
مسیحیت اور دُنیاوی فلسفہ
25/03/2025
خدا اور اِنسان
01/04/2025عقیدہ

آج مغربی دُنیا میں رونما ہونے والے اخلاقی بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے، کلیسیا کواپنا مسیحی عقیدہ سیکھنے کی کوششوں کو دوگنا کرنا ہو گا۔ یقیناً، ہمیں مسیحیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ بطورِ مسیحی اپنی زندگی بسر کریں اور اِس حق میں بات کرنا جاری رکھیں کہ خدا نے ہر مرد اور عورت کو اپنی صورت پر خلق کیا ہے اور شادی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر اِس افسوسناک حقیقت پر توجہ دینی چاہئے کہ انسان کے بنیادی انجام کے بارے میں عوامی معلومات کو ایک ایسی دُنیا میں باقاعدہ طریقے سے دبایا جارہا ہے جہاں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے، جہاں اسقاطِ حمل عام ہے، اور جہاں لوگ لذیذ کھانوں، جنسی تعلقات، بہتر فلموں ، مفت منشیات اور دُنیاوی خوابوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں یہاں اپنے مسیحی عقیدے کی ضرورت ہے۔
جے گریشام میچن نے اپنی کلاسیکی کتاب تقریباً ایک صدی قبل تحریر کی، اُس وقت کلیسیا کو کئی دیگرچیزوں کے ساتھ ساتھ ایسے بڑے اخلاقی مسائل کا سامنا بھی تھا جن کا میچن خود بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے زمانے میں وہ پاسبان جو خود کو نبی ظاہر کرتے تھے، اُنہوں نے اصرار کیا کہ کلیسیا کا اصل کام بہتر جمہوریت، تہذیب اور اخلاقی اصلاح کی فوری ضرورت کو پورا کرنا ہے۔اِس کے برعکس میچن نے اصرار کیا کہ ایک وفادار خاص طور پر بحران کی شکار کلیسیاکو اپنے عقیدے پر یقین رکھنا چاہئے اور اِس کی تعلیم دینی چاہئے۔
لیکن عقیدہ ہی کیوں؟ میچن کے زمانے سے پہلے اور بعدکی کلیسیا میں جب سماجی ابتری اور اخلاقی ابہام کی صورتحال ہوتی، تو اکثر کلیسیا مسیحی عقیدے کے بجائے زیادہ دلکش نظر آنے والے راستوں کی طرف مائل ہوجاتی تھی۔ بعض اُساتذہ اصرار کرتے ہیں کہ کلیسیا کے پاس بائبل مقدس کے علاوہ اَور کوئی عقیدہ نہیں۔ گرجا گھر کی نشتوں پر بیٹھے ہوئے مسیحیوں کو عقائدی زیادتی اور سترہویں صدی کے اقرارالایمان اور کیٹیکیزم کی باریکیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اِس بات میں کچھ معقولیت ہے۔میچن پیو میں اُس عام آدمی کے بارے میں یوں لکھتا ہے ’’چونکہ اُس شخص کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ ماہرِ علمِ الہیات کی باریکیوں پر توجہ دے، اِس لئے اُسے وہ اطمینان حاصل ہوتا ہے جو چرچ جانے والے ہر شخص کو تب ملتا ہے جب کسی دوسرے کے گناہوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔‘‘ لیکن میچن کی وضاحت کے مطابق جب کسی شخص کو عقائد یا پیوریٹن کی بے جان راسخ العتقادی کا تذکرہ سننے کوملتا ہے، اور پھر وہ ویسٹ منسٹر اقرارالایمان یا جان بنیان کی کتاب بعنوان ’’مسیحی کا سفر‘‘کا مطالعہ کرتا ہے، تو اُس کا سامنا کھوکھلے جدید فقروں کے بجائے ایک ایسی ’بے جان راسخ العتقادی‘ سے ہوتا ہے جس کاہر لفظ زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اِس سے بھی بڑھ کر میچن بتاتے ہیں کہ پرانے اقرارالایمان پر تنقید کی آڑ میں جو لوگ نظریے کے مخالف ہیں، وہ اکثر بائبل اور اُس کی بنیادی تعلیمات کے مخالف ہیں۔اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو اُساتذہ عقائد کے سب سے زیادہ مخالف ہیں وہ اکثر خود کو پیروی کرنے کا معیار بنا لیتے ہیں۔
