تاریخی کُتب اور زبور کی کتاب
11/11/2024کلیسیا ایک، مقدس،عالمگیر( کیتھولک) اور رسولی ہے
25/11/2024عہدِ جدید میں علم اُلمسیح
عہد جدید مسیح کی شخصیت اور اُس کے کاموں کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ اِلہٰیاتی مسائل پر دھیان گیان کرنے کا بہت بڑا اور گہرا وسیلہ رہا ہے۔ اَلبتہ یہاں ہم صرف اِس بارے میں سطحی مطالعہ کریں گے۔ اِس مختصر تحریر میں ہم مندرجہ ذیل دو سوالات کے جوابات پر غور کریں گے:
- یسوع نے اپنے بارے میں کیا دعویٰ کیا کہ وہ کون ہے؟
- اور اُس کے شاگردوں نے اُس کے بارے میں کیا بتایا کہ وہ کون ہے؟
مسیح کی اپنی گواہی
اِس میں شک کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ یسوع نے اپنے آپ کو عہد نامہ قدیم کی پیشین گوئیوں کی تکمیل سمجھا۔ اُس نے اپنے لیے ”مسیح“ کا لقب (جو کہ عبرانی لفظ”مسایاہ“ کا یونانی ترجمہ ہے) اِستعمال کیا (یوحنا 25:4-26؛ 3:17) اور جب دُوسرے لوگ اُس کے لیے اِس لقب کو اِستعمال کرتے تو وہ اِسے قبول کرتا تھا (متی 16:16؛ یوحنا 25:11-27)۔ عہدِ عتیق میں جس کا وعدہ کیا گیا تھا، یسوع نے اُس کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا۔
اگرچہ یسوع نے اپنے لیے ”مسیح“ کا لقب اِستعمال کیا، لیکن اُس کا اپنے لیے سب سے پسندیدہ لقب ”اِبن آدم“ تھا۔ یہ لقب اناجیلِ متوافقہ میں 69 اور 13 سے زائد مرتبہ یوحنا کی اِنجیل میں آیا ہے۔اِبن آدم اپنے آپ میں ”مسیح“ کا لقب ہے جس کے حقیقی معنی صرف دانی ایل 7 باب کا جائزہ لینے سے ہی سمجھے جا سکتے ہیں، وہاں ایک ہستی کا بیان کیا گیا ہے جو زمانہ قدیم سے موجود ہے اور اُسےسلطنت،حشمت اور مملکت دی جاتی ہے۔ اپنے بارے میں”اِبن آدم“ کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع نے کہا،دراصل ”میں وہی ہوں جس کے بارے میں دانی ایل نے بیان کیا تھا“۔
یسوع نے اپنے آپ کو نہ صرف موعودہ مسیح سمجھا، بلکہ اُس نے اناجیل میں ایسے دعوے اور کام کئے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو تجسمِ خدا سمجھتا تھا۔ یسوع کئی جگہوں پر ایسےدعوے کرتا ہے جو اُس کے تجسم سے قبل اُس کے اِلٰہی وجود کو ظاہر کرتے ہیں (یوحنا 13:3؛62:6؛ 42:8)۔ متی 27:11 میں اُس کا بیان اُس کے باہمی اِختیار پر دلالت کرتا ہے جس کو وہ باپ کے ساتھ بانٹتا ہے۔ یوحنا کی اِنجیل میں بارہا مرتبہ اِستعمال ہونے والا مشہور دعویٰ ”مَیں ہوں“ اُس کی اُلوہیت پر پُرزور دلالت کرتا ہے (یوحنا 58:8؛19:13)۔ اُس کی تعلیمات اور اُس کے کاموں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تجسم خدا ہے۔ اُس نے شریعت کو ایسے سکھایا جیسے صرف خدا ہی سکھا سکتا ہے (متی 22:5،28،32، 34،39،44)۔ اُس نے گناہوں کو معاف کیا(متی 6:9؛ مرقس 10:2؛ لوقا 24:5) یہ کام صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ وہ دُعا کو سنتا اور اُس کا جواب دیتا ہے (یوحنا 13:14-14) اور اُس نے پرستش اور عبادت کو قبول کیا (متی 16:21)۔ کوئی بھی تب تک اِنجیل کو درستی سے پڑھ اور سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ یسوع اپنے آپ کو عہد عتیق کا ”مسیح“ اور تجسم میں خدا کا بیٹا سمجھتا ہے۔
