مارٹن لوُتھر کا انتقال کیسے ہوا؟
26/07/2023
انجیل کی خدمت کے بلاوے کے چھ امتیازی نشان
28/07/2023
مارٹن لوُتھر کا انتقال کیسے ہوا؟
26/07/2023
انجیل کی خدمت کے بلاوے کے چھ امتیازی نشان
28/07/2023

مارٹن لوُتھر ،سچائی کا قلعہ

مارٹن لوُتھر تاریخ کی بڑا سورما تھا۔ کچھ کا یقین ہے کہ وہ دو ہزار سال میں سب سے اہم یورپی شخصیت تھا۔وہ اصلاح کاروں کا سرخیل تھا۔ بے شک سب سے پہلے تو خُدا تھا  جس نے مسیحیت اور مغربی دنیا میں تبدیلی کو جنم دِیا۔ وہ جرمن اصلاح کا غیر متنازعہ رہنما تھا۔ کلیسیائی بدعنوانی اور انحراف کے دِنوں میں  وہ سچائی کا بہادر جیالہ تھا ۔ اُس کی پُر زورمنادی اور قلم نے خالص انجیل کو بحال کرنے میں مدد کی۔ یسوع مسیح اور ممکنہ طور پر آگسٹین کے علاوہ تاریخ میں سب سے زیادہ کتابیں اِس کے بارے میں لکھی گئیں۔ 

لوتھرکا تعلق محنت کش طبقہ سے تھا۔ وہ 10 نومبر 1483 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبےآئیس لیبن میں پیدا ہوا ۔ اِس کا والد ہانس، تانبے کا کان کن تھا جس نے بالآخر  کان کنی، خام دھاتوں کو پگلانے  اور دیگر  مشرکتہ کاروبار سے کچھ دولت حاصل کی۔  اِس کی والدہ متقی لیکن مذہبی اعتبار سے توہم پرست تھیں۔ لوتھر کی پرورش رومن کیتھولک کلیسیا کے سخت نظم و ضبط کے تحت ہوئی تھی۔ اور اِس کے والد نے اِسے ایک کامیاب وکیل بننے کے لئے تیار کِیا۔ اِس مقصد کے لئے اِس نے1498تا 1501 ءمیں آئیسناک  اور پھر  یونیورسٹی آف ایرفرٹ میں فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں بیچلر آف آرٹس اور 1505 میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ 

جب  اکیِس سال کا ہوا تو لوُتھر کی زندگی نے جولائی 1505  میں ایک غیر متوقع موڑ لِیا۔ وہ شدید گرج چمک میں پھنس گیا اور قریب ہی آسمانی بجلی گرنے سے زمین پر گر گیا۔ گھبرا کر اِس نے کان کنوں کے کیتھولک مربّی کو پکارا، مقدس ایناؔ، میری مدد کرو تو میں ایک راہب بن جاؤں گا۔ لوُتھر طوفان سے بچ گیا اور اُس نے اپنے عہد کو پوُرا کیِا۔ دو ہفتے بعد وہ ایرفرٹ میں آگسٹین کے نام سے منسوب خانقاہ میں داخل ہوا۔ اِس کا والد غصے میں تھا کہ لوتھر نے اُس کے تعلیم دلوانے کے مقصد کو برباد کر دِیا تھا۔لیکن لوُتھر اپنے عہد پر کام کرنے کے لئے پُر عزم تھا۔ 

اپنی راستبازی میں گم گشتہ

خانقاہ میں لوُتھر کو اعمال کے ذریعہ سے خُدا کی قبولیت حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اِس نے لکھا:

