
پانچ اہم باتیں جو آپ کو عہد کے علمِ الٰہی کے بارے میں جاننی چاہئیں
26/08/2025پانچ چیزیں جو آپ کو جہنم کے بارے میں جاننی چاہئیں

جہنم کا تصور ایک ایسا موضوع ہے جس پر عمیق غور کرنا ایک دُشوار عمل ہے۔ اِسی لئے بہت سے لوگ، چاہے وہ کلیسیا کے اندر ہوں یا باہر ، اِس خیال کو پُر امن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ آخر ایک محبت کرنے والا خدا لوگوں کو اِس قدر اذّیت ناک جگہ پر کیسے بھیج سکتا ہے؟ تاہم خدا نے ہمیں یہ اِختیار نہیں دیا کہ ہم اِس معاملے میں اُس کا دِفاع کریں اور نہ ہی وہ ایسی نرمی کی اِجازت دیتا ہے۔ درحقیقت، جہنم کے متعلق ہمارا زیادہ تر علم خود محبت کرنے والے یسوع مسیح کی تعلیمات سے آتا ہے، جو پرانے عہدنامے کی تعلیمات کو مزید واضح کرتا ہے۔ یہاں جہنم کے بارے میں پانچ اہم حقائق بیان کیے جا رہے ہیں۔
1۔ جہنم ایک حقیقی مقام ہے جہاں شعوری اذّیت کا کبھی خاتمہ نہ ہو گا۔
معدومیت (Annihilationism) یا مشروط اَبدیت (Conditional Immortality) ایک معروف اور غلط نظریہ ہے جو یہ تصور پیش کرتا ہے کہ شریر آخری عدالت میں نیست و نابود کر دیے جائیں گے اور اُنہیں مرنے کے بعد کسی شعوری اور دائمی سزا کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اِس نظریے کے متصادم، بائبل جہنم کو ایک ایسی جگہ کے طور پر پیش کرتی ہے جہاں شعور کے ساتھ مستقل اذّیت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جہنم کی تکالیف لامتناہی ہیں (یہوداہ 13؛ ،مکاشفہ 10:20)۔ مثال کے طور پر لوقا 16 باب میں امیر آدمی کو عالمِ اَرواح کے درمیان ”عذاب میں مبتلا“ (لوقا 23:16) بیان کیا گیا ہے، جو بقائم ِ ہوش و حواس اپنی بدترین حالت سے واقف ہے اور بلاشبہ وہ اپنے وجود کے خاتمے کو اِس دائمی عذاب میں مبتلا رہنے پر ترجیح دیتا۔
کتابِ مقدس ہمیں ”دُوسراموقع“ ملنے کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔ جہنم میں بسنے والوں کی حالت ہمیشہ کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔ موت وہ لمحہ ہے جب اِنسان کی اَبدی منزل کا تعین ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، یہ خیالات کہ جہنم میں موجود رُوحیں بالآخر فنا کر دی جائیں گی (معدومیت پسندی) یا اُنہیں دُوسرا موقع دیا جائے گا، کسی بھی طور پر کتابِ مقدس کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
2۔ جہنم اِنسان کے لئے دو ممکنہ اَبدی منزلوں میں سے ایک ہے۔
جب کوئی اِنسان مرتا ہے تو اُس کا جسم دفن کر دیا جاتا ہے اور اُس کی رُوح فوراً خدا کے حضور پہنچائی جاتی ہے جہاں سے اُسے یا تو فردوس میں داخل کر دیا جاتا ہے یا پھر جہنم میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ویسٹ منسٹر اِقرار اُلایمان 32۔1 اِس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
