پولُس کے خطوط میں مسیح کے ساتھ اتحاد
25/04/2023انجیل کیا ہے ؟
25/05/2023جان کیلوؔن کلیسیا کی اصلاح کی ضرورت پر
450 سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جان کیلون کو ایک درخواست آئی کہ وہ کلیسیا میں اصلاح کی ضرورت کے موضوع پر کچھ لکھے۔ حالات اُن سے بالکل مختلف تھےجنہوں نے کیلون کو پہلے کچھ لکھنے کی تحریک دی تھی اور ہم نے اُس کی دفاعِ اصلاح کے دوسرے پہلوؤں کو دیکھا تھا۔ شہنشاہ چارلس پنجم 1544ء میں مقدس رومن سلطنت کی قانون ساز مجلس کو سپارہ کے شہر میں ملاقات کے لئے بلا رہا تھا۔سٹراؔس برگ کے عظیم اصلاح کار مارٹن بوُسر نے کیلون سے درخواست کی کہ وہ اصلاح کے عقائد اور ضرورت کا مسودہ تیار کرے۔ نتیجہ قابلِ ذکر تھا۔ کیلون کے دوست اور جنیو امیں جانشین تھیوڈورا بیزا نے ’’کلیسیا کی اصلاح کی ضرورت ‘‘کو اپنے وقت کا سب سے زیادہ طاقتور کام قرار دِیا۔
کیلون اِس کام کو تین بڑے حصوں میں منظم کرتا ہے۔ پہلا حصہ کلیسیا میں پائی جانے والی اُن برائیوں کے لئے مختص کیِا جاتا ہے جن کو اصلاح کی ضرورت تھی۔ دوسرا حصہ اُن برائیوں کو دوُر کرنے کے لئے تھا جو اصلاح کاروں نے اختیار کر لی تھیں۔ اور تیسرا حصہ اِس بات پہ تھا کہ اصلاح میں کیوں تاخیر نہیں کی جا سکتی بلکہ کیسے حالات فوری ترمیم کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اِن تینوں حصوں میں کیلون چار موضوعات پر اپنی توجہ مرکوُز کرتا ہے جن کو وہ کلیسیا کی جان اور بدن کہتا ہے۔عبادت اور نجات کلیسیا کی جان ہے اور پاک رسومات اور کلیسیائی تنظیم کلیسیا کا بدن ہے۔کیلون کے نزدیک اصلاح کا سب سے بڑا سبب انہی موضوعات میں مرکوُز تھا۔ برائیاں، علاج اور فوری عمل کی ضرورت اِن سب کا تعلق عبادت، نجات، پاک رسومات اور کلیسیائی تنظیم کے ساتھ تھا۔
کیلون کے نزدیک اصلاح کا سب سے بڑا سبب انہی موضوعات میں مرکوُز تھا۔ کیلون کے لئے اِن موضوعات کی اہمیت اِس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ہمیں یاد آتا ہے کہ کیلون اِن چار علاقوں میں ہونے والے حملوں کا جواب نہیں دے رہا تھا بلکہ اصلاح کے سب سے اہم پہلوؤں کے طور پر خوُد اِن کا انتخاب کرتا ہے۔ پہلی بات جس کے لئے کیلون فکر مند تھا وہ دُرُست عبادت تھی۔
عبادت
کیلون عبادت کی اہمیت پر زور دیتا ہے کیونکہ انسان بہت آسانی سے خُدا کی حکمت کے بجائے اپنی حکمت کے مطابق خُدا کی عبادت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ زور دیتا ہے کہ عبادت صرف خُدا کے کلام کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہئے۔
’’میَں جانتا ہوُں کہ دنیا کو یہ باور کرانا کتنا مشکل ہےکہ خُدا عبادت کے کسی بھی طریقہ کو پسند نہیں کرتا جو اُس کے کلام میں واضح طور پر درج نہیں ہے۔اِس کے برعکس قائلیت جس سے وہ چمٹے ہیں ، اور جو اُن کی رگ رگ میں ہے وہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خُدا کا منظور ہے بشرطیکہ اُس میں خُدا کی عزت کے لئے کسی بھی قسم کا جوش ہو۔ لیکن چونکہ خُدا نہ صرف اِس کو بے معنی سمجھتا ہے بلکہ صریحاً مکروہ سمجھتا ہے۔اِس لئے ہم جو کچھ بھی اُس کی عبادت میں جوش و جذبے سے کرتے ہیں اگر اُس کے حکم کے خلاف ہو تو اِس سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ خُدا کا کلام واضح ہے اور اِس میں کسی بھی طرح کا ابہام نہیں کہ حکم ماننا قربانی چڑھانے سے بہتر ہے‘‘
