علم اُلمسیح کیوں اہم ہے؟
06/11/2024
تاریخی کُتب اور زبور کی کتاب
11/11/2024
علم اُلمسیح کیوں اہم ہے؟
06/11/2024
تاریخی کُتب اور زبور کی کتاب
11/11/2024

اَسفارِ خمسہ

زیادہ تر لوگ جب  یسوع مسیح کا نام سنتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ”مسیح“ یسوع کا آخری نام ہے، جیسے کہ سمتھ، جونز یا ولسن وغیرہ۔ تاہم انگریزی لفظ ”مسیح“ یونانی لفظ ” christos“ کا ترجمہ ہے جو کہ عبرانی عہدِ عتیق کے یونانی ترجمے”ہفتادی“ میں لفظ ”مشیاخ یا مسایا“  کا ترجمہ ہے۔ لہٰذا جب ہم یسوع مسیح  کا نام سنتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ”مسیح“ یسوع کا آخری نام ہے بلکہ یہ اُس کا لقب ہے۔ جب ہم ”یسوع مسیح“ کہتے ہیں تو درحقیقت ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یسوع ہی عہدِ عتیق کا ”مسیح“ ہے۔ 

اِس چیز سے واقفیت ہماری یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ ہم کیسے عہد عتیق کے مسیح کےبارے میں بات کر سکتے ہیں۔  اگرچہ مسیح یسوع کے بارے میں علم عہدِجدید کے آغاز اور اناجیل اربعہ کی تصنیف سے قبل اُس وقت تک ظاہر نہ ہوا جب تک مسیح بذاتِ خود مجسم نہ ہوا۔ ہم اِسے عہدِ عتیق میں ”مسیح کے بارے میں علم“ کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ اِس میں متعدد وعدے، پیشین گوئیاں، عکس اور اَقسام پائی جاتی ہیں جو مسیح کی آمد کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ ہم محض اِس کے متن پر ہی نہیں بلکہ اِس کے اندر پوشیدہ مفہوم پر غورو خوض کریں گے۔ اگر ہمیں یہ جاننا ہے کہ یہ”مسیح“ کون ہے تو  اُس سے پہلے ہمیں اِس کے متن کو سمجھنا اَزحد لازم و ملزوم ہے۔ 

پیدایش 3 باب

عہدِعتیق میں موضوع مسیح کی طرف پہلا اِشارہ اِنسانی زوال کے الم ناک نتیجے میں اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ آدم اور حوا نے خدا کے کلام کے برعکس سانپ(اِبلیس) کی باتوں کا یقین کیا جس کے نتیجے میں خدا فوراً متحرک ہوا۔ اِس کے بعد مرد اور عورت دونوں ہی خدا کا سامنا کرتے اور اِلزام تراشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں (پیدایش 8:3-13)۔ خدا نے اُن کی عدالت کا اعلان کرتے ہوئے سانپ سے آغاز کیا، پھر عورت اور آخرکار مرد کے بارے میں اپنا فیصلہ سنایا (پیدایش 19:14)۔ اُس نے سانپ کو لعنتی ٹھہرایا (14آیت)  لیکن اِس لعنت کو بیان کرنے کے عمل میں خدا تمام نسلِ انسانی سے نجات کی اُمید کا وعدہ کرتا ہے۔ اِنسان زوال کے سبب سے اِلٰہی نجات کی ضرورت پیش آئی جسے خدا نے فوری طور پربیان کیا۔ اُس نے ابلیس سے مخاطب ہو کر کہا ”اور مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“(پیدایش 15:3)۔ 

اِس آیت کو زیادہ تر "Protevangelium” یا پہلی اِنجیل (خوش خبری)کہا جاتا ہے۔ اِس میں بغاوت کے باوجود خدا کا فضل اور اُس کا رحم دکھائی دیتا ہے۔ خدا وعدہ کرتا ہے کہ اگرچہ یہ نیکی اور بدی کے درمیان ایک طویل جنگ ہوگی لیکن اِس میں عورت کی نسل (مسیح) بالآخر اِس میں فتح مند ہوگی۔ عہدِعتیق و جدید یاددِہانی کے طور پر واضح کرتے ہیں کہ یہ فتح ”مسیح“ یعنی یسوع  مسیح کے وسیلہ سے آئے گی۔