"میَں اپنے آپ کو دُعا ، روزے، راتوں کو جاگنے،  اپنے آپ کو سردی میں جمانے  سے اذیتیں دی تھیں۔ صرف سردی ہی مجھے مار سکتی تھی۔  میَں ایسا کرنے سے خُدا کو پانے کے علاوہ اور کیا چاہتا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ خُدا میری رہبانیت کی سختی سے پابندی اور  پرہیز گار  زندگی کو دیکھے۔ میَں مسلسل اِسی سوچ میں رہتا اور  حقیقی بت پرستی میں رہتا تھا۔ کیونکہ میَں مسیح پر یقین نہیں رکھتا تھا۔  میَں اِسے ایک شدید اور خوفناک مُنصف ہی سمجھتا تھا جسے قوسِ قزا ح پر بیٹھا ہوا ہی دکھایا گیا تھا۔ "دوسری جگہ وہ کہتا ہے:” جب میَں ایک راہب تھا تو میَں نے پندرہ سال تک روز انہ کی قربانیوں سے اپنے آپ کو بہت تھکا لیِا تھا۔ روزوں، راتوں کو جاگنے، دعائیں کرنے اور دوسرے سخت کاموں سے اپنے آپ کو اذیتیں دی تھیں ۔ میَں سنجیدگی سے قائل  تھا کہ مجھے اپنے اعمال سے راستبازی حاصل کرنی ہے۔ "

1507 میں لوُتھر کو پریسٹ کے عہدے پر مقرر کیِا گیا۔  جب اُس نے پہلی عبادت کروائی، جب اِس نے پہلی بار روٹی اور پیالہ پکڑا تو وہ [رومن کیتھولک ]  ماس کےاجزا کے جوہر کی تبدیلی کے  تصور سے اِتنا دہشت ذدہ ہوا کہ  وہ تقریباً بے ہوش ہو گیا۔وہ اعتراف کرتا ہے۔ "میَں تقریباً ہکا بکا اور دہشت زدہ تھا۔ ” میَں نے اپنے آپ میں سوچا ، میَں کون ہوں کہ اپنی نگاہیں اٹھاؤں یا خُدا کی شان میں ہاتھ اٹھاؤں؟  کیونکہ میَں خاک اور راکھ اور گناہ سے بھرا ہوا ہوں اور میَں زندہ، ابدی اور حقیقی خُدا سے بات کر رہا ہوں۔ اِس خوف نے خُدا کی مقبولیت کے لئے اِس کی جدوجہد کو اَور زیادہ بڑھا دِیا۔ 

1510 میں لوُتھر کو روم بھیجا گیا جہاں اِس نے رومن کلیسیا کی بدعنوانی کا مشاہدہ کیِا۔ وہ سکالا سینکٹا (مقدس سیڑھیوں) پر چڑھا۔  خیال کیِا جاتا ہے کہ یہ وہی سیڑھیاں تھیں جو یسوع مسیح چڑھے تھے جب وہ پیلاطس کے سامنے پیش ہوئے۔ روایات کی روُ سے یہ سیڑھیاں یروشلیم سے روم منتقل کر دی گئی تھیں۔  اور کیتھولک کے کاہنوں کا یہ دعویٰ تھا کہ جو اِن سیڑھیوں پر گھٹنوں کے بل چڑھ جاتا ہے خُدا اُس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ دعائے ربانی کو دہراتے ہوئے  اور ہر قدم کو چومتے ہوئے ، خُدا کے ساتھ صلح کی تلاش میں لوُتھر نے ایسا ہی کیِا۔ لیکن جب وہ اُوپرکی سیڑھی پر پہنچا  تو اِس نے پیچھے مُڑ کر سوچا ” کون جانتا ہے کہ یہ سچ ہے؟” اُس نے خُدا کی قربت کو محسوُس نہ کِیا۔ 

