ٹیولپ اوراصلاحی علم ِ الٰہی: مکمل یاکُلی فطری بگاڑ
04/01/2023کیا خُدا اپنا ذہن تبدیل کرتا ہے؟
04/01/2023مصائب اور خُدا کا جلال
ایک دفعہ مَیں ایک ایسی عورت سے ملاقات کے لئے گیا جو بچہ دانی کے کینسر کی وجہ سے موت کے دہانے پر کھڑی تھی۔ وہ انتہائی پریشانی تھی مگر وہ صرف اپنی جسمانی بیماری کی وجہ سے تھی۔ اُس نے اِس بات کی وضاحت کی کہ جب وہ جوان تھی تو اُس نے ایک دفعہ اسقاط ِ حمل کیا تھااور اُس کا یقین تھا کہ یہ اُس کی بیماری کا براہ راست نتیجہ ہے۔ مختصراً ، اُس کا خیال تھا کہ کینسر اُس پر خُدا کی عدالت تھی۔
موت کے چُنگل میں ایسے اذیت ناک سوال کا عمومی پاسبانی ردّعمل یہ ہوتا ہے کہ مصائب گناہ کے نتیجہ میں خُدا کی عدالت نہیں ہیں ۔ لیکن مجھے ایمان داری کا ثبوت دینا تھا ۔ مَیں نے کہا مَیں نہیں جانتا شاید یہ خُدا کی عدالت ہے اور شاید ایسا نہیں ہے۔ مَیں خُدا کی پوشیدہ مصلحت کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اُس کی پروردگاری کے نادیدنی ہاتھ کو پڑھ سکتا ہوں۔ لہٰذا مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ عورت کیوں دُکھ اُٹھا رہی ہے۔ تاہم میں جانتا تھا کہ اِس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ اُس کی خطا کا جواب موجود تھا۔ ہم نےمسیح اورصلیب کے رحم کے بارے میں بات کی اور وہ ایمان میں مر گئی۔
عورت نے جو سوال اُٹھایا تھا ، مصیبت میں مبتلا لوگ ایسے سوالات ہر روز پوچھتے ہیں۔اِس سوال کا تذکرہ نئے عہد نامے کے ایک مشکل حوالہ میں پایا جاتا ہے۔ یوحنا9باب میں ہم پڑھتے ہیں:’’ پِھر اُس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جَنم کا اَندھا تھا۔اور اُس کے شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ اَے ربیّ! کِس نے گُناہ کِیا تھا جو یہ اندھا پَیدا ہُؤا۔ اِس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟یِسُوعؔ نے جواب دِیا کہ نہ اِس نے گُناہ کِیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لِئے ہُؤا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہِر ہوں‘‘(1تا3آیات)۔
یسوع کے شاگردوں نے یہ کیوں سوچا کہ اِس آدمی کے اندھے پن کی اصل وجہ اِس کا اپنا گناہ یا پھر اِس کے والدین کا گناہ تھا۔اِن کے پاس یقینی طور پر اِس مفروضے کی کوئی نہ کوئی بنیاد تھی ، کیونکہ پاک صحائف انسانی کی برگشتگی سے لیکر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اِس دُنیا میں مصائب ، بیماری اور موت کی وجہ گناہ ہے۔شاگرد اِس ضمن میں دُرُست تھے کہ اِس آدمی کی مصیبت میں گناہ کا عمل دخل کسی نہ کسی طرح شامل تھا۔ اِس کے علاوہ خُدا کے کلام میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو مخصوص گناہوں کی وجہ سے مصیبت کا باعث بنتی ہیں۔قدیم اسرئیل میں خُدا نے موسیٰ کی بہن مریم کو اِس لئے جذام ( کوڑھ) میں متبلا کیا کیونکہ اُس نے خُدا کے ترجمان کے طور پر موسیٰ کے کردار پر سوال اُٹھا یا تھا (گنتی12باب1تا10آیات)۔ اِسی طرح خُدا نے گناہ کے نتیجے میں بیت سبع سے پیدا ہونے والے بچے کی جان لے لی(2۔سموئیل12باب14تا18آیات)۔ بچے کو اُس کے کسی کردہ گناہ کی سزا نہیں دی گئی بلکہ یہ داؤد پر خُدا کی عدالت کا براہ راست نتیجہ تھا۔
