کیا خُدا اپنا ذہن تبدیل کرتا ہے؟
04/01/2023
جب یسوع  نےکہا  کہ ہم اُس سے بڑے کام کریں گے تو اِس سے اُسکی کیا مُراد تھی؟
20/01/2023
کیا خُدا اپنا ذہن تبدیل کرتا ہے؟
04/01/2023
جب یسوع  نےکہا  کہ ہم اُس سے بڑے کام کریں گے تو اِس سے اُسکی کیا مُراد تھی؟
20/01/2023

صولی ڈیو گلوریا : صر  ف خُدا کو جلال ملے

 

صولی ڈیو گلوریا(Soli Deo gloria ) ایک  معقولہ   جو پروٹسٹنٹ اصلاح  کے دور میں اُبھرتا ہے  اور  یوحان سباسٹین باخ کی موسیقی کی ہر طرز کے اُوپر استعمال کیا گیا ہے۔اُس نے ہر ایک مسودہ کے نیچے ’’ایس ڈی جی‘‘(SDG)کے حروف مخفف کے طور پر اس لئے لکھے کہ واحد خُدا ہی ہے جو تخلیق اور مخلصی کے کام کے عجائب کے لئے جلال  پانے کے لائق ہے۔نجات سے متعلق سولہویں صدی کے تنازعہ کا مرکز فضل کا مسئلہ تھا۔

اصل سوال انسان کے لئے فضل کی ضرورت  کانہ تھا بلکہ سوال فضل کی ضرورت کی وسعت کا تھا۔کلیسیا پہلے سے پلاجیس کو ردّ کر چکی تھی جس نے یہ تعلیم دی کہ  فضل محض نجات کے لئے سہولت پیدا کرتا ہے  لیکن یہ اس کے لئے  قطعاً ضروری نہیں ہے۔ نیم پلاجین ازم  نے اُس وقت سے یہ کہنا شروع کردیا کہ بغیر فضل کے نجات نہیں    لیکن  فضل کو نیم پلاجین اور آرمینین  نجات کے نظریات میں جس طرح سمجھا جاتا ہے وہ موثر فضل نہیں ہے۔یہ فضل  نجات کو  ممکن تو بناتا ہے  مگر ایسا  فضل نہیں جو نجات کو یقینی بناتا ہو۔

بیج بونے والے کی تمثیل میں نجات کی بابت  ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا ہی وہ ہے جو نجات  کے عمل میں
پیش قدمی کرتا ہے۔ وہ بیج بونے والا ہے۔ بویا جانے والا بیج اُسکا ہے جسکا تعلق اُسکے کلام سے ہے اور اِس کے نتیجے میں  جوفصل  پیدا ہوتی ہے وہ بھی اُسی کی فصل ہے۔وہ  اس سے ویسی کی فصل حاصل کرتا ہے جس مقصد کے لئے اُس نے یہ بونے کا  ساراعمل شروع کیا تھا۔خُدا  جھاڑیوں اور پتھریلی زمین کی بے یقینی  بل بوتے پر فصل کو نہیں چھوڑ دیتا  ۔ یہ صرف اور صرف خُدا ہی ہے جو یہ بات یقینی بناتا ہے کہ اُسکے کلام کا ایک حصہ اچھی زمین پر گرے۔  اس تمثیل کی تفسیر میں  ایسا سوچناایک  سنجیدہ غلطی  ہو گی کہ اچھی زمین برگشتہ انسان کے لئے اچھی رغبت  ہے جوگنہگار  فضل ِ متقدم کے ردّ عمل میں  درست   انتخاب کرتے ہیں۔ اچھی زمین کی مستند اصلاحی  تفہیم یہ ہے کہ اگر زمین اُس بیج کو قبول کرتی ہے جو خُدا نے بویا ہے تو یہ  خُدا ہی ہے جو بیج کی تولیدکےلئے زمین کو تیار کرتا ہے۔

