مسیح میں
03/11/2023شراکت کے نشان اور مہریں
10/11/2023خُدائے ثالوث کے ساتھ اتحاد
کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ مو ت کے چند گھنٹوں کے اندر کیا ہوگا – ایک بوڑھے شخص کے طور پر نہیں بلکہ کسی ایسے شخص کے طور پر جو اگرچہ ہر ایک جرم کے لحاظ سے بے قصور ہو لیکن پھر بھی اُسے موت کی سزا دے دی جائے؟ایسے میں آپ اُن سے کیا کہنا چاہیں گے جو آپ کو جانتے ہیں اور آپ کیساتھ سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟آپ یقیناً اُنہیں بتائیں گے کہ آپ اُنہیں کس قدر پیا ر کرتے تھے۔ آپ چاہیں گے کہ آپ جس ہولناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اُس کے برعکس اُنہیں کچھ تسلی اور اطمینان دے سکیں۔ آپ چاہیں گے کہ آپ اپنادِل کھول کر اُن سے وہ باتیں کہیں جو آپ کے نزدیک اہم ترین ہیں۔
اِس طرح کی شائستگی یقینی طور پر قابلِ تعریف ہوگی۔ یقیناً یہ انسانی فطرت کی بہترین صورت ہوگی – کیونکہ یہی کچھ یسوع نے کیا تھا جیسا کہ یوحنا رسول بالا خانہ کے وعظ/ گفتگو میں بیان کرتا ہے۔(یوحنا 13-17)
اپنی مصلوبیت سے پہلے چوبیس گھنٹوں کے دوران خُداوند یسوع نے اپنی محبت کا انتہائی شاندار انداز میں اظہار کیا تھا۔ وہ دستر خوان سے اُٹھا، نوکر کا رومال لیکر اپنی کمر کے گرد باندھا اور اپنے شاگردوں (بشمول ظاہراً یہوداہ اسکریوتی ؛ یوحنا 13باب3-5، 21-30آیات) کے گندے پاؤں دھوئے۔ جیسے کہ یوحنا بیان کرتا ہے یہ ایک عملی تمثیل تھی: "اُن لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جَیسی مُحبّت رکھتا تھا آخِر تک مُحبّت رکھتا رہا” (1 آیت)۔
اُس نے اُن کے ساتھ گہری تسلی کی باتیں بھی کیں: "تُمہارا دِل نہ گھبرائے”(14باب1آیت)۔
یسوع نے اِس سے بڑھکر بھی بہت کچھ کیا۔ اُس نے اپنے شاگردوں پر "خُدا کی تہہ کی باتیں” (1کرنتھیوں 2باب10آیت)بھی ظاہر کرنا شروع کر دیں۔ جب اُس نے پطرس کے پاؤں دھوئے تو اُس نے اُسے کہا کہ جو کچھ وہ کرتا ہے پطرس اُسے "بعد میں” سمجھے گا (یوحنا 13باب7آیت)۔ جو کچھ اُس نے کہا تھا اُس کے حوالے سے بھی بالکل یہی بات سچ تھی، کیونکہ اُس نے اپنے شاگردوں پر خُدا کی اندرونی فطرت کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس – پاک تثلیث ہے۔
منکشف راز کا جلال
بہت سارے مسیحی تثلیث کو ایک ناقابلِ عمل، قیاس آرائی پر مبنی عقیدے کے طور پر لینے کا رجحان رکھتے ہیں۔ لیکن خُداوند یسوع ایسا نہیں کرتا۔ اُس کے لیے نہ تو یہ محض قیاس آرائی پر مبنی ہے اور نہ ہی ناقابلِ عمل –بلکہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ انجیل کی بنیاد ہے۔ خُداباپ کی محبت، بیٹے کے دُنیا میں آنے اور رُوح القدس کے وسیلے نئی پیدایش کے بغیرنجات نہیں ہو سکتی تھی۔ (یونیٹیرین مثال کے طور پر خُدا کی طرف سے خُدا کے لیے ہی پیش کردہ مخلصی حاصل نہیں کر سکتے )۔
خُدا باپ کی محبت، بیٹے کے دُنیا میں آنے اور رُوح القدس کی قدرت سے نئی پیدایش کے بغیر کسی طرح کی نجات ممکن نہیں ہے۔
