خُدا کی بادشاہی اورپاک نوشتے
21/03/2024
بادشاہی کی ملکیت کا حصول
23/03/2024
خُدا کی بادشاہی اورپاک نوشتے
21/03/2024
بادشاہی کی ملکیت کا حصول
23/03/2024

خُدا کی بادشاہ کا مقام

کسی بھی بادشاہ کا اختیار اُس کی سلطنت کی سرحدوں تک محدوو ہوتا ہے۔اِس اُصول کو مسیح کی بادشاہی پر لاگو کرنا ایمان اور بصارت کے درمیان تناؤ پیدا کرتا ہے۔بائبل بیان کرتی ہے کہ زمین اور اُس کی معمُوری خُداوند ہی کی ہے۔(۲۴زبور۱آیت)،  اِس کے باوجود دُنیا خُدا کی حاکمیت کےخلاف ہے، خُدا اور اُس کی خود مختار حاکمیت سے الگ ہونے کے لئے پُر عزم ہے (۲زبور۳ آیت )۔اِس بغاوت کے باوجود ،خُدا فرماتاہے کہ میں اپنے ممسُو ح بادشاہ کو کوہِ مُقدّس صِیّون پر بٹھاونگا۔(آیت 6) مسیح کی مصالحانہ حکمرانی میں اِیمان ،جو کہ بحیثیتِ بادشاہ ہم کو اپنے تابع کرتا اور ہم پر حُکمرانی کرتا ، اور ہمارے اور اپنے دشمنوں پر   غالب آتا ہے  (ویسٹ منسٹرمختصر کیٹیکیزم سوال ۲۶ )یہ بات ا ُس کی بادشاہ ہی کے باشندوں کے لئے باعث راحت ہے۔تاہم ، کلام مقدس ،مسیح یسوع کی اپنی کلیسیاء پر روحانی حکمرانی سے پَرے کا اظہار بھی کرتا ہے،جس کاوہ خُود مختار حاکم ہے (افسیوں۱باب۲۲آیت)، (کُلسیوں  ۱باب۱۸آیت)

لہٰذا اکثر بائبل مسیح کی حکومت کو جغرافیائی لحاظ سے بیان کرتی ہے ۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک ہے۔دراصل ، زمین کی انتہا تک ہے (۷۲زبور ۸آیت؛زکریاہ ۱۴باب ۹آیت ) ۔ یہ آیات اُس دن کے بارے میں دن بیان کرتی ہیں  جب خُداوند ساری دُنیا کا بادشاہ ہو گا ۔دانی ایل اُس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب تمام مملکتیں ٹکڑے ٹکڑے کردی جائیں گی ۔ اور آسمان کا خُدا ایک ایسی سلطنت برپا کرے گا جو تا اَبد نیست نہ ہو گی ۔(دانی ایل ۲باب  ۴۴آیت )اِس جغرافیائی جامعیت کو اس ابدی حالت میں تبدیل ہوتے دیکھنا بہترین ہے جب خُدا نیا آسمان اور نئی زمین کو تخلیق کرتا ہے جو کہ اُس پرانی ،گناہ آلودہ تخلیق کو تبدیل کرتی ہے ۔باغ عدن جیسی نئی  دنیا  جس میں راستبازی بسی ہوئی ہے(یسعیاہ ۶۵باب ۱۷آیت؛  ۲۔پطرس ۳باب ۱۳آیت؛مکاشفہ ۲۱باب  ۱آیت )  ۔ غالباً ،اِس مستقبل کی بادشاہی کا اہم ترین خاصہ بادشاہ کا  اپنے لوگوں کے درمیان سکونت کرنا ہے (زکریاہ۲باب۵آیت،۱۰تا۱۱آیات)۔ اگرچہ ، آج کلیسیاء کو مخالفت کا سامنا ہے لیکن اس کے پاس ایک مبارک اُمید ہے کہ دُنیا کی تمام بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی لیکن خُدا کی بادشاہی ہمیشہ  رہے گی ۔اَب کلیسیاء کشمکش کا شکار ہے لیکن تب فتح مند ہوگی اور بادشاہ کی حضوری میں اَمن اور راستبازی کا حقیقی مقام حاصل کرے گی ۔

