خُدا کی بادشاہ کا مقام
21/03/2024
مسیح کی بادشاہی کی نشوونما
09/04/2024
خُدا کی بادشاہ کا مقام
21/03/2024
مسیح کی بادشاہی کی نشوونما
09/04/2024

بادشاہی کی ملکیت کا حصول

کلیسیاء کے بزرگ جیروم نے ایک دفعہ کہا ، ’’ انبیاء میں سے کسی نے بھی مسیح کے بارے میں اِتنےواضح طور پر بات نہیں کی جتنی کہ دانی ایل نبی نے کی ہے ‘‘ ۔ اِس خیال پر عہد حاضر کے مُبشِرانِ انجیل کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔اِس کتاب کے آخری حصہ میں پایا جانے والا کَشفی رویاکا نظریہ غیر واضح دکھائی دیتا ہے ،اور موجودہ واقعات کے بارے میں پیش گوئیوں کا متعدد بار غلط اطلاق زیادہ وضاحت فراہم نہیں کرتا ہے ۔تا ہم ، اُمید ختم نہیں ہوئی ہے ؛اگر ہم بے چینی سے غلط تاریخی اداکاروں اور سلطنتوں کو درست کرنے سے گریز کریں ، تو اِبن آدم کا جو تصور (دانی ایل ۷باب ۱۳تا۲۲آیات ) میں بیان کیا گیا ہے ، مسیح یسوع کے ذریعہ سے خُدا کی ابدی اور آفاقی بادشاہی کی وراثت کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے ۔یہ ہمیں کچھ ایسی قابل ِ ذکر باتیں جیسا کہ وہ کون ہے اور وہ کیسے خُدا کی بادشاہی کو حاصل کرتا ہے۔۔۔اِبن آدم کیسے خُدا کے مُقدسوں کو اِس بادشاہی میں شامل کرتا ہے ، کے بارے میں بھی بتاتی ہیں ۔

دانی ایل ۷باب ۱۳تا۲۲آیات میں اِبن آدم کا ظہور ایک بے ترتیب بادشاہی کا آغاز کرتا ہے ۔اِبن آدم کی آمد سے پہلے ،دانی ایل کی رویا میں دنیا کی منحرف سلطنتوں کو خوفناک عفریت کے طو ر پر بیان کیا گیا ہے ، جو کہ مناسب انسانی حکمرانی کا بِگاڑ ہے کیونکہ انہوں نے خُدا کی حاکمیت کو مسترد کر دیا ہے ۔تا ہم،تخت نشین قدِیمُ الایام اُن کے اختیا ر کو برقرار رہنے کی اجازت دیتا ہے ۔لیکن صرف ایک خاص وقت کے لئے ۔ عدالت کے دوران، وہ سلطنت ایک پُر اسَرار شخصیت کو منتقل کرتا ہے جو کہ الہٰی خصوصیات کی حامل ہے ۔وہ جو آسمان کے بادلوں پر سواری کرتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن وہ انسانی خصوصیات بھی رکھتاہے ۔وُہ ’اِبن آدم کی طرح ہے‘ جو اُس کی بحال کی گئی سلطنت میں خُدا کے مقدسوں کو شامل کرتا ہے ۔دانی ایل بڑی بے چینی سے اور جاننے کی درخواست کرتا ہے ، لیکن محدُود ،دُنیاو ی سلطنتوں پر قائم رہنے کی بجائے ، یہ جاننا کافی ہے کہ اِبن آدم کی بادشاہی قریب ہے ۔

خُدا کی بادشاہی جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی تھی ظہور پذیر ہوتی ہے ،اور اِبن آدم ، مسیح بڑے شاندار انداز میں اس کی ملکیت حاصل کرتا ہے ۔وہ اَزل سے موجود خُدا کا کلمہ ہے (یوحنا ۱باب ۱آیت ) جو اکیلا آسمان سے اُترتا ہے (۳باب۱۳آیت) اور ایک سلطنت قائم کرتاہے،’ جو اِس دنیا کی نہیں ‘ (۳۶باب۱۸آیت) بلکہ کاملیت اور استقلالِ قیام میں ممتاز ہے ،اور جس کی تصدیق حیر ت انگیز نشانیوں سے ہوتی ہے (دیکھیں مرقس -۱تا۲ابواب) ۔تاہم ، اگرچہ وہ داؤد کے تخت کا جائز وارث ہے (متی۱باب ۱آیت)۔۔۔لوگوں پر حکومت کرنے اور اُن کا انصاف کرنے کے لئے خُدا کا مقرر کردہ انسانی نمائندہ ہے (زبور 2؛ لوقا۳باب ۲۲آیت)۔۔۔وُ ہ موت تک فرمانبردار رہنے ، اور پَست ہونے کے وسیلہ سے اس بادشاہی کو حاصل کرتا ہے ، جو کہ اُس طریقہ کار کے مطابق نہیں ہے جس طریقے سے دنیا کے بادشاہ سلطنت حاصل کرتے ہیں (فلپیوں۲باب ۸آیت) مقدسوں کے لئے اُس کی ثالثی ، تباہی اور بغاوت کے بندھن کو توڑتی ہے ،اور اِبن آدم فاتخانہ طور پر مُردوں میں سے زندہ ہوتا ہے ،اور وہ خُدا کے دہنے ہاتھ اس آفاقی اور ابدی تخت پر جا بیٹھا جہاں پر وہ آسمان اور زمین کا کُل اختیار حاصل کرتاہے (متی۲۸باب۱۸آیت)

لیکن مقدسوں کا کیا۔۔۔۔۔کیسے وہ مسیح یسوع کی اِس بادشاہی کی حاکمیت میں جس کا آغاز کیا گیا ہے لیکن تکمیل باقی ہے ، شامل ہوتے ہیں ؟خُدا کے لوگ اب اس حکمرانی کا آغاز کرتے ہیں ،کیونکہ ’وہ اس کے ساتھ آسمانی مقاموں میں بیٹھے ہیں ‘  (افسیوں۲باب ۶آیت)، آزاد کیے گیے فاتحین قربانی کی اطاعت اور گواہی کے وسیلہ سے اس بادشاہی کو وسعت دے رہے ہیں (دیکھیں۸باب ۳۷تا۳۹آیات) تا ہم ، مقدسوں کے لئے دانی ایل کی رویا کا  مکمل طور پر پورا ہونا ،اُس آخری عدالت اور  تکمیل کا منتظر ہے  ،جب مسیح یسوع یہ وعدہ کرتا ہے کہ ’وہ جو دکھ سہتا ہے اس کے ساتھ بادشاہی بھی کرے گا ‘ (۲۔تیمِتھیُس۲باب۱۲آیت)اور  ’وُہ جو غالب آئے میں اُسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھاؤنگا ‘                    (مکاشفہ۳باب۲۱آیت)  مسیح یسوع کی بادشاہی کی ابدی حکمرانی میں شمولیت کافی واضح نظری آتی ہے ۔شاید جیروم ٹھیک کہتا تھا ۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔

جسٹن ای۔ ایسٹراڈا
جسٹن ای۔ ایسٹراڈا
ریڈِیمر پریسبیٹرین چرچ آف کِنگز ویل ،Mdکے سینئر پاسٹر ہیں