مصائب اور خُدا کا جلال
04/01/2023
صولی ڈیو گلوریا : صر  ف خُدا کو جلال ملے
04/01/2023
مصائب اور خُدا کا جلال
04/01/2023
صولی ڈیو گلوریا : صر  ف خُدا کو جلال ملے
04/01/2023

کیا خُدا اپنا ذہن تبدیل کرتا ہے؟

نئے عہد نامے میں کسی  کے’’ذہن تبدیل کرنے ‘‘سے مُراد توبہ ہے۔ جب بائبل میرے اور آپ کے توبہ کرنے کے بارے میں بات کرتی ہے تو اس سے یہ مُراد ہے کہ ہمیں گناہ  کے لحاظ سے  اپنا ذہن  یا رغبت و رحجان تبدیل کرنے کرنے کے لئے کہا گیا ہے یعنی ہمیں بُرائی سے باز آنا چاہیے۔  توبہ کی اصطلاحات  ایسے اشارتی مفہوم سے   بھر پور ہے اور جب ہم خُدا کy ملُول ہونےیا افسوس کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں  تو اس سے خیال ابھرتا ہے کہ خُدا کسی بُری چیز سے اجتناب کرتا ہے۔ لیکن بائبل میں جب بھی  خُدا کے لئے اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے تو اِس سے یہی مُراد نہیں ہے۔
خُدا کی  نسبت سے  لفظ  توبہ کا استعمال ہمارے لئے بعض مسائل کو جنم دیتا ہے۔   جب بائبل ہمارے لئے خُدا کی وضاحت کرتی ہے تو وہ انسانی اصطلاحات کا استعمال کرتی ہے کیونکہ ہم سے مخاطب ہونے کے لئے خُدا   واحد ہماری انسانی زبان کا استعمال کرتا ہے۔ علم ِ الہیات کی زبان میں اِسے ’’انتھرو پو مورفک ‘‘ (anthropomorphic)    یعنی تشبیہی زبان  کہتے ہیں جس میں خُدا کے بیان کے لئے  انسانی اشکال اور  افعال کا استعمال کیا جاتا ہے۔جب بائبل
خُدا وندکے پاؤں یا دائیں بازو  کی بات کرتی ہے تو ہم فوری سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں پر بائبل خُدا سے متعلق انسانی
طرزِ بیان استعمال کر رہی ہے۔ لیکن جب ہم   توبہ جیسی غیر مرئی  اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو پھر  اس کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس تناظر میں گنتی 14باب میں موسی ٰکے  بیان کے بارے میں کیا کہیں گے؟

یہاں پرایک طرح سے ایسا لگتاہے کہ خُدا اپنے ذہن کو تبدیل کر رہا ہے  اور دوسری طرف بائبل کہتی کہ خُدا کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ وہ   ہمہ دان یا عالم ِ کُل ہے۔وہ ابتدا سے تمام اشیا کا علم رکھتا ہےاور وہ لا تبدیل ہے۔ خُدا  کے اندر تبدیلی کا سایہ تک نہیں ہے۔مثال کے طور پر موسی ٰ کے منہ کھولنے   اور لوگوں کے لئے التجا کرنے سے پہلے  خُدا کو معلوم تھا کہ گنتی 14باب میں موسی ٰ اُس سے کیا کہنے ولاتھا۔ اور جب حقیت میں موسی ٰ یہ سب  کہہ چُکا تو کیا خُدا نے اچانک اپنا ذہن تبدیل کر لیا؟  خُدا کے ذہن میں ایک لمحہ پہلے کے مقابلے میں کوئی نئی معلومات نہیں تھی۔ جہاں تک خُدا کے علم   یا صورت حال کا تعلق ہے  کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

موسی ٰ کے الفاظ اور افعال  میں ایسا کیا تھا جس نے خُدا کو اپنا ذہن تبدیل کرنے کے لئے اُکسایا تھا؟  میرے خیال میں یہاں پر پروردگاری کا ایک بھید ہے جس کے تحت خُدا نہ صرف اُن   چیزوں کے انجام  کو مقرر کرتا ہے بلکہ اُنکے اسباب کو بھی مقررکرتا ہے۔ خُدا بائبل میں یہ اصول  پیش کرتا ہےجہاں اُسے  عدالت کے خطرے  کی غرض سےاپنے لوگوں کو توبہ کی ترغیب  دینی ہوتی ہے۔بعض اوقات وہ وضاحت سے یوں بیان کرتا  ’’اگر تم نے توبہ کر لی تو مَیں ایسا نہیں کرونگا۔‘‘اور وہ ہمیشہ  اس کے ساتھ وضاحتی الفاظ کا اضافہ نہیں کرتا لیکن وہ موجود ہیں۔     میرے خیال میں یہ ایسی مثالوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات واضح طور پر سمجھی جا چکی ہے کہ     خُداغیر متاسف لوگوں کی عدالت کرتا ہے لیکن اگر کوئی کہانتی انداز میں کوئی اُنکے لئے التجا کرتا ہے  تو وہ اُنہیں انصاف کی بجائے اپنا فضل بخشتا ہے۔میرے خیال میں یہ اس بھید کا مغز ہے۔

کیا خُدا  تذبذب کا شکار ہے اور مختلف (ممکنہ) انتخابات اُسے پریشان کر رہے ہیں کہ مجھے یہ کرنا چاہیے؟ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے؟  کیا وہ کسی ایک  عمل کے دوران فیصلہ کر لیتا  اور  پھر سوچتا ہے؟  شاید یہ بالکل اچھا خیال نہیں ہے  کہ وہ ذہن تبدیل کرے۔ واضح اور بر ملا طور پر خُدا عالم ِ کُل ہے ، خُدا  دانائے کُل ہے، خُدا کا  نقطہ ِنظر  ابدی اور مستقل ہے اور وہ تمام اشیا کا مکمل علم رکھتا ہے۔  اس لئے ہم خُدا کے ذہن کو تبدیل نہیں کرتے لیکن دُعا چیزوں کو تبدیل کر دیتی ہے۔ دُعا ہمیں تبدیل کرتی ہے۔ اور ایسے مو اقع بھی ہیں جب خُدا ہمارا انتظار کرتا ہے کہ ہم اُس سے مانگیں کیونکہ اُسکا منصوبہ ہے کہ ہم  زمین پر اُسکی مرضی  پوری ہونے کے جلالی عمل میں اُسکے  ساتھ کام کریں۔


یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔
آر۔سی۔سپرول
آر۔سی۔سپرول
ڈاکٹر آر۔ سی لیگنئیر منسٹریز کا بانی تھا ۔ وہ فلوریڈا میں سینٹ اینڈریو چیپل کا پہلا خادم اور اُستاداور ریفارمیشن بائبل کالج کا پہلا صدر تھا۔ وہ ٹیبل ٹاک میگزین کا مدیر اعلیٰ تھا اورایک سو سے زائد کتب کا مصنف بھی تھا ۔ پوری دُنیا میں پاک صحائف کی لاخطائیت اور خُدا کے لوگوں کے اُس کے کلام پر یقین کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ضرورت کے واضح دفاع کے لیے پہچانا جاتا ہے۔