کسی بھی نیم پلاجین اور آرمینین کو عملی  سطح پر  جو سب سے بڑا سوال در پیش ہےوہ یہی ہے۔مَیں نے انجیل کو ماننے اور اپنی زندگی مسیح کے سپرد کرنے کا انتخاب کیوں کیا  جبکہ  میرا پڑوسی جس نے وہی انجیل سنی تھی   اُس نےاِسے مسترد کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب کئی  طرح سے دیا گیا ہے۔ شاید ہم یہ قیاس آرائی کریں کہ جب ایک شخص انجیل اور مسیح کو قبول کرتا  اور دوسرا نہیں کرتا تو  اس کی وجہ یہ ہے کہ   وہ شخص جس نے مثبت ردّ عمل دیا وہ دوسرے شخص سے زیادہ ذہین تھا۔ اگر ایسی بات ہےتب بھی نجات کا حتمی فراہم کرنے والا خُدا ہی ہے  کیونکہ ذہانت اُسی کی نعمت ہے۔اور شاید اس کی وضاحت یوں کی جائے کہ خُدا  نے انجیل کو مسترد کرنے والے پڑوسی کو میرے جیسی ذہانت  نہیں دی تھی۔لیکن ایسی توضیح  بالکل بے بنیاد ہے۔

دوسرا امکان جس پر کسی کو بھی غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کا انجیل  کامثبت ردّعمل دینا  اور اُس کے  پڑوسی کا ایسا نہ کرنا اس لئے ہے کہ جس نے مثبت ردّ عمل دیا وہ بہتر شخص تھا یعنی وہ شخص جس نے درست  اور اچھا انتخاب کیا  اُس نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ اپنے پڑوسی سے زیادہ راستباز تھا۔  اس معاملہ میں جسم نہ صرف کچھ  نہ کچھ مفید ہوا بلکہ اُس نے سب کچھ حاصل  بھی کیا۔ یہ  وہ نظریہ ہے جو بشارتی مسیحیوں کی اکثریت رکھتی ہے یعنی  اُن کے نجات پانے اور دوسروں کے نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے خُدا کے فضل کا  ٹھیک ردّعمل دیاہے جبکہ دوسروں نے  اس کا غلط ردّ عمل دیا تھا۔

ہم یہاں پر غلط ردّ عمل کے مقابلے میں نہ صرف درست ردّ عمل کے بارے میں بات کر سکتے بلکہ   ہم یہاں پر  غیر صحیح ردّ عمل کے بر عکس صحیح ردّ عمل کے بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں۔ بلکہ ہم ایک بُرے ردّ عمل کی بجائے ایک اچھے ردّ عمل کے لحاظ سے بھی بات کر سکتے ہیں۔  اگر میں خُدا کی بادشاہی میں اس لئے شامل ہوں کیونکہ مَیں  نےبُرے ردّعمل کی بجائے اچھا ردّ عمل  دکھایا  ہے  تو پھر میرے  اندر  کچھ ایسا ہے جس پر مَیں فخر کر سکتا ہوں یعنی اُس نیکی کا جس سے مَیں نے خُدا کے فضل کا جواب دیا ہے۔  مَیں کبھی بھی کسی  ایسے آرمینین سے نہیں ملا  جو اِس سوال کا جواب دے جو مَیں  نےابھی اُٹھایا ہے  ’’اوہ ، مِیں اِس لئے ایماندار ہوں کہ مَیں اپنے پڑوسی سے اچھا ہوں۔‘‘ وہ یہ کہنے سے کترائیں گے۔  تاہم اگر چہ وہ اس اطلاق  و مقصد کی تردید کریں گے لیکن نیم پلاجین ازم کا منطق ایسے نتیجے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر درحقیقت حتمی تجزیہ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں اس لئے ایک مسیحی ہوں اوردوسرا مسیحی  نہیں  کیونکہ مِیں نے نجات کی بخشش کا مناسب ردّ عمل  دیا ہے اور دوسرے نے اِسے ردّ کیا ہے  تو پھر   مَیں نے نا قابل ِ مزاحمت منطق سے درحقیقت اچھا جواب دیا اور میرے پڑوسی نے بُرا جواب دیا۔

