یاد رکھنا اور بائبل پر عمل کرنا
15/07/2025
علم التشریح کیا ہے؟
22/07/2025
یاد رکھنا اور بائبل پر عمل کرنا
15/07/2025
علم التشریح کیا ہے؟
22/07/2025

تاریخی  بیانیے کو کیسے پڑھیں ؟ 

بائبل ایک عہودی  بیانیہ کو  پیش کرتی ہے — وہ داستان جو ازل سے اَبد تک خُدا کی تخلیقِ کائنات، اِنسان کے گناہ میں گرنے، فضل کے عہد کے تحت نجات  اور آخر کار اُخروی جلال میں اَنجام کی منظر کشی کرتی ہے۔ خُدا خُود اس بیانیے کا بلند پایہ راوی ہے، جو اِبتدا ہی سے اَنجام کا اِعلان فرماتا ہے (یسعیاہ ۱۰:۴۶) اور جو خُود ازل و اَبد کا مالک ہے (یسعیاہ ۶:۴۴؛ ۱۲:۴۸)۔

یہ ایک قدیم بیانیہ  ہے، جو تقریباً پندرہ سو برسوں پر محیط ہے اور تین زُبانوں میں بیان کِیا گیا ہے۔ قدیم دُنیا کے اِدبی اسالیب ہماری معاصر طرزِ تحریر سے مختلف ہو سکتے ہیں، جس کے باعث ان بیانیوں کو سمجھنا بسا اَوقات مُشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، ذیل میں چند اہم اُصول اور تدابیر بیان کی جا رہی ہیں، جو ہمیں ان بائبل کے قدیم تاریخی بیانیوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کے اِدبی حسن سے لُطف اندوز ہونے میں مدد دیں گے ۔

۱۔ سمجھیں کہ بائبل کا متفقہ  بیانیہ ہمیشہ زمانی ترتیب میں پیش نہیں کِیا گیا 

بائبل میں ایک قدیم اِدبی تکنیک پائی جاتی ہے، جس کے تحت مصنف کسی واقعے کا اِجمالی بیان کرتا ہے اور پھر دوبارہ پیچھے جا کر اُس واقعے کی اہم تفصیلات یا اُس کے پسِ منظر کو واضح کرتا ہے۔ یوں بعض اَوقات بائبل میں واقعات کی ترتیب میں زمانی تسلسل کی بجائے تھیولوجی (اِلہٰیاتی حِکمت) کو ترجیح دی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر، پیدایش ۲ باب  کا آغاز تخلیق کے ساتویں دِن کی تفصیل سے  شروع ہوتا ہے (آیات ۱ -۳)، مگر اس کے بعد پورا باب چھٹے دِن کی تخلیق کو مزید گہرائی سے بیان کرتا ہے (آیات ۴ – ۲۵)۔ اسی طرح، پیدایش ۱۰ میں نوح کے بیٹوں اور اُن کی نسلوں کا ذکر کِیا گیا ہے، جو’’ اپنے اپنے ملک اور گروہوں میں اپنے قبیلوں اور اپنی زُبان کے مُطابق آباد ہیں ‘‘ (پیدایش ۳۱:۱۰)، لیکن اگلے ہی باب میں ہم اُس وقت میں واپس چلے جاتے ہیں جب زمین پر صرف ایک ہی زُبان اور قوم تھی — تاکہ بابل کے بُرج کے واقعے پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔

ایسا  ہی  منظر نامہ ۱۔ سموئیل ۱۶ اور ۱۷  ابواب میں بھی نظر آتا ہے: باب ۱۶ کے اختتام پر داؤد، ساؤل کا محبوب خادم اور ہتھیار  بردار کے طور پر  کُلی وقت خدمت گزار ہوتا  ہے۔ مگر اگلے ہی  باب میں داؤد ساؤل کے لیے ایک اجنبی شخص ہوتا ہے   اور ساؤل کو اُس کے بارے میں کچھ علم نہیں، یہاں تک کہ وہ ہتھیار کو  اِستعمال کرنا بھی نہیں جانتا ہے ۔

