
بیوی کے ساتھ بے لوث (مخلص) زندگی گزارنا
03/03/2025
روحیں جیتنے والا دانش مند ہے
13/03/2025ہم کلیسیا کب چھوڑیں

بہت سے مسیحیوں نے خود سے یہ سوال پوچھتے ہوئے اِضطراب کا سامنا کیا ہے کہ’’مجھے اپنی کلیسیا کب چھوڑنی چاہئے؟‘‘ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس میں کئی عوامل شامل ہیں۔ سادہ الفاظ میں اِس سوال کا کوئی عام یا قابلِ فہم جواب نہیں۔ لیکن مَیں اِس مضمون میں اِس سوال کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کروں گا۔
مضمون کے آغاز سے پہلے لازم ہے کہ ’’کلیسیا چھوڑنے‘‘ کا مطلب واضح کیا جائے۔ یہاں ایک مفروضہ یہ بھی ہےکہ کلیسیائی رُکنیت بائبلی ہے اور مسیحیوں کے لئے ضروری ہے۔ اگرچہ ہم کلیسیائی رُکنیت کی ضرورت پر تفصیلاً بحث نہیں کریں گے، لیکن یہ کہنا کافی ہے کہ اگر آپ کسی کلیسیا سے وابستہ ہی نہیں، تو آپ اُسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا، بائبلی کلیسیائی ضابطے کے تحت، صرف تین ایسے طریقے ہیں جن سے ایک مسیحی اپنی کلیسیا چھوڑ سکتا ہے:جسمانی موت، کلیسیا بدری، یاکلیسیائی رُکنیت کی منتقلی ۔ اِس مضمون میں جسمانی موت یا کلیسیا بدری کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔لہٰذا، ’’کلیسیا چھوڑنے‘‘ کا مطلب اپنی رُکنیت کسی دوسری کلیسیا میں منتقل کرنا ہے۔ لیکن ایسا کرنا کب مناسب ہے؟
اِس سوال کامختصر ترین جواب یہی ہے کہ جب تک آپ کسی ایسی جگہ منتقل نہیں ہو جاتے، جہاں آپ کے لئے رُکنیت جاری رکھناناقابلِ عمل ہے،تو تب تک آپ کو اپنی حقیقی کلیسیا نہیں چھوڑنی چاہئے۔لیکن ہمیشہ بعض ایسی وجوہات، مستثنیات یا ایسے حالات ہوتے ہیں جواِس سوال کا قابلِ فہم جواب دینے سے روکتے ہیں۔ تو بھی ایک بنیادی اصول ہے کہ عمومی طور پرایک حقیقی کلیسیا کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ لیکن اگر آپ کی مقامی کلیسیا ایک حقیقی کلیسیا کے بنیادی نشانات دِکھانے میں ناکام رہتی ہے ، تو پھر آپ کو اِسے چھوڑنے پر غور کرنا چاہئے۔
بیلجک اقرارلایمان حقیقی کلیسیا کی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے کلیسیا چھوڑنے کے جائز اسباب کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
ایک حقیقی کلیسیا کی پہچان یہ ہے کہ وہاں اِنجیل کی منادی دُرُست طور پر کی جاتی ہے؛ وہاں مسیح کی طرف سے مقررہ پاک رسوم ادا کی جاتی ہیں، اور وہاں کلیسیائی ضابطے پر عمل کیا جاتا ہے (مضمون ۲۹)۔
ایک حقیقی کلیسیا درحقیقت مستند عقائد، پاک رسوم کی ادائیگی اور کلیسیائی ضابطے سے نشان زدہوتی ہے۔ یہ تین بنیادی عوامل مسیحیوں کو فیصلہ کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ آیا ،اُنہیں اپنی موجودہ کلیسیا میں رہنا چاہئے یا اُس سے الگ ہو جانا چاہئے۔
یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ ابدیت کے علاوہ اِس موجودہ دُنیا میں کوئی کلیسیا ایسی نہیں جو مکمل طور پر غلطیوں یا خطاؤں سے پاک ہو۔ ویسٹ منسٹر اقرارالایمان کے مطابق ’’آسمان کے تلے سب سے پاک ترین کلیسیا بھی آمیزش اور غلطی کی آزمائش کا شکار ہے‘‘ (باب ۲۵ سوال ۵)۔ لہٰذا،کلیسیا چھوڑنے کا فیصلہ ہرگز اِس بات پر مبنی نہیں ہو نا چاہئے کہ شایدکوئی ایسی کلیسیا ہے جو بالکل کامِل ہے اور مجھے اُس میں شامل ہو جانا چاہئے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی کلیسیا کامِل نہیں۔
اگرچہ، ہم کلیسیاؤں کو کاملیت کے معیار پر قائم نہیں رکھ سکتے، لیکن یہ تسلیم کرنا جائز ہے کہ بعض اوقات کلیسیائیں ایسی غلطی میں مبتلا ہو جاتی ہیں جو کلیسیا کے بنیادی پہلوؤں پر حملہ کرتی ہیں۔اِس لئے کلیسیا کو اپنے بیان کردہ اقرارالایمانی معیار ات کے مطابق تعلیم دینی چاہئے اور وعظ پیش کرنا چاہئے، چاہے وہ ویسٹ منسٹر اقرارالایمان ہو،سہ رُخی اتحاد( the three Forms of Unity) یا ۱۶۸۹ لندن بپٹسٹ اقرارالایمان،یا کوئی بھی اَور اقرارالایمان جسے تاریخ کی جانچ نے کتابِ مقدس کے مطابق سچا ثابت کیا ہے۔ کسی کلیسیا میں اقرارالایمانی معیارات نہ ہونے کے باعث یہ تعین کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کہ آیا وہ کلیسیا اپنے الہٰیاتی عقائد کے مطابق سچی ہے یا نہیں۔ غالباً، ہر مسیحی بدعتی گروہ نے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ، ’’مَیں صرف وہی سکھاتا ہوں جو بائبل واقعی بیان کرتی ہے۔‘‘ قوی اور آزمودہ اقرارالایمان ایک سچے معیار کے طور پر ہوتا ہے جس کے ذریعے سے کلیسیا کی تعلیم کو پرکھا جا سکتا ہے۔ کہ آیا یہ خاص کلیسیا اِس معیار کے مطابق سچائی سکھانےمیں مخلص ہے یا نہیں۔اگر کلیسیا خالص نظریے کی منادی نہیں کر رہی ، تو یقیناً، کلیسیاسے الگ ہونے کا وقت آگیا ہے۔
واضح رہے کہ ہم کلیسیا ئی تعلیم اور وعظ سے کاملیت کی توقع نہیں رکھتے۔ ایک پاسبان جو کبھی کبھار کسی نقطہ نظر کو غلط بیان کرتا یا اپنی تعلیم میں غلطی کرتا ہے، تو ایسی صورتِ حال میں کلیسیا کو اپنے پاسبان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے نہ کہ اُسے ترک کر دینا چاہئے۔ اِس لئے اپنی کلیسیا کو جلد بازی میں مت چھوڑیں، کیوں کہ آپ کا پاسبان کامِل نہیں۔ لیکن ایک پاسبان یا بزرگ جو مستقل طور پر اپنے اقرارالایمانی معیارات کا تضاد کرتا ہے وہ ایک سنگین مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے پہلے اپنے کلیسیائی بزرگان اور کلیسیائی فرقے کی احتسابی ڈھانچے کی کمیٹی کے ساتھ مل کر اِس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔اگر اِن رہنماؤں سے تسلی بخش جواب نہ ملے تو شاید کلیسیا کو چھوڑنے کا وقت آگیا ہے۔ یہی معیار پاک رسوم کی ادائیگی کے دُرُست طریقے کے حوالے سے بھی لاگو ہونا چاہئے۔
شاید کلیسیا نہیں،بلکہ آپ کے الٰہیاتی عقائد تبدیل ہو گئے ہوں۔ آپ کو اِس بات کا تعین کرنا چاہئے کہ عقائد کی یہ تبدیلی کیا اِتنی اہم ہے جو آپ کی کلیسیائی رفاقت میں مسلسل اختلاف کا سبب بن رہی ہے۔ اور اگر تبدیلی معمولی ہے تو آپ اِس امتیاز کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ اور اگر عقائد میں تبدیلی واقعی اہم ہے، تو آپ کو اپنے کلیسیائی بزرگو ں سے ملنا چاہئے اور عاجزی کے ساتھ اِس تبدیلی کا اشتراک کرنا چاہئے۔ آپ کو اِس کلیسیائی ملاقات میں اِس سوچ کے ساتھ جانا چاہئے کہ ہو سکتا ہے آپ کے نئے نظریات غلط ہوں۔ آپ کو خداوند میں اپنے کلیسیائی حکام کے سامنے فروتنی سے پیش ہونا چاہئے۔ لیکن اگر آپ اپنے نقطہ نظر کی تبدیلی میں بائبل کے قائل ہیں، تو آپ کو احترام کے ساتھ کسی ایسی ایمان دار کلیسیا میں منتقلی کی درخواست کرنی چاہئے جو آپ کے نظریات کے مطابق ہو۔ آپ کو آزادانہ طور پریہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ سابقہ کلیسیا آپ کو وہ تعلیم دینے میں ایمان دار تھی جو اُس نے سکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ ایسے حالات میں اپنی سابقہ کلیسیا سے الگ ہو نا، اُس کی بے عزتی کا سبب نہیں ٹھہرتا۔ شاید کلامِ مقدس کی تعلیم، پاک رسوم کی ادائیگی، یا کلیسیائی ضابطے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ شایدآپ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو کلیسیا سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا، اوراِس لئے آپ سوچتے ہیں کہ سڑک کے اُس پار ایک بہت پُرکشش اور متحرک نئی کلیسیاقائم ہوئی ہے۔ شاید آپ کو لگتا ہے کہ وہ نئی کلیسیا آپ کے خاندان کو کلیسیائی سرگرمیوں میں زیادہ شامل کرے گی۔ اگر آپ کی صورتِ حال ایسی ہے، تو آپ کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کلیسیا میں نہیں بلکہ آپ میں ہے۔شاید کلیسیا سے آپ خدا پرست لوگوں(worshiper) کی حیثیت سے نہیں، بلکہ سامان کے صارف (consumer of good) کے طور پر رجوع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کولگتا ہے کہ ایک حقیقی کلیسیا میں آپ کی ’’ضروریات‘‘ پوری نہیں ہو رہیں، تو عین ممکن ہے کہ آپ غلط ’’ضروریات ‘‘ کے بارے میں فکرمند ہیں۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