”اِنسانی بدن مرنے کے بعد واپس خاک میں چلا جاتا اور فنا پذیری کا شکار ہو جاتا ہے ، لیکن اُس کی رُوح ، جو نہ مرتی ہے اور نہ سو جاتی ہے بلکہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے، فوراً اُس خدا کی طرف لوٹتی ہے جس نے اُسے بھیجا تھا۔ راست بازوں کی رُوحیں، جو اُس وقت کامل تقدیس میں داخل ہو چکی ہوتی ہیں، بلند ترین آسمانوں میں قبول کی جاتی ہیں، جہاں وہ نور اور جلال میں خدا کا دِیدار حاصل کرتی اور اپنے بدن کی کامل نجات کی منتظر رہتی ہیں۔ جبکہ شریروں کی رُوحیں جہنم میں جھونک دی جاتی ہیں جہاں وہ عذاب اور گہری تاریکی میں رہتی ہیں، جہاں وہ اُس عظیم دِن کی عدالت کے لئے محفوظ رکھی جاتی ہیں۔ اِن دو مقامات کے علاوہ ، جہاں رُوحیں بدن سے جُدا ہو کر جاتی ہیں، کتابِ مقدس کسی اور جگہ کا ذِکر نہیں کرتی“۔
روزِمحشر، ہر رُوح اپنے جسم سے دوبارہ جا ملے گی۔ اُس وقت راست باز ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو چکے ہوں گے(ویسٹ منسٹر اِقرار اُلایمان 32۔1)۔ ایک بار پھر ، کتابِ مقدس اِن دو مقامات کے علاوہ، جہاں جی اُٹھنےکے بعد رُوحیں اپنے اجسام کے ساتھ دوبارہ یکجا ہوں گی، کسی اور جگہ کا ذِکر نہیں کرتی۔
3۔ جہنم وہ جگہ ہے جہاں خدا کا غضب موجود ہوتا ہے۔
دوزخ کے ”اَبدی عذاب“ کو ویسٹ منسٹر کیٹی کیزم 33۔2 میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں خداوند کے حضور سے اور اُس کی قدرت کے جلال سے دُوری ہمیشہ کی ہلاکت کی سزا مقرر ہے۔ بیشتر اوقات دوزخ کو خدا کی موجودگی سے علیحدہ مقام سمجھا جاتا ہے، لیکن خدا ہر جگہ موجو د ہے، ایسا نہیں کہ وہ کسی مقام پر موجود نہ ہو۔ درحقیقت کلامِ مقدس جہنم کو خدا کی غیر موجودگی نہیں بلکہ اُس کے قہر بھری موجودگی، اُس کے مسلسل غضب اور اِنتقامی عدالت کا مقام قرار دیتا ہے۔ ہمارا خدا جو ”بھسم کرنے والی آگ“ ہے (عبرانیوں 29:12) شریروں پر اپنے ”غضب اور قہر“ کو نازل کرے گا (رومیوں 8:2) اور ہ ہمیشہ کے لئے اُس کے غصے اور سزا کا سامنا کریں گے۔
اگر یہ تصور کسی مسیحی کے لئے ہولناک معلوم ہوتا ہے تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کے اُس پہلو سے مطابقت نہیں رکھتا جس کا تجربہ ہم، اُس کے پیارے فرزند ہونے کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ دوزخ میں شریر جس حقیقت کا تجربہ کریں گے وہ خدا کا غضب ہے، جسے مسیح خداوند نے اپنے لوگوں کے لئے برداشت کیا، لیکن جنہوں نے اُس نجات کو حاصل نہیں کیا، اُن کے لئے دوزخ کی اذّیتیں اُن علامتی بیانات سے کہیں زیادہ اَلمناک ہوں گی جو بائبل میں مذکور ہیں، کیوں کہ کوئی بھی علامت حقیقت کی مکمل ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ شاید بائبل میں دوزخ کے لئے دی گئی علامتی تفصیلات اِس لئے ہیں کہ ایک مقدس خدا کی طرف سے نہ ختم ہونے والی سزا کی ہولناکی اَلفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
4۔ دوزخ میں جانے والے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے خود اِسے اپنے لئے چُنا۔
دوزخ اُن لوگوں کی آخری منزل ہے جنہوں نے نور کی بجائے تاریکی سے محبت کی (یوحنا 18:3-21)۔ بظاہر یہ اُس دولت مند کی فریاد سے متصادم معلوم ہو سکتا ہے جو پکار اُٹھا: ”اور اُس نے پکار کر کہا اے باپ ابرہام! مجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سِرا پانی میں بھگو کر میری زُبان تر کرے کیوں کہ مَیں اِس آگ میں تڑپتا ہوں“ (لوقا 24:16)۔ لیکن دولت مند آدمی نے اچانک سے خدا کی آرزُو نہیں کی، بلکہ محض اُس کے عذاب سے رِہائی کی اپیل کی۔