اصلاحی علم ِ الٰہی سکھاتا ہے کہ یہ بات سچ ہےایک ایماندار درست ردّ عمل دیتا ہےاور ایک
غیر ایماندار  غلط ردّ عمل دیتا ہے۔ لیکن ایک ایماندار کے اچھے ردّ عمل کی وجہ یہ ہے کہ خُدا نے اُسے اپنے
خود مختارچناؤ  میں اچھا ردّ عمل دینے  کے لئے اُس کے دل کی رغبت کو تبدیل کیا ہے ۔مسیح کے لئے  ردّ عمل  کی کوئی نیک نامی مَیں اپنے نام نہیں کر سکتا۔ خُدا نے نہ صرف میری نجات میں پیش قدمی کی ، اُس نے نہ صرف بیج بویابلکہ اُس نے یہ یقینی بنایا کہ بیج   روح القدس کی قدرت سے نئی پیدایش کے ذریعہ میرے دل میں نمود پائے ۔نئی پیدایش بیج کے جڑ پکڑنے اور  بڑھنے کی ضروری  شرط ہے۔ اس لئے اصلاحی علم ِ الٰہی کا محور یہ ہے کہ نئی پیدا ایمان سے پہلے ہوتی ہے۔یہ    نجات کا وہی قاعدہ یا ترتیب ہے جسے تمام نیم پلاجین ازم  کے حامی ردّ کرتے ہیں۔وہ اس خیال کے قائل ہیں کہ اپنی  روحانی موت کی برگشتہ    حالت میں وہ خود ایمان لاتے ہیں اور اِس کے بعد نئے سرے  سےپیدا ہو جاتے ہیں۔  اُن کے خیال میں ایمان لانے کے لئے روح القدس کے ذریعے اُنکے دل کی تبدیلی   کے عمل سے پہلے اُنکا اپنا انجیل کا ردّ عمل ہے ۔ جب ایسا ہوتا ہے تو خُدا کا جلال بٹ جاتا ہے۔ کوئی بھی نیم پلاجین کبھی صداقت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ :’’ صرف خُدا ہی کو جلال ملے‘‘   کیونکہ نیم پلاجین کے لئے شاید خُدا رحیم تو ہو سکتا  لیکن  خُدا کے فضل کے ساتھ ساتھ اُنکے  کام کا ردّ عمل قطعی طور پر ضروری ہے۔  یہاں پر فضل موثر نہ ہوا  اور آخری تجزیہ میں ایسا فضل درحقیقت نجات بخش فضل نہیں ہے۔   دراصل نجات شروع سے آخر تک خُدا کا کام ہے۔ہاں ، مجھے ایمان لانا ہے ، ہاں مجھے ضرور ردّ عمل دینا ہے ، ہاں مجھے ضروری مسیح کو قبول کرنا ۔ مگر اِن میں سے کسی بھی بات  میں ہاں کہنے کے لئے پہلے میرے دل  کو  خُدا کے رو ح القدس  کی خود مختار  اور موثر    قدرت سے تبدیل ہونا ضروری ہے۔


یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔
آر۔سی۔سپرول
آر۔سی۔سپرول
ڈاکٹر آر۔ سی لیگنئیر منسٹریز کا بانی تھا ۔ وہ فلوریڈا میں سینٹ اینڈریو چیپل کا پہلا خادم اور اُستاداور ریفارمیشن بائبل کالج کا پہلا صدر تھا۔ وہ ٹیبل ٹاک میگزین کا مدیر اعلیٰ تھا اورایک سو سے زائد کتب کا مصنف بھی تھا ۔ پوری دُنیا میں پاک صحائف کی لاخطائیت اور خُدا کے لوگوں کے اُس کے کلام پر یقین کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ضرورت کے واضح دفاع کے لیے پہچانا جاتا ہے۔