یہ قائلیت بھی ایک وجہ تھی کہ اصلاح ضروری ہو گئی تھی:
جیسا کہ خُدا بہت سارے حوالہ جات میں کسی بھی قسم کی نئی عبادت جس کی کلام تصدیق نہیں کرتا منع کرتا ہے۔پس وہ بیان کرتا ہے کہ اُس کو اُن تمام مفروضوں سے نفرت ہے جو ایسی عبادت کو ایجاد کرتے ہیں۔ اور اِس کے لئے سخت قسم کی سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اصلاح جو ہم نے متعارف کروائی نہایت ضروری تھی۔
خُدا کے کلام کے معیار سے کیلون نے رومن کیتھولک کلیسیا کے بارے میں یہ نتیجہ اَخذ کیِا اور کہا کہ موجودہ دوَر میں عبادت کی ساری شکل محض بد عُنوانی کے سوا کچھ نہیں۔
کیلون کے نزدیک قرونِ وسطیٰ کی کلیسیا کی عبادت انتہائی بُت پرستی بن چُکی تھی۔ اُس کے نزدیک بُت پرستی کا معاملہ اِس قدر سنجیدہ تھا جتنا کہ تصدیق میں راستبازی کا معاملہ۔دونوں نے ہی الہام کی بجائےانسانی حکمت کی نمائندگی کی۔دونوں نے خُدا کو خوُش کرنے اور اُس کی فرمانبرداری کی خواہش کرنے کی بجائے انسانوں کی طرف اشارہ کیِا۔ کیلون کا اِصرار تھا کہ بُت پرستوں کے ساتھ عبادت میں کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا۔
لیکن یہ کہا جائے گا کہ اگرچہ نبیوں اور رسوُلوں نے نظریات پہ بدکارکاہنوں سے اِتفاق نہ کیِا تو بھی وہ قُربانیوں اور دُعاؤں میں اُن کے ساتھ میل جول پیدا کرتے رہے۔ میَں تسلیم کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ایسا کیِا لیکن وہ بُت پرستی پر مجبوُر نہ کیے گئے۔ لیکن ہم کن نبیوں کی بابت پڑھتے ہیں کہ اُنہوں نے بیت ایل میں قُربانی کی؟
پُرانے عہدکے انبیاء کی طرح مصلحین کو اِس بات کی ضروُرت تھی کہ وہ اپنے وقت میں ظاہر ی نمائش اور بُت پرستی پر حملہ آور ہوں۔ کیلون کے زمانے میں کلیسیا کی ڈرامائی پیشکش کا تریاق یہ تھا کہ سادگی کے ساتھ خُدا کی عبادت کی جائے۔ جیسا کہ جنیوا کی کلیسیا کی عبادت کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے۔
ایسی سادگی نے عبادت گذاروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ عبادت میں اپنے جسم کی طرح دماغ بھی پیش کریں۔ سچے عبادت گذاروں پر دِل اور دماغ دینا فرض ہے کیونکہ انسان ہمیشہ ہی خُدا کی خدمت کے مختلف طریقے اِیجاد کرنے کا خواہش مند رہتا ہے۔ اِن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ جسمانی پابندیوں کو سر انجام دیں اور ذہن کو اپنے پاس رکھیں۔
راستبازی
اِس کے بعد کیلون راستبازی کے موضوع کی طرف آتا ہے۔ یہاں وہ اِس بات کی اِجازت دیتاہے کہ اختلافات کافی تیکھے رہے ہیں:
کوئی بھی نقطہ ایسا نہیں ہے کہ جس کا بہت سختی کے ساتھ مقابلہ کیِا جائے۔ کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں ہمارے مخالفین بہت زیادہ سخت ہوں سوائے راستبازی کے مسئلے کے۔ کہ کیا یہ ایمان سے حاصل ہوتی ہے یا اعمال سے۔
کلیسیا کی حفاظت کا انحصار اِسی نظریے پر ہے۔ اور اِس نظریے پر غلطی کی وجہ سے کلیسیا کو ایک مہلک زخم لگا ہے اور کلیسیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
کیلون اِصرار کرتا ہے کہ راستبازی صرف اِیمان سے ہے۔