پُرانے عہد نامہ میں موعودہ سر زمین پر دی جانے والی توجہ بادشاہی کے علمِ الہٰیات کے لئے سبق آموز ہے ۔پُرانے عہد نامہ میں علمِ الہٰی کا زیادہ تر حصہ اسرائیل کی فتح ،وراثت ،بے دخلی اور اِس زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے کے متعلق ہے ۔زمین کا ابتدائی وعدہ ، خُدا کے ابرہام کے ساتھ عہد کا لازمی حصہ تھا ۔ خُدا نے ابرہام سے جغرافیائی لحاظ سے دریائے مصر سے لیکر دریائے فرات تک پھیلی ہوئی سر زمین کا وعدہ کیا( پیدائش ۱۲باب۷آیت)  ؛۱۵باب۱۸آیت؛۸باب۱۷آیت)۔     اگرچہ خُدا نے ابرہام کو ضمانت دی کہ یہ سرزمین اس کی نسل کی  دائمی ملکیت ہو گی ۔ابرہام  اِس کی اُمید علامتی انداز سے کچھ زیادہ  رکھتا تھا کیونکہ اس کے پاس صرف ایک آ غاز تھا (پیدائش ۱۳باب ۱۷آیت اور 23آیت )۔ ابرہام جانتا تھا کہ زمین کے اس وعدے میں (گندگی )  سے کچھ زیادہ تھا ۔کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک بہتر آسمانی ملک کا مُشتاق تھا (عبرانیوں ۱۱باب ۱۶آیت ) ۔  ایک لحا ظ سے ،ابرہام کا تجربہ کلیسیاء کا آئینہ دار ہے۔زمین پر اس کا ’’موجودہ ‘‘  قبضہ آنے والی حقیقت کے برابر نہیں ہے ۔زمین کے متعلق یہ علمِ الہٰی خُدا کی بادشاہی کی عملی مثال کے طور پر کام کرتا ہے ۔

اوّل :زمین کا وعدہ کیا گیا ،اگرچہ وہ وعدہ یقینی تھا لیکن اس وعدہ کا  جغرافیائی جزو تھا جو کہ نہ صرف ابرہام بلکہ اُس کی اولادسے بھی پورا نہ ہوا۔

چار سو سال سے زیادہ عرصہ تک ،ابرہام کی اولاد ایک پردیسی ملک کی رعایا تھی جس کے قدیم وعدے کے وارث ہونے کا امکان نہیں تھا۔لیکن خُدا نے عہد کی تجدید کی (خروج باب ۸آیت،  ۵باب۱۳آیت) اَور قوم  نے اپنی وراثت کی طرف پہلا قدم اُٹھایا ، اپنے باپ ابرہام کی طرح ،اُنہوں نے بھی اِس وعدے کی تکمیل دیکھے بغیر بھروسہ کیا ۔کیونکہ وہ نسل جس نے مصر چھوڑا ،کبھی اُردن کو پار نہ کیا ۔آج کلیسیاء کے لئے بھی ایسا ہی ہے ۔ایمان کے وسیلہ سے ہی ہم جانتے ہیں کہ حلیم زمین کے وارث ہونگے (متی ۵باب ۵آیت )     اور ابرہام کی روحانی نسل اس زمین کی وارث ہوگی (رومیوں ۴باب  ۱۳آیت )۔  یہ ہمارے حالیہ تجربہ سے بالاتر ہے لیکن یہ خُدا کا وعدہ ہے ۔ایک چیز یقینی ہے : مسیح نے اپنے لوگوں کے لئے جگہ تیا ر کی ہے  (یوحنا ۱۴باب ۲آیت ؛عبرانیوں۶باب۱۹تا۲۰آیات)۔