اپنے الوداعی وعظ کے دوران یسوع نے فلپس کے لیے اِس بات کو واضح کیا کہ اُسے دیکھ لینا دراصل باپ کو دیکھ لینا ہے(یوحنا 13باب8-11آیات)۔ لیکن وہ خود باپ نہیں ہے؛ ورنہ وہ باپ کے پاس جانے کا واحد راستہ نہ ہوتا (یوحنا 14باب6 آیت)۔ وہ باپ "میں” اور باپ اُس "میں” بھی ہے۔ اُن کا یوں باہمی طور پر ایک دوسرے میں ہونا جیسا کہ کچھ عالمینِ الہیات کہتے ہیں ناقابلِ بیان –اور ہمارے ادراک کی استطاعت سے باہر ہے۔
مزید برآں رُوح القدس باپ اور بیٹے کے اِس بندھن کے مرکز میں ہے۔ لیکن اب باپ نے اپنے بیٹے کو (جو کہ باپ "میں” ہے) بھیجا ہے۔ ایمانداروں کے لیے با پ اور بیٹے کی محبت ایسی ہے کہ وہ ایمانداروں کے ساتھ سکونت کریں گے۔
وہ کس طرح؟ باپ اور بیٹا ایماندار کے اندر رُوح القدس کے بسنے کے وسیلے سے اُس کے ساتھ سکونت کرتے ہیں(14باب23آیت)۔ وہ مسیح کا جلال ظاہر کرتا ہے (16باب14آیت)، جو کچھ مسیح کو خُدا باپ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اُسے لیتا ہے اور ہم پر ظاہر کرتا ہے۔ بعد میں جب ہم اپنے خُداوند کی دُعا کو سننے کا استحقاق پاتے ہیں یسوع اِسی طرح سے خُدا کے ساتھ رفاقت کی قربت کے بارے میں بات کرتا ہے جس نے ایسے حیرت انگیز طریقے سے اُسے قائم رکھا: "اَے باپ! تُو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں” (یوحنا 17باب21آیت)۔
یہ حقیقت میں گہرا علمِ الٰہی ہے۔ پھر بھی خُدا کے بارے میں عملی طور پر جو گہرا ترین بیان ہم دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ باپ بیٹے "میں” ہے اور بیٹا باپ "میں ” ہے۔ یہ اِس قدر سادہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک بچّہ بھی اِسے دیکھ سکتا ہے کیوں کہ "میں ” سے زیادہ سادہ کونسا لفظ ہو سکتا ہے؟پھر بھی یہ اِس قدر عمیق ہے کہ بہترین اذہان بھی اِس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ جب ہم باپ کی ذات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بیٹے کے بارے میں سوچے بغیر ایسا نہیں کر سکتے(کیونکہ وہ ایک بیٹے کے بغیر ایک باپ نہیں ہو سکتا)۔ نہ ہی ہم باپ کے بغیر بیٹے کی ذات پر غور کر سکتے ہیں(کیونکہ وہ بغیر باپ کے بیٹا نہیں ہو سکتا)۔ یہ ادراک صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب رُوح القدس قلب و دماغ کو روشن کرتا ہے کہ بیٹا حقیقت میں کون ہے جس کے واحد وسیلے سے ہم باپ کے پاس آ سکتے ہیں ۔
پس ہمارے ذہن بیک وقت تین اقنوم میں اِس اتحاد کی بدولت خوشی سے پھول جاتے ہیں، اور پھر تینوں اقنوم میں اتحاد کے تصور کی بدولت اپنی اصل صلاحیت سے بڑھ کر کھینچے گئے ہیں۔ قریباً اتنی ہی حیرت انگیز یہ حقیقت ہے جویسوع ظاہر کرتا ہے اور اِس سب کےانتہائی زندگی بخش، سکون بخش ، دِل کو تسلی دینے والی اور حتیٰ کہ شادمانی بخشنے والی انجیلی سچائی کے طورپر تعلیم دیتا ہے (یوحنا 15باب11آیت)۔