اَبرہام کے ساتھ عہد

اِسلاف کے تاریخی دَور میں سب سے زیادہ توجہ خدا کے پُرفضل وعدوں اور برکات پر ہے (پیدایش 50:12) وہ وعدے جو پہلے ابرہام، پھر  اِضحاق اور اُس کے بعد یعقوب کے ساتھ کئے گئے۔ کتاب مقدس کے بقیہ حصے کو سمجھنے کے لئے ان وعدوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اَبرہام کی بلاہٹ (پیدایش 1:12-9) اِنسانی نجات کی تاریخ کا ایک اہم نقطہ ہے جبکہ پیدایش 11:1 بنیادی طور پر گناہ کے ہولناک اَنجام کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے۔ پیدایش 12 باب میں ہم خدا کے اَبرہام سے نجات کی اُمید، برکات کی بحالی اور خدا کے ساتھ میل ملاپ کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں۔ خدا گناہ اوربدی جیسے سنگین مسائل سے نمٹنے اور اپنی بادشاہی کو زمین پر قائم کرنے والا ہے۔ وہ اَبرہام کے ساتھ کئے گئے وعدوں میں اِن مسائل کا اِنکشاف کیسے کرتا ہے۔ پیدایش 1:12-9 کا کلیدی حصہ 1:12-3 میں اَبرہام کی بلاہٹ میں واضح ہوتا ہے۔ 

خدا نے ابرہام سے فرمایا”خدا نے اَبرہام سے کہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناطے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے کل کر اُس مُلک میں جا جو مَیں تجھے دکھاؤں گا۔ اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ سو تُو باعث برکت ہو گا۔ جو تجھے مبارک کہیں اُن کو مَیں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے“(پیدایش 1:12-3)۔ 

اسفارِ خمسہ میں ابرہام کی بلاہٹ کا بارہا دُہرایا جانا کلیدی برکات کی اِصطلاح ہے۔اِنسان کے گناہ کے نتیجے میں خدا کی لعنت آئی (پیدایش 14:3،71؛ 11:4؛ 29:5؛ 25:9)۔ لیکن یہاں خدا  نے اپنے لیے ایک قوم کا چناؤ کرنے اور تمام نسلِ اِنسانی کے لیے اپنی برکات کے حقیقی مقاصد کو بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے(پیدایش 28:1)۔ کسی نہ کسی طرح سے اَبرہام اِس برکت کی بحالی کا ثالثی بننے والاتھا۔ خدا کی طرف سے اَبرہام کی بلاہٹ میں چار بنیادی وعدے شامل ہیں:

  1. نسل
  2. مُلک موعود
  3. اَبرہام کی اپنی برکات
  4. اور اَبرہام کے وسیلہ سے قوموں کی برکات 

 یہ زمین پرموجود قوموں کی وعدہ کی ہوئی برکات کی چابی ہے۔ اَبرہام کی بلاہٹ کا بنیادی مقصد زمین کے تمام قبائل کی برکات ہے۔ اُس کی بلاہٹ اور اور اُس کے  ساتھ کئے گئے وعدے ناتمام ہیں ۔ اَبرہام سے اولاد، ایک مُلک موعوداور اپنی ذاتی برکات کا وعدہ کیا گیا تاکہ وہ زمین کے تمام قبائل کے لیے خدا کی عطا کردہ برکات کا ثالث بن سکے۔ جیسا کہ عہدعتیق واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ یہ برکات خدا کی بادشاہی اور اُس کے مسیح کے تحت وقوع پذیر ہوں گی۔   

پیدایش 49 باب

  جیسے ہی یعقوب قریب الموت تھا تو اُس نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا تاکہ اُن کے بارے میں اپنے آخری اَلفاظ  بیان کرے(پیدایش 49 باب)۔ یعقوب نے اُس وقت اپنے بیٹوں سے کہا ”اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ کہہ کر بلوایا کہ تم سب جمع ہو جاؤ تاکہ مَیں تم کو بتاؤں کہ آخری دِنوں میں تم پر کیا کیا گذرے گا“ (پیدایش1:49)  اِن آنے والے یا بعد کے ایام کا مطلب اُس کے سیاق و سباق میں طے کیا جانا چاہئے (گنتی 14:24) ۔  عام طور پر یہ مستقبل کے مقررہ ایام سے متعلق بات کرتا ہے۔ یعقوب نے اپنے تمام بیٹوں سے کلام کیا لیکن یہوداہ سے کیا جانے والا کلام پرانے عہد نامے میں ”مسیح کے بارے میں علم “کے لیے اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یعقوب کا یہوداہ کے لیے کیا جانے والا کلام داؤد اور دِیگر بادشاہی اَدوار کی پیش بینی ہے۔ پیدایش 10:49 میں یعقوب نے کہا ”یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔جب تک شیلوہ نہ آئے اور قومیں اُس کی مطیع ہوں گی “۔ بعض لوگ اِس عبارت کو عہد عتیق کی مسیح کے بارے میں پہلی پیشین گوئی سمجھتے ہیں۔ عبرانی زُبان کے ابہام کے سبب سے اِن اَلفاظ ”جب تک شیلوہ نہ آئے“ کا صحیح ترجمہ متنازعہ ہے۔ لیکن عام طور پر سب ہی اِس بات پر متفق ہیں کہ یہ نبوت داؤد کے بادشاہی دَور کی طرف اِشارہ ہے۔ البتہ یعقوب کے نبوتی کلام کا بنیادی مفہوم ”شاہی اَعصا“ یعنی اُس بادشاہت کی علامت ہے جو یہوداہ کے قبیلے سے تعلق رکھتی اور اُس وقت تک قائم رہے گی جب تک ”شیلوہ“ یعنی وہ شخص نہ آجائے جو شاہی رُتبے پر فائز اور صداقت سے تعلق رکھتا ہو۔ عہدعتیق کی یہ نبوت جزوی طور پر داؤد میں تکمیل پاتی ہے ، جبکہ عہدجدید میں حتمی  طور مسیح یسوع جو کہ ابن داؤد اور یہوداہ کے قبیلہ کا ببر ہے اُس کے وسیلہ سے پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے (متی 1:1؛ مکاشفہ 5:5)۔