۲۔ جہاں تک  ممکن ہو، متن کو خُود اپنی تفسیر کرنے دیں

بائبلی بیانیہ صرف واقعات کا ریکارڈ نہیں بلکہ اُن میں شامل کرداروں کی گفتگو یا تقریر کو  بھی شامل کرتا ہے۔ بعض اَوقات کسی واقعے کے بیچ میں ایک فیصلہ کُن جملہ یا مکالمہ ہمیں اس واقعے کے حقیقی مفہوم اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کا کُلیدی اشارہ دیتا ہے کہ ایسے واقعات کیوں درج کئے گئے ہیں اور ان واقعات کا کیا مطلب ہے ۔ 

مثال کے طور پر، ۱ ۔سلاطین ۱۷  باب میں ہم ایلیاہؔ  نبی سے متعارف ہوتے ہیں، جو بادشاہ اخیابؔ  کو تین سالہ قحط کا پیغام سُناتا ہے۔ اُس کے بعد وہ ایک نالے کے  کنارے چھپ جاتا ہے جہاں کوے اُسے ایک غیر متعینہ وقت کے لیے  کھانا مہیا کرتے ہیں۔ پھر خُدا کے حُکم سے وہ وعدہ کی سر زمین  سے باہر ایک بیوہ عورت اور اُس کے بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیے چلا   جاتا ہے۔ اُس بیوہ کا  بیٹا مر جاتا ہے اور ایلیاہؔ   معجزانہ طور پر اُسے زِندہ کر دیتا ہے۔ اس واقعے کی گہرائی  اُس بیوہ کے اَلفاظ  اور جواب سے اُجاگر ہوتی ہے جو اس واقعہ کی کُلید ہے : ’’  تب اُس عَورت نے ایلیّاہؔ سے کہا اب مَیں جان گئی کہ تُو مَردِ خُدا ہے اور خُداوند کا جو کلام تیرے مُنہ میں ہے وہ حق ہے ‘‘(۱۔سلاطِین ۲۴:۱۷)۔

اسی تکنیک  کو اگلے باب میں بھی دہرایا گیا ہے، جب ایلیاہ ؔ   بعل کے نبیوں کو شکست دیتا ہے، تو لوگ پُکار اُٹھتے ہیں:’’  خُداوند وُہی خُدا ہے! خُداوند وُہی خُدا ہے!‘‘ (۱ ۔سلاطین۳۹:۱۸)۔ جھوٹے نبیوں اور جھوٹے معبودوں کے زمانے میں، کلام اور عمل دونوں کے ذریعے بائبل یہ گواہی دیتی ہے کہ صرف خُداوند ہی سچا خُدا ہے اور اُس کے نبی اُس کی سچائی کو بیان کرتے  ہیں۔

۳۔ غیر متوقع باتوں پر نگاہ رکھیں

قدیم بائبلی بیانیہ میں اکثر کوئی ایسی بات بیان کی جاتی ہے جو بظاہر معمول سے ہٹ کر ہوتی ہیں ، کوئی ایسا واقعہ جو ہمیں چونکا دے یا حیران کر دے۔ یہ باتیں محض اِتفاقیہ نہیں ہوتیں، بلکہ اکثر اَوقات وہ کسی بڑے اور اہم واقعے کی پیشگی جھلک ہوتی ہیں اور اُسے دُہرانے کی مشق سکھاتی ہیں ۔ یہ بیانیہ   تعلیم دینے کا ایک فنکارانہ انداز رکھتا ہے—یہ خُود کو دُہراتا ہے، گونج پیدا کرتا ہے، تاکہ قاری سیکھنے کے عمل میں شریک ہو جائے۔ لہٰذا، ہر سطر کو سنتے وقت اُس بازگشت کو پہچاننے کی کوشش کیجیئے۔