تثلیث اپنی اہمیت کے لحاظ سے بہت وسیع ہے کیونکہ یہ اُن آدمیوں کو تسلی فراہم کر سکتی ہے جو غم کے ماحول کی وجہ سے اُس حد تک پہنچ چکے ہوتے ہیں جہاں غم اُنہیں اپنی لپیٹ میں لینے کو ہوتا ہے۔ ثالوث خُدا اپنے جلال میں عظیم، اپنے بھید میں گہرااور اپنی ہم آہنگی میں تخلیق کی تمام حقیقتوں سے بڑھکر خوبصورت ہے۔ کوئی سانحہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اُسے مغلوب کر سکے جس کی ذات ہمارے لیے ناقابلِ ادراک ہے۔کوئی بھی تاریکی خُدا کے وجود کی گہرائیوں سے گہری نہیں ہے۔
یہ بات غالباً قابلِ فہم ہے ، تب ہی جوناتھن ایڈورڈ اِسے اپنےذاتی بیان میں لکھ پایا:تثلیث کے سبب خُدا مجھ پر پُرجلال طریقے سے ظاہر ہوا ہے۔
اِس بات نے مجھے اعلیٰ خیالات کا حامل بنا دیا ہے کہ وہ تین اقنوم ؛ باپ، بیٹا اور رُوح القدس میں قائم ہے۔ وہ سب سے پیاری خوشیاں اور مسرتیں جن کا مَیں نے تجربہ کیا ہے میری اپنی ملکیت/مرتبے کی اُمید کی وجہ سے نہیں ہیں ، بلکہ انجیل کی جلالی چیزوں کو مدِ نظر رکھنے کی بدولت ہیں۔ جب مَیں اِس خوشی سےلطف اندوز ہوتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مجھے میری اپنی ذات کی ملکیت/مرتبے کے تصورات سے اوپر لے جاتی ہے۔ اُس وقت اپنی ذات سے باہر اُس جلالی ، خوشگوار ذات سے اپنی آنکھ ہٹانا اور اُسے اپنی ذات اور اپنی اچھی ملکیت/مرتبے پر لگانا مجھے ایک ایسا نقصان محسوس ہوتا ہے جسے مَیں برداشت نہیں کر سکتا ۔
لیکن تثلیث کے مکاشفے کا حقیقت میں ہماری اچھی ملکیت/مرتبے/حالت کیساتھ تعلق ہے۔
اِس اتحاد کا تجسس/تحیر منکشف ہوتا ہے
یسوع مسیح کی تعلیم کا مقصد محض ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑنا یا ہمارے تخیلات میں شورش برپا کرنا نہیں ہے۔ اِس کا مقصد ہمیں اپنے ساتھ گہرے اتحاد کے استحقاق کا احساس دلانا ہے۔
اپنی خدمت کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد ہی یسوع نے اپنے شاگردوں سے اپنے ساتھ شریک ہونے کے متعلق بات کی تھی(یوحنا 13باب8آیت)۔ اُس نے اِس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ رُوح القدس مسیحیوں پر اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ "مسیح میں” ہیں اور مسیح اُن میں ہے(یوحنا 14باب20آیت)۔ یہ اتنا حقیقی اور حیرت انگیز اتحاد ہے کہ اِس کی واحد حقیقی تشبیہ –اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس کی بنیاد بھی –رُوح القدس کے ذریعے خُدا باپ اور خُدا بیٹے کا اتحاد ہے۔ شاگرد بیٹے کے ساتھ اتحاد سے لطف اندوز ہونگے اور رُوح القدس کے وسیلے باپ سے بھی رفاقت رکھیں گے۔یسوع نے کہا ہے کہ "تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔”(17 آیت) ۔