لوُتھر نے 1512 میں یونیورسٹی آف ویٹن برگ سے اپنی ڈاکٹریٹ آف تھیالوجی کی ڈگری حاصل کی اور وہاں  بائبل کے پروفیسر نامزد ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ لوُتھر نے 1546 میں اپنی موت تک اگلے چونتیس سالوں تک تدریسی پوزیشن  کو برقرار رکھا۔  تاہم ایک سوال نے اُسے  ہمیشہ پریشان رکھاکہ ایک گنہگار انسان قدوُس خُدا کے حضوُر کیسے راست  ہو سکتا ہے؟ 
1517 میں جان ٹیٹزل نامی ڈومنیکی جماعت کے ساتھ سفر کرنے والے نے ویٹن برگ کے قریب گناہوں کی معافی کے لئے معافی ناموں کی فروخت شروع کی۔  اِس ظالمانہ کام کا آغاز صلیبی جنگوں کے دوران  کلیسیا کے لئے رقم اکٹھی کرنے کی غرض سے کیِا گیا تھا۔ عام لوگ کلیسیا سے ایک خط خرید سکتے تھے جو مبینہ طور پر کسی مُردہ  عزیز کوپاک کر کے  برزخ سے آزاد کروانے کے لئے تھا۔ روم کو اِس دھوکے سے بہت فائدہ ہوا۔ اِس معاملہ میں آمدنی کا مقصد پوپ لیو دہم کو روم میں ایک نئے سینٹ پیٹرز  کی عظیم عمارت کی ادائیگی میں مدد کرنا تھا۔

اِس ہولناک بدسلوُکی نے لوُتھر کو بر انگختہ کر دِیا۔ اُس نے عزم کیِا کہ اِس معاملے پر عوامی بحث ہونی چاہئے۔ 31 اکتوبر 1517 کو اِس نے ویٹن برگ میں کیسل چرچ کے سامنے والے دروازے پر معافی ناموں کے حوالہ سے پچانوے مقالے چسپاں کر دئیے۔ اِس طرح کے مقالوں کو چرچ کے دروازے پر لگانا اُس وقت کے علمی مباحثہ کا عام رواج تھا۔ لوُتھر اِس بات کے لئے پُر اُمید تھا کہ وہ فیکیلٹی کے درمیان ایک پُرسکوُن بحث کو چھیڑے گا۔ لیکن اِس کی ایک نقل ایک اشاعت خانہ کے ہاتھ لگ گئی۔ اور دیکھا گیا  کہ پچانوے مقالے شائع ہو کر چند ہفتوں میں جرمنی اور یورپ میں پھیل گئے۔ لوُتھر راتوں رات ہیرو بن گیا۔ اِس کے ساتھ ہی بنیادی طور پر اصلاح کا جنم ہوا۔ 

مینارِ تجربہ

یہ ممکن ہے کہ لوُتھر ابھی تک تبدیِل نہیں ہوا تھا۔ اپنی روحانی کشمکش میں لوُتھر رومیوں 1باب 17 آیت میں جنون   کی حد تک  مبتلا ہو گیا۔ کیونکہ اِس میں خُدا کی راستبازی ایمان کے لئے اور ایمان سے ظاہر  ہوتی ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے "راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔”لوُتھر نے خُدا کی راستبازی کو اُس کی فعال راستبازی سمجھ لیا  جس میں خُدا کا انتقام لینے والا انصاف  گناہ کی سزا دیتا ہے۔ اِس لئے لوتھر نے تسلیم کیِا کہ وہ خُدا کی راستبازی سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن ویٹن میں کیسل چرچ کے ٹاور میں بیٹھے ہوئے لوُتھر نے اِس عبارت پر غور کیِا اور اِس کے معنی کو کھوجنے کی کوشش کی۔ وہ لکھتا ہے : 