ہم اِس بات کو مانتے ہیں کہ کسی بھی آدمی کے کام کسی بھی طرح کے ہوں وہ خُدا کے نزدیک صرف اُس کے مفت رحم کی بدولت راستباز سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ خُدا کسی بھی کام کا لحاظ کیے بغیر اپنی مرضی سے مسیح کی راستبازی اُس کے کھاتے میں ڈال کر کہ گویا یہ اُس کی راستبازی ہے مسیح میں اُسے اپنا بنا لیتا ہے۔اِس نظریے کا مسیحیوں کی زندگی اور تجربات پر گہرااثر ہوتا ہے:
انسان کو اُس کی بے بسی اور خستہ حالی کا قائل کر کے ہم زیادہ موثر طور پر حقیقی عاجزی کے لئے اُس کو تربیت دیتے ہیں۔
جس سے ہم اُس کی رہنمائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی خوُد اعتمادی کو ترک کر کے اپنے آپ کو مکمل طور پر خُدا کے سپرد کر ے اور اِسی طرح ہم اُس کی رہنمائی کرتے ہوئے زیادہ موثر طریقہ سےشکر گزاری کے لئے اُس کی تربیت کرتے ہیں جیسا کہ حقیقت میں اُسے کرنا چاہیے کہ ہر اچھی چیز جو اُس کے پاس ہے وہ خُدا کی مہربانی اور رحم کی بدولت ہے۔
پاک رسومات
کیلون کا تیسرا موضوع پاک رسومات ہیں جن کا وہ تفصیل سے جائزہ لیتا ہے۔ وہ شکوہ کرتا ہے کہ انسانوں کی وضع کردہ تقریبات کومسیح کے قائم کردہ بھیدوں کے برابر درجہ دے دِیا گیا ہے۔اور خاص طور پر عشاء ربانی کو ایک بناوٹی نمائش میں تبدیل کر دِیا گیا ہے۔ خُدا کی مقرر کی گئی پاک رسومات کے ساتھ یوں مذموم برتاؤ ناقابلِ برداشت ہے۔
سب سے پہلے جس چیز کی ہم یہاں شکایت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگوں کو دکھاوے کی تقریبات سے محظوظ کیِا جاتا ہے۔ جبکہ اِن کی اہمیت اور سچائی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا۔ کیونکہ پاک رسومات کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ وہ اصل چیز جس کی نمائندگی کی جارہی ہے خُدا کے کلام کے مطابق بیان نہ کی جائے۔
کیلون افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پاک رسومات کی ادائیگی کی سادگی جو ابتدائی کلیسیا میں رائج تھی ختم ہو گئی ہے۔ اور یہ بات سب سے زیادہ واضح طور پر عشاء ربانی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یوخرست کی قربانی، اجزاء کی تبدیلی اور پاک روٹی اور شیرہ کی پوُجا غیر بائبلی ہیں اور اِس پاک رسم کے اصل معنی کو ختم کر دیتی ہیں۔
جبکہ اِن پاک رسومات کو ہمارے ذہنوں کو آسمان کی طرف لگانے کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے۔ پاک عشاء کی علامتوں کو بالکل مختلف مقصد کے لئے استعمال کیِا گیا اور انسان اپنی توجہ اِن پر لگا کر ، اِن کی عبادت کر کے مسیح کے بارے کبھی سوچتے بھی نہیں۔
مسیح کا کام بالکل ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ یوخرست کی قربانی کے خیال میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں مسیح کو ہزار بار قربان کیِا جاتا ہے گویا اُس کا ایک بار مرنا ہمارے لئے کافی نہیں ہے۔
کیلون نے سادگی سے عشاء ربانی کے حقیقی معنی کا خلاصہ یوں بیان کیِاہے:
ہم سب کو ایمان کے ساتھ آنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ۔۔ہم۔۔۔ منادی کرتے ہیں کہ مسیح کا بدن اور خوُن جو خُدا وند کی طرف سے ہمارے لئے پیش کیے جاتے اور ہماری طرف سے موصول کیے جاتے ہیں۔ نہ ہی ہم اس طرح یہ سکھاتے ہیں کہ روٹی اور شیرہ محض علامتیں ہیں، فوری طور پر یہ شامل کیے بغیر کہ ایک سچائی ہے جو ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
