ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: محدود یا مخصوص کفارہ
07/09/2023
ٹیولپ اوراصلاحی  علم ِ الٰہی: ناقابل ِ مزاہمت فضل
14/09/2023
ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: محدود یا مخصوص کفارہ
07/09/2023
ٹیولپ اوراصلاحی  علم ِ الٰہی: ناقابل ِ مزاہمت فضل
14/09/2023

ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: ایمانداروں کی استقامت

فلپیوں کی کلیسیا کو لکھتے ہوئے  پولُس کہتا ہے ، ’’ اور مُجھے اِس بات کا بھروسا ہے کہ جِس نے تُم میں نیک کام شرُوع کِیا ہے وہ اُسے یِسُوع مسیح کے دِن تک پُورا کر دے گا۔‘‘یہاں پر خُدا کا وعدہ ہے کہ اُس نے ہماری روح میں جو کام شروع کیا ہے وہ اُسے پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس لئے ایمانداروں کی استقامت کے بارے میں قدیم اصلاحی علم ِ الٰہی کا مسلمہ اصول اور محور یہ ہے:’’ اگر آپ حقیقی ایمان رکھتے اور نجات بخش فضل کی حالت میں ہیں تو آپ اسے کبھی بھی کھو نہیں سکتے۔ اگر آپ اسے کھو دیتے ہیں  تو اس سے مُراد ہے آپ اسے کبھی رکھتے ہی نہ تھے۔ ‘‘

ہمیں معلوم ہے کہ بہت سارے لوگ ایمان کا ااقرار کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے اقرارلایمان سے منحرف ہو جاتے یا ترک کر دیتے ہیں۔ یوحنا رسول لکھتا ہے کہ ایسے لوگ بھی تھےجنہوں نے شاگردوں  کی صحبت کو چھوڑ دیا اور وہ اُنکے بارے میں یوں بیان کرتا ہے ہے:’’ وہ نِکلے تو ہم ہی میں سے مگر ہم میں سے تھے نہیں۔ اِس لِئے کہ اگر ہم میں سے ہوتے تو ہمارے ساتھ رہتے لیکن نِکل اِس لِئے گئے کہ یہ ظاہِر ہو کہ وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں‘‘  (1۔یوحنا2باب 19 آیت)۔  چھوڑنے سے پہلے بے شک وہ ظاہری طور پر شاگردوں کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ظاہری ایمان کا اقرار بھی کیا تھا  اور مسیح یسوع اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ  ایمان کا اقرار کرنا ایک  شخص کے لئے تب بھی ممکن ہے جب وہ  ایمان رکھتا ہی نہیں ۔مسیح یسوع کہتا ہے:’’یہ اُمّت زُبان سے تو میری عزت کرتی ہےمگر اِن کا دِل مُجھ سے دُور ہے‘‘(متی 15باب8آیت)۔ مسیح حتیٰ کہ پہاڑی وعظ کے اختتام پر بھی خبردار کرتا ہے کہ آخیر زمانہ میں بہت سارے لوگ اُس کے پاس آئیں گے اور کہیں گے ہم تیرے نام میں یہ کیا وہ کیا لیکن مسیح اُن سے کہے گا:’’اُس وقت مَیں اُن سے صاف کہہ دُوں گا کہ میری کبھی تُم سے واقفیت نہ تھی۔ اَے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘(متی7باب23آیت) ۔ وہ  یہ نہیں کہے گا کہ مَیں تمہیں کچھ مدت کے لئے تو جانتا تھا لیکن تم روکھے ہو گئے اور    مجھ سے دغا کر گئے۔ نہیں  بلکہ تم میری دیدنی کلیسیا کا حصہ ہی نہ تھے۔‘‘ خُدا کی برگزیدگی کا سارا مقصد اُسکے لوگوں کو با حفاظت آسمان میں داخل کرنا ہے ۔ اس لئے جو کام وہ شروع کرتا ہے اُسے پورا بھی کرتا ہے۔ وہ صرف مسیحی زندگی کا آغاز ہی نہیں کرتےکرتا بلکہ ہماری تقدیس کرنے والا  ، ہمیں گناہ سے قائل کرنے والا اور ہماری  مدد کرنے والا روح القدس ہمارے ساتھ ہوتا ہے تاکہ ہماری مخافظت و استقامت کو یقینی بنائے۔ 

 حقیقی مسیحی انتہائی اور سنگین بر گشتگی کا شکار  توہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی مکمل اور حتمی طور پر فضل سےنہیں گر سکتے       —     آر۔سی۔  سپرول

مَیں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوںتا  کہ ایمان میں ثابت قدمی ہماری اپنی طاقت پرمنحصر ہے۔حتیٰ کہ نئے سرے سے پیدا ہونے کے بعد بھی ہم گناہ میں گر جاتے ہیں حتیٰ کہ   سنگین گناہ میں بھی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مسیحی کے لئے سنگین گناہ میں گرنے کا امکان ہے ۔ہم  منحرف ہونے  اور اخلاقی گراوٹ  وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مَیں روح القدس  کے خلاف کفر  کے علاوہ کسی ایک بھی ایسے گناہ کو نہیں جانتا جو ایک حقیقی طور پر نئے سرے سے پیدا  م ہونے والا مسیحی نہ کر سکتا ہو۔