” اگرچہ میَں نے ملامت کے بغیر ایک راہب کے طور پر زندگی گزاری، میَں نے محسوُس کیِا کہ میَں خُدا کے سامنے ایک انتہائی پریشان کُن ضمیر کے ساتھ ایک گنہگار ہوں۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ میرے کام سے مطمئن تھا۔ میَں نے محبت کی بجائے  گنہگاروں کو سزا دینے والے راست خُدا سے نفرت کرتا تھا۔  اور چُپکے سے ، اگرچہ گستاخی نہیں کی  تو بھی بہت بُربڑاتے ہوئے خُدا سے ناراض ہوا،اور کہا۔گویا واقعی یہ کافی نہیں ہے کہ دُکھی گنہگار ہمیشہ کے لئے اصل گناہ کے ذریعہ سے کھوئے ہوئے ہر قسم کی آفات سے دس احکام کے قانون کے ذریعہ سے کُچلے جاتے ہیں۔ اور انجیل کے وسیلہ سے خُدا  درد میں اضافہ کرتا اور اپنی راستبازی اور غضب سے ڈراتا ہے۔ اِس طرح میَں نے پریشان ضمیر کے ساتھ غصہ کیِا۔ اِس جگہ پر میَں نے پولُس کو کوسا، میَں جاننا چاہ رہا تھا کہ پولُس رسول کیا چاہتا ہے۔     

بالآخر خُدا کے رحم سے رات دِن غور کرنے کے بعد میَں نے اِن الفاظ کے سیاق و سباق پر دھیان دِیا۔ یعنی ” اِس میں خُدا کی راستبازی ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے ” جو راستباز ہے وہ ایمان سے زندہ رہے گا” وہاں میَں سمجھنے لگا  کہ خُدا کی راستبازی وہ ہے جس کے ذریعہ راستباز خُدا کی بخشش یا فضل کے ذریعہ سے زندہ رہتا ہے۔  اور مطلب یہ ہے کہ : خُدا کی راستبازی اِنجیل سے ظاہر ہوئی ہے۔ یعنی وہ غیر فعال راستبازی  جس کے ساتھ مہربان خُدا ہمیں اِیمان کے ذریعہ سے راستباز ٹھہراتا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ "راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ "یہاں میَں نے محسوس کیا کہ اگرچہ میَں نئے سرے سے پیدا ہو چکا ہوں اور کھُلے دروازوں سے آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو چکا ہوں۔ وہاں پوُرے صحائف کا ایک دوسرا رُخ  مجھ پر ظاہر ہوا۔ اِس کے بعد میَں نے یادداشت کے لئے کلامِ مقدس  کو دیکھا۔ میَں نے دوسری اصطلاحات میں بھی ایک ہی مشابہت پائی، جیسا کہ، خُدا کا کام، یعنی خُدا جو کام ہم میں کرتا ہے۔ خُدا کی طاقت جس سے وہ ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ خُدا کی حکمت، جس سے وہ ہمیں عقلمند بناتا ہے۔ خُدا کی طاقت، خُدا کی نجات، خُدا کا جلال۔

لوُتھر کی تبدیلی کا وقت زیرِ بحث ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ 1508 کے اوائل میں ہوا تھا۔ لیکن لوُتھر نے خوُد لکھا ہے کہ یہ 1519 میں ہوا تھا۔ اِس کے دو سال بعد جب اُس نے اپنے پچانوے مقالے شائع کئے تھے۔ اِس سے زیادہ اہم اِس کی تبدیلی کی حقیقت ہے۔ لوُتھر کو احساس ہوا کہ نجات مجرموں کے لئے ایک بخشش ہے نہ کہ اچھے اعمال کرنے والے کا انعام۔ انسان اپنے نیک اعمال سے نہیں بلکہ مسیح کے مکمل کام پر بھروسہ کر کے نجات پاتا ہے۔ اِس طرح سے راستبازی بذریعہ صرف ایمان ہی اصلاح کا مرکزی اصول بن گیا۔ 