رمزی انداز میں بیان کردہ الفاظ پرانے عہد ("تمہارے ساتھ”) اور نئے عہد کے ایمانداروں (’’تمہارے اندر‘‘) کے تعلق میں فرق کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ اِنہیں اکثر اُس طرح سے سمجھا جاتا ہے، لیکن در حقیقت یسوع کہہ رہا ہے کہ "تم رُوح کو جانتے ہو کیونکہ وہ مجھ میں تمہارے ساتھ ہے، لیکن وہ تم میں (پِنتیکُست کے موقع پر) اُسی ذات کے طور پر آئے گا جو میرا مستقل ساتھی رہا ہے (اور اُس صورت میں تمہارا ہوگا)۔ اِس طرح وہ(رُوح القدس) اُس کے علاوہ کوئی اور نہیں جو باپ اور بیٹے کے درمیان ازل سے رفاقت کا بندھن ہے۔
پس مسیح کے ساتھ متحد ہونا دراصل ایک ایسے اتحاد میں حصہ دار ہونا ہے جو خُدا کے مجسم بیٹے، جو بذاتِ خود باپ میں ہے اور باپ اُس میں ہے، کی رُوح کے ایماندار میں بسنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مسیح کے ساتھ اتحاد کا مطلب پاک تثلیث کے تینوں اقنوم کے ساتھ رفاقت سے کم کچھ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایمانداروں میں الٰہی فطرت انڈیلی گئی ہے۔ مسیح کے ساتھ ہمارا اتحاد رُوحانی اور شخصی ہے – جو خُدا باپ کے بیٹے کی رُوح کے ہمارے اندر بسنے کا نتیجہ ہے۔
پھر اُس شاندار تصویر پر غور کریں جو یسوع اِس اتحاد کی خوبصورتی اور قربت کو ظاہر کرنے کے لیے بناتا ہے:یہ باپ اور بیٹے کی طرف سے ایماندار کے دِل کے اندر سکونت اختیار کرنے سے کسی طور پر کم نہیں ہے (23 آیت)۔
اہم بات یہ ہے کہ اِس کے لیے یسوع یہ نہیں چاہتا کہ ایماندار درجن بھر مختلف کام کرے، بلکہ ایمان اور محبت رکھے۔کیونکہ یہ مسیح کے ساتھ اتحاد کے وسیلے ثالوث خُدا کے ساتھ اتحاد کی اُس حقیقت اور وسعت کا احساس ہے ("اُس روز تم جانو گے”)، جو سوچ، احساس ، مرضی ، محبت اور نتیجتاً ایماندار کے اعمال کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ اِس اتحاد کے اندر باپ انگور کی تاک کی شاخوں کو چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائیں (15باب2 آیت)۔ اِسی اتحاد کے اندر بیٹا اُن سب کی حفاظت کرتا ہے جو باپ نے اُسے بخشے ہیں ۔ (17باب 12آیت)۔
کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جان ڈون نے اِس طرح سے دُعا کی:
خدائے ثالوث میرے دل کو جھنجوڑ اور اِس پر دستک دے۔اِسے متنفس ، منعکس اور مرمت کر تاکہ مَیں اُٹھ کر کھڑا ہو جاؤں۔ مجھےمغلوب کر اور اپنی قوت سے اِسے توڑ، مروڑ اور نیا بنا ۔ مَیں کسی غاصب شہر کی طرح تجھے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ تُو نائب و السلطنت کی طرح ہے اور مَیں اپنا دفاع کرتا ہوں۔ تاہم مَیں اسیر ، کمزور اور جھوٹا ثابت ہوتا ہوں۔لیکن پھر بھی میں تُم سے بے حد محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ لیکن مَیں تیرے دشمن سے منسوب و وابستہ ہوں۔ مجھے اِس سے طلاق دلوا اور اِس بندھن کو توڑ دے۔مجھے اپنے قریب کر اور اِس قید سے چھُڑا کیونکہ جب تک تُم مجھے اپنا اسیر نہیں بنا لتے مَیں کبھی آزاد اور پاکیزہ نہیں ہو سکتا(Holy Sonnets XIV)۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