دوم:زمین خوشحال تھی ۔ مسیح نے اس زمین کو اچھی اور وسیع زمین بیان کیا ہے،جہاں پر دودھ اور شہد بہتا ہے (خروج ۳باب۸آیت )    یہ ایسا اندازِ بیان ہے جو اس سر زمین میں اشیاء کی کثرت اور فراوانی کو ظاہر کرتا ہے ۔زمین کی خوشحالی اُن نعمتوں کی تصویر کَشی کا واضح طریقہ تھی جو کہ نجات پانے والوں کے لئے ہیں ۔خُدا کے نجات پانے والے لوگوں میں سے ایک ہونے کا مطلب روحانی دولت کی جگہ پر ہونا ہے ۔پولُس رسُول کی اصطلاح میں ،خُدا نے ہم کو مسیح میں آسمانی مقاموں پر ہر طرح کی روحانی برکت بخشی ۔(افسیوں۱باب ۳آیت) مسیحیوں کے لئے ’دُودھ اور شہد‘ کی سر زمین سے مُراد آسمانی مقام ہیں۔

سوئم:زمین  آباد تھی ۔وُہ سر زمین جسے خُد ا نے اسرائیل کو دینے کا وعدہ کیا تھا ،اُن تمام سالوں کے دوران جب وہ مصر کی غلامی میں تھے غیر فعال اور بے آبادنہیں تھی ۔خُدا نے کہا کہ اِس سر زمین پر اسرائیل سے زیادہ عظیم اور طاقتور قومیں آباد تھیں (استثنا ۷باب ۱آیت )   ۔  اِس مقامی آبادی کی موجودگی نے عقیدے کے لئے مسئلہ اور وفاداری کے لئے ممکنہ خطرہ دونوں پیدا کیے ۔خُدا نے اُنہیں اِس سر زمین میں غیر قوموں کے درمیان آباد ہونے اور اُن کے ساتھ کوئی ایسے معاہدے کرنے جو انہیں خُدا کے خلاف گناہ میں پھنسائیں ،کے خلاف متنبہ کیا (خروج ۲۳باب ۳۲تا۳۳ آیات)     ۔ اِس کے برعکس ، انہیں اِن لوگوں کے بُتوں کو’’مکمل طور پر اُلٹ دینا‘‘،اور اُن کے ستونوں کو’ ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا  ‘(آیت ۲۴) ۔اسرائیل کی اس تنبیہ پر دھیان دینے میں ناکامی اُن کی اس سر زمین سے بے دخلی کا باعث بنی ۔

ایمان کا مسئلہ بھی اُتنا ہی حقیقی تھا ۔چونکہ مقامی کنعانی اتنے مضبوط اور قابل جنگجو تھے اور اسرائیل جنگ میں اس قدر کمزور اور نا تجربہ کا رتھی،اِس لئے زمین کیسے حاصل کی جائے یہ ایک اہم سوال تھا ۔کہ یہ سر زمین خُدا کی طرف سے تحفہ تھی ایک چیز ،لیکن اِس تحفہ کا مالک ہونا بالکل مختلف چیز دکھائی دیتا تھا ۔اِس بات کا امکان نہیں تھا کہ مقامی لوگ رضا کارانہ طور پر اس زمین کو چھوڑ دیں گے ؛بلکہ وہ اپنے ملک کو قائم  رکھنے کے لئے لڑیں گے ۔اسرائیل کی جیت کا امکان بہت کم تھا ۔خُدا کا اس سر زمین کو کیسے حاصل کرنے کے بارے میں بتاتا اور ایمانداروں کی گنہگاروں کی سلطنت پر فتح کے اہم روحانی سبق کی وضاحت کرتا ہے۔