پاپائی اختیار پر حملہ

راستبازی بذریعہ صرف ایمان کا تصادم روم کے نظریہ راستبازی بذریعہ ایمان اور اعمال کے ساتھ ہوا۔  یوں پوپ نے خطرناک نظریات کی تبلیغ کرنے پر لوُتھر کی مذمت کی اور اِسے روم بُلایا۔ جب لوُتھر نے انکار کر دِیا تو اُسے 1519 میں لیپزگ میں ایک مناظرے کے لئے بُلایا گیا  جو ایک معروف کیتھولک ماہرِالہٰیات جان ایِکؔ کے ساتھ تھا۔ اِس تنازعہ میں لوتھر نے تصدیق کی کہ کلیسیا بھی غلطی کر سکتی ہے۔ وہی نقطہ جو جان وکلف اور جان ہس نے اُٹھایا تھا۔ 

لوتھر نے آگے کہا  کہ پوپ کا اختیار حالیہ ا ختراع تھی۔ اُس نے واضح کیِا کہ ایسی مذہبی توہم پرستی نقائیہ کی کونسل اور کلیسیائی تاریخ کے بھی  خلاف تھی ۔ یہ  اِس لئے بدترین ہے کہ یہ نوشتوں کے خلاف ہے۔ یہ موقف اختیار کرنے سے لوُتھر نے روم  اور پوپ کی دُکھتی رگ کو چھیڑ دیا یعنی پاپائی اختیار۔

1520 کے موسمِ گرما میں پوپ نے ایک فرمان جاری کیِا۔ ایک حکم نامہ جس پر فرمانِ پوپ یا سُرخ مُہر تھی۔دستاویز کا آغاز یہ کہتے ہوئے ہوا: "اُٹھ اے خُداوند! اور اپنے معاملے کا فیصلہ کر۔ ایک جنگلی سُور نے تیرے تاکستان پر حملہ کر دِیا ہے۔ "اِن الفاظ کے ساتھ پوپ لوُتھر کا ذکر کر رہا تھا۔ ایک بے لگام جانور جو تباہی پھیلا رہا ہے۔ لوُتھر کی اکتالیس تعلیمات کو بدعتی ، مکروُہ یا جھوُٹی سمجھا گیا۔ 

اِس کے ساتھ لوُتھر کے پاس ساٹھ دِن تھے کہ یا تو وہ توبہ کرے یا جلاوطنی کا شکار ہو۔ مارٹن لوُتھر نے سرِعام اِس حکم نامہ کو جلا کر ردِ عمل دکھایا۔ یہ کھُلی بغاوت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔  تھامس لنڈسے لکھتے ہیں۔ "جو جرمنی میں اور درحقیقت پوُرے یورپ میں ہوا ہمارے لئے بیسویں صدی میں اِس کا تصور کرنا شاید ہی ممکن ہو”جب یہ خبر پھیلی کہ ایک غریب راہب نے پوپ کا حکم نامہ جلا دِیا ہے۔” لیکن بہت سے لوگوں نے اِس کی بہت تعریف بھی کی تھی۔ لوُتھر کلیسیا کی نظروں میں ایک نمایاں آدمی تھا۔ 

وامز کی مجلس :  لوُتھر کھڑا ہوا

1521 میں نوجوان مقدس رومی شہنشاہ، چارلس پنجم نے لوتھر کو جرمنی کے شہر  وارمز کی مجلس میں حاضر  ہونے کے لئے کہا ۔تاکہ وہ اپنے پہلے بیان کا باضابطہ انکار کرے۔  منحرف راہب کو اِس کی کتابیں میز پر پوُری طرح سے دکھائی گئیں۔ پھر پوچھا گیا کہ کیا وہ کتابوں میں دی گئی تعلیمات سے واپس منحرف ہوتے ہیں؟ اگلے دِن لوُتھر نے اپنے مشہور الفاظ میں جواب دِیا۔ 

