
ہزار سالہ دَورِ حکومت
30/04/2025
نیا آسمان اور نئی زمین
07/05/2025آخری عدالت

بائبل آخری عدالت کے متعلق متعدد حوالہ جات پیش کرتی ہے۔ شاید پورے کلامِ مقدس میں متی ۲۵ باب اس کے متعلق سب سے طویل حوالہ ہے۔ آیات ۳۱ـ ۴۶ میں مسیح ’’بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے‘‘اس نے بھیڑوں کو بادشاہی میراث میں دی اور بکریوں کوکہا کہ ’’ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ‘‘۔ آخری عدالت کے مضمون پر دیگر توسیعی گفتگو میں درج ذیل حوالہ جات شامل ہیں لوقا ۱۹ : ۱۲ـ ۲۷ ؛ رومیوں ۲ : ۵ـ ۱۶ ؛ عبرانیوں ۱۰ : ۲۶ـ ۳۰ ؛ ۲۔پطرس ۳: ۷ـ ۱۴ ؛ اور یہوداہ ۶ ، ۱۴ـ ۱۵ ، ۲۴۔
مکاشفہ کی کتاب میں بائبل کی کسی بھی دوسری کتاب کے مقابلے میں آخری عدالت کے متعلق زیادہ وضاحت موجود ہے۔ مکاشفہ کی کتاب کے یہ اقتباسات (مکاشفہ ۶ : ۱۲ ـ ۱۷ ؛ ۱۶ : ۱۷ـ ۲۱ )یا تو عدالت کی بنیاد کا کوئی واضح ذکر نہیں کرتے یا بت پرستی، گناہ اور اعمال کو عدالت کی بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں (مکاشفہ ۱۴ : ۶ـ ۱۱ ؛ ۱۴ـ ۲۰ ؛ ۱۸ : ۴ـ ۲۴ ؛ ۱۹ : ۱۱ـ ۲۱ ؛ ۲۰ : ۱۱ـ ۱۵)۔ شائد مکاشفہ ۲۰ : ۱۱ـ ۱۵ اعمال کی بنیاد پر لوگوں کی آخری عدالت سے متعلق سب سے واضح متن ہے۔ خُدا مرُدوں کی عدالت کرتا ہے ’’اور جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہوا تھا ان کے اعمال کے مطابق مرُدوں کا انصاف کیا گیا۔۔۔ اور ان میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اس کا انصاف کیا گیا ۔۔۔ اور جس کسی کا نام کتابِ حیات میں لکھا ہوا نہ ملا وہ آگ کی جھیل میں ڈالا گیا ۔‘‘ وہ لوگ جن کے نام ’’اس برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے گئے جو بنایِ عالم کے وقت سے ذبح ہوا ہے ‘‘ (مکاشفہ ۱۳ : ۸ ؛ ۲۱ : ۲۷ ) ان کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ ذبح کیے گئے برّہ کا خون ان کے گناہ آلودہ کاموں کے لیے تعزیری تلافی ہے۔ برّہ نے ان کی خاطر سزا کو برداشت کیا۔ وہ خدا میں اپنی تصدیق (کہ خدا نےیہ اعلان کیا ہے کہ وہ راستبازہیں) سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ کس طرح مسیح میں ایک ایماندار کی تصدیق درج ذیل باتوں سے تعلق رکھتی ہے (۱) خُدا کی آخری عدالت سے (۲) اس تقاضے سے کہ ایمانداروں کوعدالت سے گزرنے کے لیے اپنے نیک اعمال کو ظاہر کرنا چاہیے۔ پھر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ (۳) آخری عدالت کا غیر مسیحیوں سے کیا تعلق ہے۔
سب سے پہلے جب کوئی شخص اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ مسیح اُس کی خاطر مر گیا تو رومیوں ۳ : ۲۴ـ ۲۵ کے مطابق وہ شخص مسیح کے ’’خون‘‘ کے وسیلے ’’راستباز ٹھہرایا ‘‘جاتا ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح نے خُدا کی اُس آخری عدالت اور غضب کو اپنے اوپر لے لیا جس کے ہم اپنے گناہوں کے باعث مستحق تھے۔ نتیجتاًایمانداروں کو اس آخری سزا سے ’’فدیہ دے کر بچا ‘‘ لیا گیا ہے ( دیکھیں رومیوں۵ : ۹ )۔