مثال کے طور پر، خُروج ۲  باب میں، موسیٰ ؔ کے پیدایش کے بیان کے فوراً بعد بتایا گیا ہے کہ اُس نے ایک مصری کو قتل کر دیا جو ایک عبرانی کو مار رہا تھا۔ اس پر اُس کے اپنے  لوگوں  نے اُس پر اعتراض کِیا اور موسیٰ کو بیابان میں پناہ لینی پڑی، جہاں اُس نے اگلے چالیس سال گزارے (آیات ۱۱–۱۵)۔ اس مختصر بیانیے کا  کیا مطلب  ہے؟ کیا یہ محض یہ پیغام دے رہا ہے کہ’’ یہ جان لو کہ تُمہارا گُناہ تُم کو پکڑے گا‘‘ (گنتی ۲۳:۳۲)؟ یا  یہ کہ اگر خُدا ایک موسیٰؔ  جیسے قاتل شخص   کو اِستعمال کر سکتا ہے، تو وہ ہمیں بھی اِستعمال کر  سکتا ہے؟ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ دُرست ہیں، لیکن یہ اس واقعے کا اصل مقصد نہیں۔

در حقیقت، موسیٰؔ  کی زِندگی کا یہ لمحہ ایک بڑی کہانی کا پیش خیمہ ہے۔ خُدا کے چُنے ہوئے وسیلہ کے طور پر، موسیٰؔ  جلد ہی بنی اِسرائیل کی نجات کا باعث بننے والا ہے، جس میں ہزاروں مصری مارے جائیں گے۔ اُس کے بعد وہ دوبارہ بیابان میں اپنے ہی عبرانی لوگوں کے ساتھ چالیس سال گزارے گا، جو اُس کے خلاف شکایتیں کرتے رہیں گے اور بڑبڑاتے رہیں گے ۔ پس، یہ چھوٹا سا واقعہ اُس عظیم داستان کی اِبتدائی جھلک ہے جس میں موسیٰؔ  ایک قوم کے نجات دہندہ کے طور پر اُبھرے  آ کر آئے گا۔

نتیجہ 

قدیم تاریخی بیانیہ — جیسا کہ پاک کلام میں پایا جاتا ہے — ایک حسین اور گہرائی سے بھر پور نفیس  اِدبی صنف ہے۔ یہ بیانیہ صرف تاریخی واقعات کا تسلسل نہیں بلکہ ایک رُوحانی سفر کی داستان ہے جو اِنسانیت کی گمراہی سے اُس کو  نجات دہندہ کی طرف لے جاتی ہے۔ ان بیانات کو پڑھتے وقت ہوشیاری اور توجہ کی ضرورت ہے؛ ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا کہ کیا کہا گیا ہے، بلکہ یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیا نہیں کہا گیا اور کیوں۔ ہر لفظ، ہر خاموشی، ہر منظر اور کردار ا پنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ان بیانات کو بکھرے ہوئے ٹکڑوں کی طرح نہ دیکھیں، بلکہ اُنھیں ایک وحدت کی صورت میں سمجھیں — ایک عظیم اور متصل کہانی کے اجزاء کے طور پر، جو یسوع مسیح کی ذات اور اُس کے نجات بخش کام میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچتی ہے (یوحنا۳۹:۵؛ ۴۵- ۴۷؛ لوقا۴۴:۲۴)۔ بائبل کا ہر بیانیہ  اِسی واحد عظیم بیانیے کا حصہ ہے، جو ہمیں خُدا کے جلال، اُس کی وفا داری اور اُس کے  نجات کے منصوبے کی طرف راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔  یہی سمجھ اور بصیرت بائبلی مُطالعہ کو محض علمی مشق کے بجائے رُوح کی سیرابی، دِل کی تبدیلی اور اِیمان کی تعمیر میں بدل دیتی ہے۔

یہ مضمون تفسیر کے مجموعہ کا حصہ ہے۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