذہب ’’خدا، اِنسان، اختیار کی نشست اور نجات کے طریقے کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں مسیحیت سے بالکل مختلف ہے۔‘‘
میچن نے آزادخیال کلیسیا کے دعوے’’اقتدار کی نشست‘‘ کی تردید بالکل اسی طرح کی جس طرح مصلحین نے روم کے دعوے کو ردّ کیا تھا۔ اُس نے کتابِ مقدس کی جانب رجوع کیا، کیوں کہ یہ کلام ہمارے پاس محض انسانی الفاظ کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ الہٰی کلام کی حیثیت سے نازل ہواہے۔ اِس میں کوئی بات آدمی کی خواہش سے نہیں (۲-پطرس ۱: ۱۹- ۲۱)، بلکہ خدا کے الہام سے ہے (۲-تیمُتھیس ۳: ۱۶) اوربائبل’’خدا کی طرف سے اِنسان پر مکاشفے کا ایک بیان ہے، جو کہیں اَور نہیں ملتا۔‘‘میچن کو کامل یقین تھا کہ بائبل بالکل ’’برحق کلام‘‘ ہے، کیوں کہ ’’مسیحی جس کی عبادت کرتے ہیں وہ بھی خدایِ برحق ہے۔‘‘اگر خدا بذاتِ خود سچائی کا خدا ہے، تو اُس کا سارا کلام بھی مکمل طور پر سچائی ہے۔ غیر مشروط الہام کا یہ نظریہ (تمام کلام خدا کا کلام ہے) خود کلامِ مقدس اور خود یسوع کی مستند گواہی ہے۔ صرف کتاب مقدس ہی اختیار کی آخری نشست ہے۔
کلامِ الہٰی سے مسلح ہو کر،میچن نے گہر ی بصیرت، سچی ہمدردی اور بے ساختہ وضاحت کے ساتھ بات کی۔ اُنہوں نے لبرل ازم کے اُن عقائد کو للکارا جو مافوق الفطرت کی نفی کرتےتھے، گناہ کی سنگینی کو کم کرتے تھے، بنی نوع انسان کی فطری نیکی پر فخر کرتے تھے، دلکش رواداری کے پردے میں تاریخی الہٰیات کو دھندلا دیتے تھے اور یسوع مسیح کو خدا کے بجائے محض ایک پیشوا(گُرو) بنا دیتے تھے۔ روم کے مجسٹریل اختیار کے برعکس، اُس دَور کی غالب آواز الہیاتی لبرل ازم تھی، ’’جو گناہ گار انسانوں کے متغیر جذبات پر مبنی تھی۔‘‘
جذبات کے ناپائیدار بنیادوں پر کھڑے ہو کرممتاز فرقوں نے اپنی نئی آزادی کا جشن منایا۔ اُن کے مطابق بائبل مقدس انسانی تصنیف ہے، اِس لئے ہم اپنی مرضی سے اِس کی تفسیر کر سکتے ہیں۔ ہم گناہ اور نجات کی بائبلی اصطلاحات، اور قدیم عقائد کی زنجیروں سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ راسخ العقیدہ is passe، اِس نئے دَور میں ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
جے گریشام میچن کو یقین تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ خدا کے جلال کے جذبے سے سرشار ہو کر سچائی کی روشنی سے تاریکی کو بے نقاب کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
آئیے خود کو دھوکہ نہ دیں۔ پہلی صدی کا ایک یہودی معلم ہماری روحوں کی تڑپ کو تسکین نہیں دے سکتا۔ اسے جدید تحقیق سے ملبس کرتا، اُس کے اوپر جدید جذباتیت کی سرگرم اور فریب کار ناموری، اور عام فہم ہونے کے باوجود اور ہماری خودفریبی کے مختصر وقت کے لئے یہ دوبارہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گی- گویا ہم یسوع کے ساتھ تھے- نااُمید مایوسی کا بدلہ ہم پر تباہی مچا دے گا۔
لبرلز کو یقین تھا کہ اُنہیں آزادی مل گئی ہے۔لیکن میچن نے اعتراض کرتے ہوئے کہا، ’’خدا کی بابرکت مرضی سے خلاصیہمیشہ کسی بدتر حاکم کی غلامی میں مبتلا کر تی ہے۔ ‘‘
کلامِ مقدس پر کامل اعتماد سے حاصل ہونے والی الٰہی ، دقیانوسی تنگ نظری کے الزامات کے باوجود، میچن کو متحرک کرتی اور ہر ایمان دار کے دِل کو مستعد کرتی ہے۔ایسا ہرگز نہ کہا جائے کہ کتابِ مقدس پر انحصار ایک بے جان یابناوٹی عمل ہے۔ سولہویں صدی کی اِصلاحِ کلیسیا کی بنیاد بائبل کے اختیار پرتھی، اور اُس نے دُنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اِنسان کےکلام پر انحصار غلامی ہے، مگر خدا کے کلام پر انحصار زندگی ہے۔ اگرہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا اور ہماے پاس خدا کا مبارک کلام نہ ہوتاتو دُنیا کس قدر تاریک اور مایوس کُن ہوتی۔ مسیحیوں کے لئے بائبل مقدس کوئی بوجھل قانون نہیں، بلکہ مسیحی آزادی کی اصل دستاویز میگنا کارٹا (magna charta) ہے۔
اسی آزادی میں میچن ثابت قدم رہا، اور اسی آزادی میں ہر مسیحی کی خوشنودی ہے۔ جو مسیحی رات دِن خدا کے کلام سے سیر ہوتا ہے وہی مصیبتوں کا سامنا کرے گا اور ثمرآور ہو گا(زبور ۱)۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