کنعانیوں سے لڑنے کا طریقہ کار دہرا تھا : ایک تو خُدا اسرائیل کے لئے لڑا ،اوردوسرا اسرائیلوں کو خود اپنے لئے لڑنا پڑا ۔خُدا نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ دشمن کو کاٹ ڈالے گا،اُن کو تباہ کر دے گا ، اور اُن کو پُشت پھیردینے  پر مجبور کر دے گا (خروج ۲۳باب  ۲۳آیت، ۲۷آیت ) ۔وُہ ایسا اُن کے سامنے اپنے فرشتہ کو بھیج کر کرے گا ،جس کی انہیں اطاعت کرنا ہو گی (۲۰اور۲۳آیت)۔قیادت کرنے والے فرشتہ کے علاوہ ،خُدا اپنی ہیبت کو اور زنبوروں کو اسرائیلیوں کے آگے بھیجے گا تاکہ کنعانیوں کو بھگا دیں (۲۷تا۲۸آیات)۔یہ دونوں ایسی علامتیں ہیں جو اُس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو خوف طاری کر تی ہے۔

یہ سر زمین خُدا کے لوگوں کی حتمی منزل اور اُس منزل تک ان کے روزانہ کے سفر دونوں کے بارے میں بات کرتی ہے ۔کنعان کی فتح خُدا اور لوگوں کے درمیان تعاون کی وضاحت کرتی ہے ۔خُدا نے اُن کو یہ سر زمین دینے اور اِس وعدہ کی تکمیل کے راستے میں حائل کنعانیوں کو نکال باہر کرنے کے اپنے وعدوں کی بدولت اس فتح کو حاصل کیا اور یقینی بنایا ۔اسرائیلیوں کو ’تاہم‘ دریائے اُردن کے پار جانا اور اپنے لئے اپنے دشمنوں کو مہلک جنگ کے وسیلہ سے بھگانا پڑا (اِستثنا ۹باب ۳آیت )۔ اِس یقین کے ساتھ کہ خُدا نے اُنہیں فتح دے دی ہے ، وہ اس سر زمین میں داخل ہوئے اوراس یقینی فتح کی روشنی میں لڑے ۔اسرائیلیوں نے صرف خُدا کے حُکم کو ماننے اور اپنی تلواروں کے استعمال کے ذریعہ سے اس سر زمین پر قبضہ کیا ۔اِس سر زمین پر قبضہ کرنے کے لئے جنگیں بے رَحم تھیں، اور نئے علاقہ پر قبضہ بتدریج تھا ۔

اِس سر زمین کی فتح ،ایماندار کی گناہ کے خلاف جنگ، اور اُس کی بتدریج تقدیس کی وضاحت کرتی ہے ۔اگرچہ مسیح نے گناہ پر ہماری فتح حاصل کر لی ہے اور ہم پر اِس(گناہ) کی حُکمرانی کو ختم کر دیا ہے، لیکن گناہ ہم سے صرف اِس لئے نہیں بھا گتا کہ ہمیں بچایا  لیا گیا  ہے  ۔اگر ہم اپنی طاقت سے گناہ سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں ،تو شِکست یقینی ہے،کیونکہ گناہ ہم سے زیادہ طاقتور ہے ۔اِس کے برعکس ، اگر ہم خُدا کے زرہ بکتر کے ساتھ گناہ سے لڑنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ،تو شکست بالکل یقینی ہے ۔لیکن اگر ہم اس دعویٰ کے ساتھ  جنگ میں شامل ہوتے ہیں جس کا خُدا نے وعدہ کیا ہے اور مسیح یسوع نے جس پر فتح حاصل کی ہے،تو ہم فتح مندی سے لُطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔حتّی کہ جب ہم کسی خاص گناہ پر فتح کا تجربہ رکھتے ہیں ،تو ہم اپنے محافظ کو کبھی نیچا نہیں دکھا سکتے ۔کیونکہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو کہ گناہ اور آزمائش کے کنعانیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ایک فتح اگلی جنگ کی طرف لے جاتی ہے ۔جنگ  ہمارے بادشاہی کے تجربے کی نشاندہی کرتی  ہے ۔