کیلونیت کے ماننے والے اِس حقیقت کو بخوبی تسلیم کر سکتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کہ ہر شخص بالآخر وہی پاتا ہے جس کااُس نے آزادانہ طور پر اِنتخاب کیا ہوتا ہے، یا تو رُوح القدس کی تجدید کے وسیلہ سے خدا کی عبادت یا پھر خدا کی مخالفت اور لعنت۔ جو جہنم میں ہوں گے، وہ اُس اَنجام کو نااِنصافی نہیں کہہ سکیں گے، کیوں کہ وہ بالکل وہی بدلہ پائیں گے جس کے وہ مستحق تھے اور جس کا اُنہوں نے خود اِنتخاب کیا تھا۔ بائبل میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا کہ دوزخ ایک طرف خدا کا شریروں پر عذاب بھی ہے اور دُوسری طرف وہی جگہ ہے جسے اِنسانوں نے خود چُنا۔ یوں دوزخ درحقیقت اِس بات کی آخری منزل ہے کہ اِنسان کو اُس کی اپنی خواہشوں اور نفس کی گمراہی کے حوالے کر دیا جائے (رومیوں 24:1)۔
5۔ دوزخ خدا کی ذات کے عدل و راست بازی کا عین تقاضا ہے۔
جہنم خدا کے کردار پر کوئی سیاہ دھبہ نہیں، نہ ہی یہ اُس کے جلالی منصب پر کوئی شرمندگی کا باعث ہے جو اُس کی حقیقی ذات سے متصادم ہو۔ جی نہیں! جہنم خدا کی مقدس عدالت سے مکمل ہم آہنگ ہے، جو تقاضا کرتی ہے کہ گناہ کی سزا مجرم کی خطا کے مطابق دی جائے۔ خدا کی عدالت اور اُس کی رحمت ایک دوسرے کی متصادم صفات نہیں ہیں، بلکہ دونوں کامل توازن کے ساتھ اُس کی اُلوہیت میں جلوہ گر ہیں۔ فردوس اور جہنم اِسی مقدس ہم آہنگی کا اِظہار ہیں۔ اگر خدا منصف نہ ہوتا تو نظریہ معدومیت اور نظریہِ عالمگیر یا مرنے کے بعد زندگی کے دیگر غیر بائبلی نظریات ممکن ہو سکتے تھے، مگر بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ خدا کی عدالت اور اُس کی راست بازی اٹل ہیں۔
خدا کی رحمت اور عدالت پر اُس کے بیٹے کے کام میں غور کریں۔ اگر دوزخ کا وجود نہ ہو تو کیا مسیح کی قربانی رائیگاں نہ چلی جائے؟ اگر شریر نیست و نابود کر دیئے جائیں یا کسی طور پر فردوس میں داخل ہو جائیں تو کیا مسیح کی صلیبی قربانی بے معنی نہ ہو جائے؟ درحقیقت، دوزخ کا اِنکار نہ صرف خدا کے کردار سے متصادم ہے بلکہ یہ خدا کے بیٹے کو پامال کرنے کے مترادف بھی ہے (عبرانیوں 29:10)۔ خدا کا کردار یعنی اُس کی عدالت اور اُس کی بھلائی یہ تقاضا کرتی ہے کہ گناہ کی مکمل سزا ہمیشہ کے لئے شریروں پر نافذ کی جائے۔
اگرچہ جہنم کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن شاید ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بائبل میں دوزخ کی خوفناک تفصیلات درحقیقت مسیح کے فضل کو جِلا بخشنے کے لیے بیان کی گئی ہیں، وہی فضل جس نے ہمیں اِس اَنجام سے محفوظ کیا۔ ساتھ ہی یہ ہمیں جوش و جذبہ عطا کرتی ہیں کہ ہم دُوسروں کو خبردار کریں کہ وہ حقیقی اِیمان اور توبہ کے وسیلہ سےمسیح کی طرف رجوع کریں اور دوزخ کی اذّیتوں سے نجات پائیں۔
یہ مضمون ”پانچ حقائق جو آپ کو معلوم ہونے چاہئیں“ کے مجموعے کا حصہ ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