لیکن اگر ایسا ہے تو ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ نیا عہد نامہ دوسرے حوالہ جات میں ایسا کیوں کہتا ہے کہ آخری عدالت کی سزا سے بچنے کے لیے ’’نیک اعمال ‘‘ ضروری ہیں۔ مثلاً رومیوں ۲ : ۱۳ میں لکھا ہے کہ ’’کیونکہ شریعت کے سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے (یا بہتر الفاظ میں کہا جائے تو برّی کیے جائیں گے)۔‘‘ تمام لوگوں کے اعمال کا عدالتی جائزہ لیا جائے گا۔ عدالت کے وقت خُدا ’’ہر ایک کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا‘‘ (رومیوں ۲ : ۶ )۔ کچھ لوگ جو اچھے اعمال کرتے ہیں اگرچہ وہ کامل نہ ہوں گے ’’ہمیشہ کی زندگی‘‘ حاصل کریں گے (رومیوں ۱ : ۷ )۔ دوسری طرف باقی نا اہل پائے جائیں گے اور وہ عدالت کا سامنا کریں گے۔ رومیوں ۲ : ۶ ، ۱۳ خدا کی شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت کے بارے میں بتاتا ہے تاکہ ’’خدا کی عدالت ‘‘ کے وقت ’’راستباز ٹھہرائے جائیں‘‘ یا زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جائے تو ’’برّی ‘‘ کیے جائیں (رومیوں ۲ : ۲ ، ۳ ، ۵ )۔ نتیجتاً’’ قیامت کے دن، راستباز وں کو ۔۔۔کھلے عام قبول کیا جائے گا اور انہیں برّی کر دیا جائے گا۔‘‘(مفصل ویسٹ منسٹر اقرار الایمان ۹۰)۔ نیک اعمال یہ ’’ ثابت‘‘ کرتے ہیں کہ ایماندار آغاز سے ہی صرف ایمان کے وسیلے سے ’’راستباز‘‘ ٹھہرائے گئے ہیں۔
نیک اعمال اور آخری عدالت کے بارے میں یہ تعلیم اُس نظریہ کے برعکس ہے جس کو عام طور پر رومن کیتھولک کلیسیا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے حالانکہ دوسرے اس نظریہ سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق جن گناہوں کی سزا کو مسیح نے برداشت کیا وہ سزا لوگوں کو گناہ سے مبرہ ٹھہراتی ہے اور اُن کے اپنے نیک اعمال اُس راستبازی کو مہیا کرتے ہوئے مسیح کے مخلصی کے کام کو مکمل کرتے ہیں جس کی آخری سزا سے بچنے کے لیے ابھی تک ضرورت ہے۔ مسیح کی راستبازی ایمانداروں کو قانونی طور پر راستباز ٹھہرانے کے لیے مہیا نہیں کی جاتی بلکہ ان کے اپنے نیک اعمال ان کو آخری عدالت کے وقت راستباز ٹھہرانے کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا ایمانداروں کے اپنے نیک ااعمال اور صلیب پر مسیح کی موت دونوں مل کر انہیں راستباز قرار دیتےہیں اور انہیں ابدی زندگی کے اہل بناتے ہیں۔
دوسری طرف مصلحین کا ایمان تھا کہ مسیح کی تعزیری موت قانونی طور پر ایک شخص کو تمام گناہوں سے معافی دلاتی ہے اور مسیح کی کامل راستبازی ایماندار کے حصے میں ڈال دی جاتی ہےتاکہ خدا ایماندار کو کامل راستباز ٹھہرائے۔ دنیا کے اختتام پر ایمانداروں کے نیک اعمال (اگرچہ وہ کامل نہ ہوں ) اُن کو الزام سے برّی کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی میں وہ صرف مسیح کے وسیلے سے ، صرف ایمان سے اور صرف فضل سے راستباز ٹھہرائے گئے ہیں۔ برّی ہونا ایماندار کے راستباز ٹھہرائے جانے کے برابر نہیں ہے۔ ’’نیک اعمال ‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک شخص کو پہلے ہی مسیح کے وسیلہ سے درست معنوں میں راستباز ٹھہرایا جا چکا ہے اور اس طرح یہ نیک اعمال دوسروں کے سامنے ’’راستباز ی‘‘کی حالت کی ’’تائید ‘‘ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ’’نیک اعمال‘‘ بالآخر کسی کو بھی نجات نہیں دیتے اورنہ ہی کسی شخص کو ابدی بادشاہی میں داخلہ دیتے ہیں۔ یہ نیک اعمال مسیح کے راستباز ٹھہرانے کے حتمی کام کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ایک تمثیل مسیح کے راستباز ٹھہرانے والے کام اور دنیا کے آخر میں ’’بچانے ‘‘والے ’’نیک اعمال‘‘ کے درمیان تعلق کو واضح کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ امریکہ میں کچھ عام خوردہ قیمت سے کم داموں پر اشیا بیچنے والے بڑے سٹور اپنی مصنوعات خریدنے کے قانونی استحقاق کے لیے خریداروں سے سالانہ فیس طلب کرتے ہیں۔ اراکین اس فیس کو ادا کرتے ہیں اور ایک کارڈ وصول کرتے ہیں جو انہیں مقامی اسٹور کو فیس کی ادائیگی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ کارڈ ایک حقیقی ممبر کو سٹور میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن یہ کارڈ کسی شخص کو سٹور میں رسائی دئیے جانے کی بذات خود حتمی وجہ نہیں ہے ۔ ادا شدہ فیس سٹور میں داخلے کی ایک ’’لازم شرط ‘‘ ہے اور ثبوت کے طور پر پیش کیا جانے والا یہ کارڈ صرف ایک ’’لازمی ضرورت‘‘ ہے۔ سٹور میں داخل ہونے کے لیے آپ کو فیس ادا کرنے اور کارڈ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سٹور میں داخل ہونے کے لیے فیس اور کارڈ دونوں کی مشروط قوت یکساں نہیں ہے۔ ادا شدہ رقم ’’بنیادی‘‘ یا ’’حتمی‘‘ شرط ہے اور کارڈ ’’ ثانوی‘‘ شرط ہے۔
اسی طرح مسیح کی راستباز ٹھہرانے والی تعزیری موت ’’ ایک ہی بار‘‘ ادا کی گئی قیمت ہے (عبرانیوں ۹ : ۱۲ ؛ مزید دیکھیں۹ : ۲۶ـ ۲۸ ) اور وہ نیک اعمال جو مسیحی ایمان کے تناظر میں کیے جاتے ہیں حتمی عدالتی تشخیص میں اس ایمان کا ناگزیر ثبوت بن جاتے ہیں جب ایماندار کو سب کے سامنے قبول کیا اور برّی کر دیا جاتا ہے۔ مسیح کا کام (اس کی موت اور اس کی کامل فرمانبرداری دونوں) راستباز ٹھہرانے کے لیے ’’ شرطِ لازم ‘‘ ہیں اور ایماندار کے نیک اعمال ان کو دوسرں کے سامنے ’’برّی قرار دینے‘‘ کے لیے ایک ’’ضروری ( نہ کہ حتمی ) شرط‘‘ ہیں۔ ویسٹ منسٹر اقرار الایمان ۱۱ )۲ (کے مطابق ’’ پس ایمان مسیح اور اُس کی راستبازی کو حاصل کرنے اور اس پر قائم رہتے ہوئے راستباز ٹھہرائے جانے کا واحد ذریعہ ہے: پھر بھی یہ راستباز ٹھہرائے گئے شخص میں صرف تنہا موجود نہیں ہوتا۔‘‘
نیک اعمال ایمانداروں کے شروع سے راستباز ٹھہرائے جانے کی تائید کے طور پر آخری عدالت کے وقت اُن کے جسمانی طور پر مرُدوں میں سے جی اٹھنےکے ساتھ مل کر اپنا عمل سر انجام دیتے ہیں ۔ یہ مرُدوں میں سے جی اٹھنا بھی ان کے پہلے سے راستباز ٹھہرائے جانے کے حتمی فیصلے کی تائید ہے جس کو مسیح کے مخلصی کے کام کے ذریعے مکمل کیاگیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسیحیوں کو پہلے ہی سے ہر طرح سے راستباز ٹھہرایا گیا ہے۔ جیسا کہ مسیح کے جسمانی طور پر جی اُٹھنے کا معاملہ تھا (۱۔تیمتھیس ۳ : ۱۶) مسیحیوں کا مرُدوں میں سے جی اٹھنا بھی ان کو دنیا کے ناحق مجرم ٹھہرانے کے الزام اور جسمانی موت کی سزا کے الزام سے برّی کرتا ہے ۔
آخر کار آخری عدالت کے وقت کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو مرُدوں میں سے زندہ کیے جائیں گے اور بظاہر ان کے پاس ’’نیک اعمال ‘‘ بھی ہوں گے مگر وہ یہ ایمان نہیں لائے تھے کہ مسیح نے صلیب پر ان کی آخری سزا کو اپنے اوپر لے لیا اور انہیں راستبازی بخشی۔ایسے لوگوں کو آخری عدالت کا لازمی سامنا کرنا ہو گا چونکہ ان کو گناہ کے قصوروار اور کامل راستباز نہ ہونے والوں کے طور پر جانا جائے گا۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