تاہم شاگردوں نے گناہ اور مصیبت کے درمیان عمومی تعلق کو مخصوص بنانے کی غلطی کی ۔ اُنہوں نے یہ فرض کر لیا کہ اندھے شخص کے گناہ اور اُس کی مصیبت کے درمیان بِلا واسطہ تعلق ہے۔ کیا اُنہوں نے ایوب کی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تھا جو ایک ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ وہ بے گناہ تھا اور اِس کے باوجود خُدا کی طرف سے سخت دُکھ اُٹھاتا ہے۔ جب اِس ضمن میں ایک اور متبادل موجود تھا تو شاگرد نے صرف دو انتخابات کو چُن کر غلطی کی ۔ اُنہوں نے یسوع کے سامنے اپنا سوال یا یہ /یا پھر وہ کے انداز میں رکھ کر جھوٹے مخمصے یعنی ’’ منطقی مغالطے‘‘ (logical fallacy)کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ فرض کر لیا کہ اِس شخص کا اندھا پن یا تو اُس کے اپنے یا پھر اُس کے والدین کے گناہ کا سبب ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شاگردوں نے یہ بھی فرض کر لیا کہ جو کوئی بھی مصیبت کا شکار ہوتا ہے وہ براہ راست اپنے گناہ کی نوعیت اور تناسب سے اِس میں متبلا ہوتا ہے۔ایک دفعہ پھر ایوب کی کتاب اِس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایوب جس حد تک تکا لیف برداشت کر نے کے لئے بُلایا گیا تھا وہ اِس سے کہیں زیادہ قصور وار دوسروں کے مصائب اور تکالیف کے مقابلے بے پناہ زیادہ تھیں۔
ہمیں کبھی بھی فوری طور پر اِس نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے کہ مصائب کا کوئی خاص واقعہ براہ راست کسی گناہ کا ردّ عمل ہے یا کسی شخص کے خاص گناہ سے اِس کا براہ راست تعلق ہے۔ پیدایشی اندھے کی کہانی اِس بات کا واضح ثبوت ہے۔
ہمارے خُداوند نے شاگردوں کے سوال کا جواب اُن کے غلط مفروضے کو دُرُست کرتے ہوئے دیا کہ اُس آدمی کا اندھا پن نہ تو اُس کے اَور نہ ہی اُس کے والدین کے گناہ کا براہ راست نتیجہ ہے۔اُس نے اُنہیں یہ یقین دِلایا کہ وہ آدمی اندھا اِس لئے پیدا نہیں ہو ا کہ خُدا اِس آدمی یا اِس کے والدین کو سزا دے رہا تھا۔ اِس معاملے میں ایک اور وجہ یا سبب بھی موجود تھا ۔ اِس لئے ہماری مصیبتوں کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جن کو برداشت کرنے کے لئے خُدا ہمیں بُلاتا ہے۔
یسوع اپنے شاگردوں کو یہ کہتے ہوئے جواب دیا : ’’یِسُوعؔ نے جواب دِیا کہ نہ اِس نے گُناہ کِیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لِئے ہُؤا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہِر ہوں‘‘(3آیت)۔اُس کی اِس سے کیا مُراد تھی؟ سادہ الفاظ میں یسوع نے یہ کہا تھا کہ وہ شخص اِس لئے اندھا پیدا ہوا تھا تاکہ یسوع مقررہ وقت پر اپنی قدرت اور الوہیت کی گواہی کے طور پر اِسے شفا دے۔ ہمارے خُدا وند نے اپنی شناخت کو نجات دہندہ اور خُدا کے بیٹے کے طور پر ظاہر کیا۔
جب ہم مصائب (دُکھوں) کا شکار ہوں تو ہمیں بھروسہ رکھنا چاہیے کہ خُدا بخوبی جانتا ہے وہ کیا کر رہا ہے۔ اور یہ کہ وہ اپنے لوگوں کے دُکھوں اور مصیبتوں میں سے اُس کے جلال اور ہماری تقدیس کے لئے کام کر رہا ہے ۔ بے شک طویل مصائب برداشت کرنا مشکل ہے لیکن مشکل اِس وقت بہت کم ہو جاتی ہے جب ہم اپنے خُداوند کو پیدایشی اندھے آدمی کے بھید کی وضاحت کرتے ہوئے سُنتے ہیں ، جِسے خُدا نے یسوع کے جلال کے لئے بہت سالوں تک تکلیف کے لئے بُلایا تھا۔