چہارم :  یہ سر زمین خُدا کی الٰہی موجودگی کی جگہ تھی ۔سمندر کو پار کرتے وقت گائے جانے والے گیت میں موسیٰ نے اپنی ستائش کے دوران اس سر زمین کا حوالہ دیا جس میں خُدا اپنے لوگوں کو لے جانے   والا تھا  ’’تو اُن کو وہاں لے جا کر اپنی میراث کے پہاڑ پر درخت کی طرح لگائے گا تُو اُن کو اسی جگہ لے جائے گا جسے تُو نے اپنی سکونت کے لئے بنایا ہے ‘‘ (خروج ۱۵باب ۱۷آیت ) ۔ایک خاص اور روحانی لحاظ سے ، اس سر زمین میں رہنے سے مراد وہاں رہنا تھا جہاں خُدا سکونت کرتا ہے ۔یہ اُس کی حضوری میں رہنا تھا ۔خُدا نے کَرم کی نگاہ کرتے ہوئےموسیٰ کو یقین دلایا کہ وہ  اُس کےساتھ چلے گا اور اُسے آرام دے گا (خروج ۳۳باب ۱۴آیت )  ۔آرام کا یہ خیال اِس سر زمین اور خُدا موجودگی کے مترادف ہے(زبور ۱۳۲کی ۱۳تا۱۴آیات )۔آرام وہاں پر تھا جہا ں پر خُدا تھا ؛یہ اُس کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے ۔اِس لحاظ سے ،یہ سر زمین اُس حتمی آرام کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا تجربہ ہر ایماندار خُدا کی آسمانی بادشاہی میں کرتا ہے ،جو کہ اُس کی جلیل القدر حضوری میں ہے  اور ایماندار کی ابدی میراث ہے (۱۔پطرس  ۱باب ۴آیت)۔ایک دوسرے لحاظ سے یہ سبت کے آرام کے متوازی ہے جس کا تجربہ ایماندار کو عبادت گاہ میں ہوتا ہے جہا ں خُدا اپنے لوگوں سے ملتا ہے۔عبادت گاہ خُدا کی بادشاہی کی جگہ کا مظہر ہے ۔

وعدہ کی سر زمین خُدا کی بادشاہی کے متعلق علم ِالٰہی کو معنی خیز طور پر بیان کرتی ہے ۔دونوں ہی حقیقی مقام  ہیں ۔یہ سر زمین خُدا کے نجات پانے والے لوگوں کے لئے رَسَد ، تحفظ اور اُن کے درمیان خُدا کی موجودگی کی علامت تھی ۔حتمی طور پر، یہ سر زمین خُدا کی آفاقی اور ابدی بادشاہی ، الٰہی موجودگی اور اس کے نتیجے میں اَمن کے حتمی تجربہ(ایک تصویر کی پیش گوئی ) کی علامت ہے۔یہ سر زمین خُدا کے لوگوں کی حتمی منزل اور اس منزل تک روزانہ کے سفر دونوں کے بارے میں بات کرتی ہے ۔آرام کی سرزمین میں داخل ہونا ایمانداروں کی آخری منزل ہے ۔خُدا کی بادشاہی آرہی ہے ۔

یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔

مائیکل پی ۔وی ۔بیرٹ
مائیکل پی ۔وی ۔بیرٹ
ڈاکٹر مائیکل پی۔وی ۔بیرٹ نائب صدر تعلیمی اُمور ، تعلیمی ڈین اور پیوریٹن ریفامڈ تھیولوجیکل سیمنری گرینڈ ریپِڈز ، میشیگن میں پرانے عہد نامے کے پروفیسر ہیں ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جس میں مسیح کے ساتھ آغاز :پرانے عہد مانے میں مسیح کو تلاش کرنے کے لئے رہنمائی اور زندگی کے لئے حکمت شامل ہیں ۔