مثلاً ہم پرانے عہد نامے میں داؤد کا مثال دیکھتے ہیں۔ داؤد یقینی طور پر خُدا دل کے موافق تھا۔ وہ بلا شبہ ایک نئے سرے سے پیدا شدہ شخص تھا۔ اُس میں خُدا کا روح تھا۔وہ خُدا کی باتوں کی بابت محبت کے       گہرے جذبہ  شوق  سے سر شار تھا۔ اس کے باوجود اُس نے نہ صرف بدکاری کی بلکہ اپنے معشوق کے خاوند کو جان سے مارنے  کی سازش میں ملوث تھا جو درحقیقت قتل کی سازش تھی۔ یہ ایک سنجیدہ کام ہے۔ حتیٰ کہ ناتن ؔ نبی کے کلام کی وجہ سے ہم داؤد کی سنجیدہ    سطح کی توبہ دیکھ سکتے ہیں   مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ داؤد گناہ میں گرا اور بڑی سنگینی سے گرا۔

پولُس رسول ہمیں اپنی روحانی طاقت کے بارے میں متکبر ہونے کے بارے میں متنبہ کرتا ہے۔وہ کہتا ہے:’’ پس جو کوئی اپنے آپ کو قائِم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے‘‘(1۔کرنتھیوں10باب 12 آیت)۔ ہم بہت ہی سنگین سر گرمیوں میں گر جاتے ہیں۔ پطرس رسول  حتیٰ کہ پیشگی خبردار کیے جانے کے باوجود بھی  مسیح کا انکار کرتا ہے اور قسم کھاتا ہے کہ وہ اُسے نہیں جانتا جو  ایک  طرح سےعوامی دھوکہ ہے۔اُس نے اپنے خُداوند کے خلاف غداری کی ۔جب اُسے غداری کے امکان سے خبردار کیا گیا تو پطرس نے کہا ایسا کبھی نہیں ہوگا۔      مسیح نے پطرس سے کہا: ’’ شمعُون! شمعُوؔن! دیکھ شَیطان نے تُم لوگوں کو مانگ لِیا تاکہ گیہُوں کی طرح پھٹکے۔ لیکن مَیں نے تیرے لِئے دُعا کی کہ تیرا اِیمان جاتا نہ رہے اور جب تُو رجُوع کرے تو اپنے بھائِیوں کو مضبُوط کرنا۔‘‘(لوقا22باب31تا32آیات)۔ پطرس گرا مگر  وہ رجوع لایا۔ وہ بحال کیا گیا۔ اُسکی گراوٹ تھوڑے عرصہ کی تھی۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ حقیقی مسیحی انتہائی اور سنگین گراوٹ کا شکار تو ہو سکتے ہیں مگر وہ  کبھی  بھی فضل سے مکمل اور حتمی طور پر نہیں گر سکتے ۔  

مَیں تصور کرتا ہوں کہ ’’ایمانداروں کی استقامت کا یہ چھوٹا سا جملہ خطرناک طور پر غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس   سے یہ تصور کیا جا سکتا ہے استقامت کا کام  شایدہم خود کرتے ہیں۔   مَیں یہ مانتا ہوں کی ایماندار ایمان پر ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جو خُدا کی جانب سے موثر طور پر بلائے گئے ہیں اور روح القدس کی قدرت سے نئے سرے سے پیدا ہو چکے ہیں وہ آخر تک برداشت کرتے ہیں۔  تا ہم  وہ اس لئے ثابت قدم نہیں رہتے کیونکہ وہ خُدا کے فضل کے وسائل  کو بڑی جانفشانی سے استعمال میں لاتے ہیں۔ہم   میں سے کسی ایک شخص  کےایمان پر قائم رہنے کی وجہ جو ہم بتا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں قائم رکھا گیا ہے ۔ اس لئے مَیں ’’ایمانداروں  کی محافظت ‘‘ کی اصطلاح زیادہ پسند کرتا ہے۔ کیونکہ ہمارے  فضل میں قائم رہنے کے عمل کی تکمیل خود خُدا کرتا ہے۔ میرا   اعتقادہے کہ محافظت   عزم و ارادہ کرنے والے کی صلاحیت میں نہیں ۔ اورمیرے بھروسے کا انحصار مسیح کی قدرت  میں ہے جو اپنے فضل  اور اپنی قیامت کی قدرت سے مجھے سنبھالے رکھتا ۔ وہ مجھے  سلامتی سے گھر میں لائے گا۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔

آر۔سی۔سپرول
آر۔سی۔سپرول
ڈاکٹر آر۔ سی لیگنئیر منسٹریز کا بانی تھا ۔ وہ فلوریڈا میں سینٹ اینڈریو چیپل کا پہلا خادم اور اُستاداور ریفارمیشن بائبل کالج کا پہلا صدر تھا۔ وہ ٹیبل ٹاک میگزین کا مدیر اعلیٰ تھا اورایک سو سے زائد کتب کا مصنف بھی تھا ۔ پوری دُنیا میں پاک صحائف کی لاخطائیت اور خُدا کے لوگوں کے اُس کے کلام پر یقین کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ضرورت کے واضح دفاع کے لیے پہچانا جاتا ہے۔