"جب تک میَں کلامِ مقدس کی گواہی یا واضح وجہ سے قائل نہ ہو جاؤں (کیونکہ میَں نہ تو پوپ پر بھروسہ کرتا ہوں نہ ہی  [رومی] کلیسیائی مجالس  پر، کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ اکثر غلطیاں کرتے ہیں) میَں کلامِ  مقدس کا پابند ہوں جن کا میَں نے حوالہ دِیا ہے اور میرا ضمیر خُدا کے کلام کا اسیِر ہے۔ میِں کچھ بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اِس سے پیچھے ہٹوں گا۔ کیونکہ ضمیر کے خلاف جانا نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی درست۔ میَں کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ میَں اِس پہ کھڑا ہوں ۔ خُدا میری مدد کرے۔ آمین۔

یہ انحرافی الفاظ اصلاحی جنگ کی آواز بن گئے۔ 

چارلس پنجم نے لوُتھر کو بدعتی قرار دِیا اور اُس کے سر کی بھاری قیمت رکھ دی۔ جب لوتھر نے وارمز کو چھوڑا تو سزاسے پہلے اِس کے پاس ویٹن برگ تک اکیس دِن تھے۔جب وہ راستے میں تھا ، اِس کے کچھ حامی اِس کی جان کے خوف سے اِسے اغوا کر کے وارٹبرگ کیسل لے گئے۔ وہاں وہ آٹھ ماہ تک عوام کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ قید کے اِس وقت کے دوران، لوُتھر نے عام مروجہ جرمن زبان میں بائبل کا ترجمہ شروع کر دِیا۔ اِس کام کے ذریعہ سے اصلاح کے شعلے اَور بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے  لگے۔

10 مارچ 1522 کو ، لوُتھر نے ایک وعظ میں اصلاح کی بڑھتی ہوئی کامیابی کی وضاحت کی۔ خُدا کے کلام پر مضبوط اعتماد کے ساتھ اُس نے اعلان کیِا: "میَں نے محض خُدا کا کلام سکھایا،کلام کی  منادی کی  اور کلام لکھا۔ اور میَں نے کچھ نہیں کیِا۔ اور جب میَں سو رہا تھا ۔۔۔ اِس کلام نے پاپائیت کو اِس قدر کمزور کر دِیا کہ کسی شہزادے یا شہنشاہ نے کبھی اِس کو ایسا نقصان نہیں پہنچایا۔ میَں نے کچھ نہیں کیِا۔ کلام نے سب کچھ کیِا۔ ” لوُتھر نے دیکھا کہ خُدا نے اُسے سچائی کے منہ کے طور پر استعمال کیِا تھا۔ اصلاح کی بنیاد اُس اور اُس کی تعلیمات پر نہیں بلکہ صرف کلامِ مقدس کی غیر متزلزل بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ 

1525 میں لوُتھر نے کیتھرین وان بورا سے شادی کی۔ یہ حیرت انگیز عورت ایک  فرار راہبہ تھی جو اصلاحی مقصد کے لئے مصروف عمل تھی۔ دونوں نے  شادی کرنے کے لئے اپنے راہبانہ حلف سے انحراف کیِا۔ لوُتھر بیالیس اور کیٹی چھبیس برس کی تھی۔ اِن کے ملن سے چھ بچے پیدا ہوئے۔ لوُتھر کی خاندانی زندگی انتہائی خوشگوار تھی۔ جس نے اُن کی خدمت کے مطالبات کو آسان کر دِیا۔ اپنی زندگی کے آخر تک لیکچر، منادی، تدریس، تحریر اور بحث و مباحثہ کے بھاری بوجھ  کو برقرار رکھا۔ اصلاح کے اِس کام کی اُسے بہت بڑی جسمانی اور جذباتی قیمت چُکانی پڑی۔ ہر جنگ نے اِس میں سے کچھ نکالا اور اِسے کمزور کیِا۔ وہ جلد ہی بیماریوں  کا شکار ہو گیا۔ 1537 میں وہ اِس قدر بیمار ہو گیا کہ اِس کے دوستوں کو ڈر تھا کہ یہ مر جائے گا۔ 1541 میں وہ پھر شدید بیمار ہوا اور اِس بار اِس نے خوُد سوچا کہ وہ اِس دُنیا سے چل بسے گا۔ لیکن وہ ایک بار پھر صحت یاب ہو گیا۔ لیکن وہ اپنے آخری چودہ سالوں میں مختلف بیماریوں سے دو چار رہا۔ دیگر بیماریوں کے علاوہ، وہ پِتے کی پتھری کا شکار ہو گیا اور یہاں تک کہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گیا۔ 