یسوع مسیح اپنے آپ کو خدا کا الٰہی بیٹا اور مسیح سمجھتا ہے، لیکن شاگرد کیا کہتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ اگرچہ شاگردوں کو یہ جاننے میں بہت وقت لگا کہ یسوع مسیح کون ہے، لیکن جب وہ اِس سچائی کو جان جاتے ہیں تو پھر وہ دلیری سے اُس کی منادی کرنے میں ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے۔ نتن ایل یسوع کو خدا کا بیٹا اور اِسرائیل کا بادشاہ کہتا ہے (یوحنا 49:1)۔ پطرس اُسے ”خداوند“(لوقا 8:5) اور ”خدا کا قدوس“ کہتا ہے(یوحنا 69:6)۔ ازاں بعد پطرس نے یسوع کو ”زندہ خدا بیٹا“قرار دیا (متی 16:16)۔ پولس رسول نے بھی بیان کیا کہ یسوع ہی ”مسیح“ (اعمال 2:17-3) اور ”خداوند“ ہے اور وہ مسیح کی اُلوہیت کا اِقرار کرتا ہے (کلسیوں 15:1-20؛29:2؛ فلپیوں 6:2-11)۔ جب ہم عہدِ عتیق میں موجود اہلِ یہود کے بنیادی عقیدے کو دُہراتے ہیں کہ ”سن اَے اِسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے“ تو یہودیوں کے منہ سے نکلنے والے یہ بیانات اور بھی حیران کن دِکھائی دیتے ہیں۔
عہدِ جدید کے بیشتر اِقتباسات میں یسوع مسیح کو بطور خدا کا بیٹا بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یوحنا کی اِنجیل کا آغاز ہی یسوع مسیح کی اُلوہیت کو بیان کرنے سے ہوتا ہے۔
” اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔یہی اِبتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پَیدا ہُوئیں اور جو کُچھ پَیدا ہؤا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغَیر پَیدا نہِیں ہُوئی۔ اُس میں زِندگی تھی اور وہ زِندگی آدمِیوں کا نُور تھی۔اور نُور تارِیکی میں چمکتا ہے اور تارِیکی نے اُسے قُبول نہ کِیا۔۔۔ لیکِن جِتنوں نے اُسے قُبول کِیا اُس نے اُنہِیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہِیں جو اُس کے نام پر اِیِمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خُون سے جِسم کی خواہش سے نہ اِنسان کے اِرادہ سے بلکہ خدا سے پَیدا ہوئے۔اور کلام مُجّسم ہؤا اور فضل اور سَچّائی سے معمُور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا اِیسا جلال دیکھا جَیسا باپ کے اِکلَوتے کا جلال“(یوحنا 1:1-5، 12-14)۔
یہاں لفظ ”کلام“ کی شناخت یسوع کے ساتھ کی گئی ہے(آیت 14) اور اُسے ”خدا“ کہا گیا ہے(آیت 1)۔ یہواہ وِٹنس کی بدعتی تشریحات کے باوجود یہ حوالہ مسیح کی اُلوہیت کا بیان کرنے میں غیر مبہم ہے
پولس بھی کئی مقامات پر یسوع مسیح کو واضح طور پر خدا کہتا ہے۔ رومیوں 5:9 میں وہ بیان کرتا ہے ”اور قوم کے بزرگ اُن ہی (یہودیوں) کے ہیں اور جسم کی رُو سے مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر اور اَبد تک خدایِ محمود ہے۔آمین“ وہ کہتا ہے کہ یسوع مسیح سب پر خدا ہے۔ ططس 13:2 میں پولس رسول ہمارے نجات دِہندہ اور عظیم خدا یسوع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کی بات کرتا ہے۔”خدا“ اور ”نجات دِہندہ“ یہ دونوں اَلفاظ مسیح کی ذات میں متغیر ہوتے ہیں یعنی یسوع مسیح ہی خدا اور نجات دِہندہ ہے۔ پطرس بھی اپنے دُوسرے خط کی پہلی آیت میں یہ اِقرار کرتا ہے کہ یسوع مسیح خدا اور نجات دِہندہ ہے۔ اِن بیانات کے مفاہیم ایک لمحے میں ذہن کو چونکا دینے والے بیانات پر مبنی ہیں۔ عہد عتیق واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے (اِستثنا 4:6)۔ نیا عہد نامہ بھی اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے (مرقس 29:12)۔ پھر بھی نیا عہدنامہ ایک ہی وقت میں یہ بھی بیان کرتا ہے کہ یسوع مسیح خدا ہے۔ کیا نیا عہد نامہ پرانے عہد نامے سے متصادم ہے؟ تاہم مسیحیوں کو اِن دعوؤں کو کیسے سمجھنا ہے؟ کلیسیا یہ اِقرار کیسے کر سکتی ہے کہ ”خدا ایک ہے“ اور اُسی لمحے یہ اِقرار بھی کرے کہ ”یسوع مسیح خدا ہے؟“ کلیسیا کو اِِن مسائل پر کام کرنے اور عہد جدید کی ایسی تعلیمات کی وضاحت کرنے میں صدیاں بیت گئیں جس میں تمام شواہد کو مدِ نظر رکھا گیا ہو۔ ہم اپنی اگلی تحریر میں اِبتدائی کلیسیا کی تعلیم میں مسیح کی شخصیت کو دیکھنا شروع کریں گے۔
” یہ مضمون آرتھوڈوکس علم المسیح کے تعارف کا حصہ ہے“۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