خروج

  کرنتھیوں  کے نام پہلے خط میں پولس اپنے قارئین کو بتاتا ہے کہ ”۔۔۔ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا ہے“(1۔کرنتھیوں 7:5)۔ اِس عبارت کا پس منظر خروج کی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ خروج 12 باب میں خدا  موسیٰ کو فسح منانے کے متعلق وہ تمام ہدایات دیتا ہے جو اِسرائیل کو مصر سے ممتاز کرتی ہیں۔ ”یہ مہینہ تمہارے لیے مہینوں کا شروع اور سال کا پہلا مہینہ ہو“ (آیت:2)۔ یہ رات اِسرائیل کی بطور قوم پیدایش کی یاد میں منائی جائے گی۔ اِسرائیل کا ہر خاندان اپنے لیے ایک بے عیب برّہ لے اور اِسی مہینے کی چودھویں تاریخ تک اپنے پاس رکھے اور چودہ تاریخ کی شام کو اُسے ذبح کرے (آیت 3-6)۔ اُس برّے کا خون اپنے گھر کے دروازوں اور چوکھٹوں پر لگائے اور گھر کے تمام افراد اُس بّرے کا گوشت بھون کر کھا لیں۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ آج کی رات مَیں مصر میں سے گزروں گا اور اُن کے سب پہلوٹھوں کو مار ڈالوں گا لیکن  جن گھروں پر برے کے خون کا نشان ہوگا اُن کو چھوڑتا جاؤں گا (آیت 12-13)۔ فسح کا برّہ خدا کے پہلے بیٹے اِسرائیل کا عوضی بن جاتا ہے۔ اِس میں اُس آنے والےمسیح کا عکس نظر آتا ہے جو اپنے لوگوں کے عوض موت قبول کرتا ہے۔ 

احبار

احبار کی کتاب کے سرسری مطالعہ سے شاید مسیح کی جھلک واضح نہ ہوا، لیکن عہدِ جدید اُس کو بطور سردار کاہن پیش کرتا ہے(عبرانیوں 9:8) اور تمام گناہوں کی ایک ہی بار قربانی کے طور پر(عبرانیوں 10باب) جو احبار کی کتاب سے واضح مطابقت رکھتی ہے۔ خدا کے لوگوں کی پاکیزگی کو احبار کی کتاب میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، جہاں کہانت اور قربانیوں سے متعلق قوانین تفصیل سے مندرج ہیں۔ اِسرائیل کے لوگ جب بھی کسی گناہ کا اِرتکاب کرتے تو اُنہیں یہ قربانیاں  پاک ہونے کا ذریعہ فراہم کرتی تھیں اور اِن قربانیوں کو پیش کرنے والے کاہن خدا اور اُس کے لوگوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے تھے۔ کہانت اور قربانیاں دونوں ہی مسیح کی شخصیت اور اُس کے کاموں کی بڑی حقیقت کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ 