آخر تک وفادار

1546 کے اوائل میں لوُتھر نے اپنے آبائی شہر آئیس لیبن کا سفر کیِا۔اِس نے وہاں منادی کی اور پھر مینز فیلڈ کا سفر کیِا۔ دو بھائی جو اِس شہر میں اِمیر کے عہدے پر فائز تھےلوتھر سے خاندانی اختلاف پہ ثالثی کرنے کو کہا ۔ دونوں کا ملاپ ہوتے ہوئے دیکھ کر لوُتھر کو بہت اطمینان ہوا۔ 

اِس شام لوُتھر بیمار ہو گیا۔ جیسے جیسے رات گُزری لوتھر کے تین بیٹے جانسن، مارٹن اور پال اور کچھ دوست اُس کے پاس کھڑے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اُسے دبایا۔ محترم باپ کیا آپ مسیح اور اُس تعلیم پہ جس کی آپ منادی کرتے رہے ہیں کھڑے ہیں؟ اصلاح کار نے واضح طور پر ہاں میں جواب دِیا۔ وہ 18فروری1546 کے ابتدائی اوقات میں بپتسمہ کے برتن کے سامنے اپنے خالقِ حقیقی سے جا مِلا جہاں اُس نے شیر خوار بچہ ہوتے ہوئے بپتسمہ لیِا تھا۔ لوُتھر کی نعش کو وٹنبرگ لے جایا گیا جہاں ہزاروں سوگواران قطار میں کھڑے تھے اور چرچ کی گھنٹیاں بجائی گئیں۔ اور لوُتھر کو وٹنبرگ کے کیسل چرچ میں منبر کے سامنے دفن کیِا گیا۔ وہی چرچ جہاں اُنتیس سال پہلے اُس نے اپنے مشہور پچانوے مکالوں کو کیِلوں سے جڑا تھا۔ 

اُس کی موت پہ  اُس کی بیوی کیتھرین نے مسیحیت پر اُس کے دیر پا اور یاد گار اثرات کے بارے میں لکھا۔” میرے پیارے آقا جیسے قیمتی آدمی کے کھونے پر کون غمگین اور پریشان نہیں ہو گا۔ اُس نے نہ صرف ایک شہر یا کسی خاص علاقے کے لئے  بلکہ پوُری دنیا کے لئے عظیم کام کئے ہیں۔ "وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ لوُتھر کی آواز اِس کے اپنے زمانے میں یورپ کے پوُرے براعظم میں گوُنجتی تھی۔ اور اُس کے بعد صدیوں سے پوُری دنیا میں گوُنجتی رہی ہے۔ 

سٹیون جے لا سن
سٹیون جے لا سن
ڈاکٹر سٹیون جے لاسن وون پیشن(One Passion Ministries)منسٹریز کا بانی اور صدر ہے ۔ وہ لیگنئیر منسٹریز کے تدریسی ساتھی ، ماسٹرز سیمنری میں ڈاکٹر آف منسٹری پروگرام کے ڈائریکٹر اور انسٹیوٹ آف ایکسپوزیٹوی پریچینگ کا میزبان ہے۔ اُس نے دو درجن سے زائد کتب لکھی ہیں جن میں ’’مارٹن لویڈ جونز کا پُر جو ش وعظ ‘‘ جارج وائٹ فیلڈ کا بشارتی جذبہ‘‘ اور جا ناکس : بے خوف ایمان‘‘ شامل ہیں ۔