مسیح صحیح معنوں میں اپنا آپ اور اپنے تمام نجات بخش فوائد اُن لوگوں کو دیتا ہے جو ایمان کے ساتھ پاک عشاءمیں شریک ہوتے ہیں۔
پاک رسومات کے بارے میں کیلون کا یہ مختصر جائزہ ہمیں اِس اہم موضوع کے بارے میں اُس کے رویے کا صرف ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ وہ بپتسمہ پر اپنی توجہ مرکوُز کرتا اور ساتھ ساتھ رومن کیتھولک کے مزید پانچ پاک رسومات کے موقف کی تردید کرتا ہے ۔
کلیسیائی نظم و ضبط
آخر میں کیلون کلیسیا کے نظم و ضبط کے موضوع کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ایک بہت بڑا موضوع ہے: مجھے کلیسائی حکومت کی خامیوں کے بارے میں کبھی بھی تفصیل میں نہیں جانا چاہیے تھا۔۔وہ پاسبان کے عہدے پر اپنی توجہ مرکوُز کرتا ہے۔ کلام کی تدریس کا اِستحقاق اور ذِمہ داری اِسی عُہدے کی ہے۔وہ شخص حقیقی پاسبان نہیں ہو سکتا جو تدریِس کے کام کو سر انجام نہیں دیتا۔ اصلاح کے عظیم کارناموں میں سے ایک خُدا کے لوگوں کی زندگی میں منادی کے کام کو اِس کے صحیح مقام پر بحال کرنا ہے۔ہماری کلیسیاؤں میں سے کوئی بھی کلام کی درست منادی کےبغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ پاسبانی عُہدے کو ضرور ہے کہ وہ پاکیزگی کو تدریس کے ساتھ جوڑے۔وہ جو کلیسیا میں عبادت میں رہنمائی کرتے ہیں ضرور ہے کہ وہ پاک زندگی میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں اور اُن کی مقدس زندگی پاکیزگی کی مثال سے روشن ہو۔
درُست عبادت کیَلون کی پہلی ترجیح تھی
کیَلون یہ بھی شکایت کرتا ہے کہ پاکیزگی کی تعلیم اور پیروی کرنے کی بجائے رومن کلیسیا کی قیادت اُس طاقت اور اختیار کا دعویٰ کرتے ہوئے جو خُدا نے اُن کو نہیں دِیا خُدا کے لوگوں کی روحوں پر انتہائی ظالمانہ تشدد کا مظاہرہ کرتی ہے۔اصلاح نے خُدا کے لوگوں کو غیر بائبلی روایات کے بندھنوں سے انتہائی شاندار آزادی دِلائی جنہوں نے کلیسیا کو جکڑ رکھا تھا۔
جیسا کہ ہمارا فرض تھا کہ ہم ایمانداروں کے ضمیروں کو اُس بے جا غلامی سے نجات دِلائیں جس میں وہ قید تھے۔ اِسی لئے ہم نے سکھایا ہے کہ وہ آزاد اور انسانی قوانین سے بے نیاز رہیں۔ اور یہ کہ مسیح کے خوُن سے خریدی گئی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
رومن کلیسیا نے بالخصوص پاسبانوں کی تعیناتی کے لئے اپنی ہی طرف سے رسوُلی جانشینی اختیار کی۔ کیلون کا اِصرار تھا کہ پاسبانوں کی تعیناتی کے لئے اصلاحی ترتیب مسیح، رسولوں اور قدیم کلیسیا کی حقیقی تعلیم اور عمل کی پیروی کرتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اِس لئے کوئی بھی شخص پاسبانوں کی تعیناتی کے مخصوص حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو پاکیزگی کی تعلیم کے ذریعہ سے کلیسیا کے اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
اصلاح