گنتی

مسیح کے بارے میں پیشین گوئیوں میں سے بلعام سے متعلق ایک بہت دل چسپ کہانی (گنتی 22-24 باب) میں پائی جاتی ہے۔ جیسے ہی ہم اِس کہانی کو پڑھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اِسرائیل موآب کے میدانوں میں ڈیرے لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور موآب کا بادشاہ بلق بن صفور اُن سے خوف  زدہ دِکھائی دیتا ہے (1:22-4)۔نتیجتاً، اُس نے بلعام کو بلوا بھیجا جو مسوپتامیہ کا بت پرست نبی تھا، تاکہ وہ آکر بنی اِسرائیل پر لعنت کرے (آیت 5-8)۔ تاہم خدا نے بلعام کو اِسرائیل پر لعنت کرنے کی اِجازت نہ دی بلکہ اُسے حکم دیا کہ وہ اِسرائیل کو برکت دے۔ باب 23-24 میں بلق کی مایوسی کے سبب سے بلعام بنی اِسرائیل کے بارے میں چار پیشین گوئیاں کرتا ہے۔ چوتھی پیشین گوئی خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ بلعام آنے والے بادشاہ کے متعلق پیش بینی کرتا ہے جو کہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوگا ” مَیں اُسے دیکھوں گا تو سہی پر ابھی نہیں۔ وہ مجھے نظر بھی آئے گا پر نزدیک سے نہیں“ (گنتی 17:24)۔ وہ آنے والے بادشاہ کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے ”یعقوب میں سے ایک ستارہ نکلے گا اور اِسرائیل میں سے ایک عصا اُٹھے گا“(گنتی 17:24؛ پیدایش 10:49)۔ یہ بادشاہ اپنے دُشمنوں کو شکستِ فاش دے گا (آیت 18)۔ اِس نبوت کی جزوی تکمیل ہم داؤد کی بادشاہ میں دیکھتے ہیں لیکن  اِس کی حتمی تکمیل آنے والے مسیح کا  اِنتطار کر رہی تھی۔   

اِستثنا

اِستثنا کی کتاب کا مرکزی مضمون نبوتی خدمت کا اِستحکام ہے (اِستثنا 15:18-22)۔ ممنوع راستوں سے آگاہی کے بعد وہ خدا کی مرضی جاننے کی کوشش کے بارے میں بیان کرتا ہے (آیت 9-14)۔ موسیٰ مزید نبوت کے بارے بیان جاری رکھتا ہے، یعنی وہ شرعی طریقہ جس کا اِستعمال کر کے خدااپنے کلام کو اپنے لوگوں تک پہنچاتا ہے (آیت 15-22) وہ لوگوں سے کہتا ہے ”خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اُس کی سننا“ (استثنا 15:18)۔خدا موسیٰ کی موت کے بعد اُس نبوتی خدمت کے تسلسل کو جاری رکھتا ہے۔

تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ موسیٰ اُن تمام نبیوں میں سے جو خدا کی خدمت کرتے تھے سب سے منفرد شخصیت تھا (گنتی 6:12-18؛ اِستثنا 10:34-12)۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد میں آنے والے نبیوں کے پیغام کی جڑیں موسوی عہد میں پیوست تھیں۔ Jeffrey Niehaus بیان کرتے ہیں کہ ”نبوتی خدمت کی دو اقسام تھیں: اوّل، عہد کا درمیانی ہونا (جو کہ صرف موسیٰ تھا) دوم، عہد کے قوانین کو بیان کرنے والا پیامبرہونا( جیسے کہ بعد میں آنے والے اَنبیا) “۔ خدا نے موسیٰ کو بنی اِسرائیل کے لیے عہد کا درمیانی ہونے کے لیے اُٹھا کھڑا کیا تاکہ وہ آنے والے نبیوں کو اِس کی وضاحت کی ترغیب دے اور وہ لوگوں کو اِس عہد کی نافرمانی کے سبب سے آنے والی سزاؤں کے بارے میں بتائیں۔ خدا نے نبیوں میں سے ایک کو موسیٰ کی طرح کھڑا کرنے کا وعدہ کیا جس کو بنی اِسرائیل نے آنے والے مسیح کی نبوت کے طور سمجھا (یوحنا 21:1،45؛ 14:6؛ 40:7)۔ آخرکار یہ نبوتی وعدہ مسیح کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو کہ نئے عہد کا منفرد درمیانی ہے (اعمال 20:3-22)۔ 

حاصلِ کلام

”یہوواہ نے میرے خُداوند سے کہا تُومیرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیر ے دُشمنوں کو تیرے پاؤں کی چو کی نہ کر دوُں۔
خُداوند تیرے زور کا عصا صیُون سے بھیجے گا۔ تُو اپنے دُشمنو ں میں حُکمر ا نی کر ۔ لشکر کشی کے دِن تیر ے لوگ خُوشی سے اپنے آپ کو پیش کر تے ہیں ۔تیر ے جوان پاک آرایش میں ہیں۔ اور صُبح کے بطن سے شبنم کی مانند ۔ خُداوند نے قسم کھائی ہے اور پھرے گانہیں کہ تُو مِلکِ صدؔق کے طور پر اَبدتک کاہن ہے ۔ خُداوند تیرے دہنے ہاتھ پر اپنے قہر کے دن بادشاہوں کو چھید ڈالے گا۔ وہ قوموں میں عدالت کرے گا۔ وہ  لاشوں کے ڈھیر لگا دے گا۔  اور بہت سے مُلکوں میں سروں کو کُچلے گا۔  وہ راہ میں ندی کا پانی پئیےگا  اِس لیے وہ سر کو بُلند کرے گا۔“

” یہ مضمون  آرتھوڈوکس علم المسیح کے تعارف کا حصہ ہے“۔ 

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