کیلون نے مقالے کا اختتام اصلاح کے کام کی ایک عکاسی کے ساتھ کیِا۔ وہ آغاز کو لوُتھر کے ساتھ منسوُب کرتا ہے جس نے نرم رویے کے ساتھ اصلاح کا مطالبہ کیِا۔ رومن کی طرف سے جو ردِ عمل آیا وہ تشدد اور ظلم سے سچائی کو دبانے کی کوشش تھی۔ اِس جنگ سے کیلون کے پریشان نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انجیل کے پھیلاؤ کے لئے حالات اِس کے آغاز سے لے کرہمیشہ ایسے ہی تھے، ہیں، اور رہیں گے۔ یہاں تک کہ آخر تک دُنیا میں بڑے تنازعات میں ہی منادی کا کام کیِا جائےگا۔
کیلون کلیسیا کی زندگی میں اِس مصیبت کا جواز پیش کرتا ہےکہ تنازعات میں مسائل کی ایک اہمیت ہے۔ وہ اِس حقیقت کو اِس حد تک کم کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ مسیحی مذہب کا پوُرا مادہ ہی داؤ پہ لگ جائے۔ چونکہ اصلاح کاروں نے بائبل کی فرمانبرداری میں کام کیِااِس لئے وہ کسی بھی تجویز کو مسترد کرتا ہےکہ وہ کلیسیا کے منحرف رُکن ہیں۔
سب سے پہلے جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کلیسیا کو اِس کے سر یعنی مسیح سے الگ کرنے کے خطرے سے ہوشیار رہنا ۔ جب میَں مسیح کہتا ہوں تو میَں ساتھ اُس کی اِنجیل کی تعلیم کو بھی شامل کرتا ہوں جس پر اُس نے اپنے خوُن سے مہر لگا دی تھی۔ لہٰذہ یہ ایک طے شُدہ نقطہ ہو جانا چاہیے کہ ہمارے درمیان ایک مقدس اِتحاد موجود ہے، خالص تعلیم پر اِتفاق کرتے ہوئے ہم صرف مسیح میں متحد ہیں۔
نام کی کلیسیا اِتحاد فراہم نہیں کرتی بلکہ یہ حقیقی کلیسیا کی حقیقت ہے جو خُدا کے کلام میں قائم ہے۔
اِس کے بعد کیلون اِس عملی سوال کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ کون کلیسیا میں اِصلاح کے مقصد کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ وہ اِس خیال کو رّد کرتا ہے کہ پوپ کلیسیا یا اصلاح کی مضبوط ترین زبان میں رہنمائی کر سکتا ہے۔
’’میَں اِس بات سے اِنکا ر کرتا ہوں کہ پوپ کی طرف دیکھیں، جس میں ایک چونکا دینے والے اِرتداد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ میَں اُس کے مسیح کا خادم ہونے سے اِنکار کرتا ہوں جو خوشخبری کو سختی سے ستاتے ہوئے اپنے طرزِ عمل سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مخالفِ مسیح ہے۔ میَں اُس کے پطرس کا جانشین ہونے سے اِنکار کرتا ہوں جو ہر اِس عمارت کو گِرانے کی پُوری کوشش کر رہا ہے جِسے پطرس نے بنایا تھااور میَں اُس کے کلیسیا کے سربراہ ہونے سے انکار کرتا ہوں جس نے اپنے ظُلم سے کلیسیا کو اِس کے حقیقی اور واحد سر مسیح سے الگ کرنے کے بعد اِس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دِیا‘‘
وہ جانتا ہے کہ بہت سے لوگ کلیسیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک عالمگیر مجلس کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ڈرتے ہیں کہ ایسی مجلس کبھی نہیں بیٹھ سکتی۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اِس کا کنٹرول پوپ کے پاس ہو گا۔ وہ تجویز دیتاہے کہ کلیسیا کو قدیم کلیسیا کے طرزِ عمل پر چلنا چاہیےاور معاملات مختلف مقامی یا صوبائی مجالس میں طے کرنے چاہئیں۔کسی بھی صورت میں وجہ خُدا پر چھوڑی جانی چاہیے اور وہ ایسی برکت عطا کرے گا جو وہ تمام اصلاحی کوششوں کے لیے موزوں سمجھتا ہے۔ بے شک ہم خواہش مند ہیں، جیسا کہ ہمیں ہونا چاہیے کہ ہماری خدمت دُنیا کے لئے قابلِ فخر ثابت ہو۔ لیکن یہ تاثیر خُدا کی ہے ہماری نہیں۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