میچن بنیادی طور پر اُن لوگوں سے نمٹ رہا تھا جو نظریے کی مخالفت کرنے کے مذموم عزائم رکھتے تھے۔ وہ عمومی طور پر نظریے کی مخالفت کرنے کا وعویٰ اِس لئے کرتے ہیں، کیوں کہ اُن کے مطابق مخالفت ایماندارانہ اعتراف کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، اور اِس لئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُنہیں محض بعض عقائد سے مسائل تھے جیسا کہ مسیح کی کنواری سے پیدائش اور اُن کا جسمانی طور پر زندہ ہونا وغیرہ ۔بعض لوگ عقائد کے اِس لئے مخالف ہیں، کیوں کہ وہ صرف یسوع کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، اور اُن کے مطابق یسوع نے محض’’کہانیاں سُنائیں۔‘‘ بعض علما نے مزید کہا کہ ساری بائبل مقدس کے اندازِ بیان میں محض داستانیں اور شاعری ہے، باقاعدہ علمِ الہیات نہیں۔ یقیناً، بیانیہ یا اُس سے بہتر مگرتاریخ مسیحیوں کے لئے اہم ہے۔ ہمارا مذہب تاریخی بنیادوں پر قائم ہے: یسوع نے اِس طریقے سے تعلیم دی جس طرح وہ عہدِ عتیق کے بارے میں بات کرتا ہے؛ابتدائی مسیحی پرانے عہد نامے کو اہمیت دیتے تھے؛ اورجیسا کہ ہم لوقا رسول کی اپنی تحقیق میں بھی اِس اہمیت کو دیکھتے ہیں؛ پولُس رسول اس اہمیت کا ذکر تب کرتا ہے جب اُس نے کرنتھس کی کلیسیا کو مسیح کی زندگی، اُس کی موت اور قیامت کی تاریخی حیثیت کی یاد دِلائی تھی (ا-کرنتھیوں ۱۵: ۱- ۸)۔
بہرحال، میچن کے مطابق بائبل ہمیں محض بیانیہ پیش کرنے پر راضی نہیں، کیوں کہ تاریخی بیانیے میں اس بیانیے کی وضاحت شامل ہے جو اُس کے معنی میں اضافہ کرتی ہے، یعنی جو حقائق کو عقائد میں بدل دیتی ہے۔ میچن کہتے ہیں کہ ’’مسیح مر گیا‘‘ یہ ایک ’’تاریخ ہے۔‘‘ لیکن وہ ’’ہمارے گناہوں کی خاطر مؤا‘‘، یہ ایک عقیدہ ہے ‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔ عقیدے سے یہ وابستگی پولُس کی تحریروں، ابتدائی مسیحیوں کی اقدار ، اور یسوع کی تعلیمات میں دیکھی جاتی ہے۔
بعض ایسے لوگ جن میں بہت سے آزادخیال ماہرِ علم الہیات ہیں وہ یقین رکھتے ہیں کہ بائبل محض ایک بیانیہ ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مسیحیت محض ایک زندگی ہے، جو فقط عمل کرنے کے بارے میں ہے، ایمان رکھنے کے بارے میں نہیں۔ ایسی صورتِ حال میں میچن ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق جب ہم کہتے ہیں کہ ’’مسیحیت یہ ہے‘‘، تو دراصل ہم ایک ایسا دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں جس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ ہمیں صرف بائبلی تعلیمات، ابتدائی مسیحیوں کے عقائد، یا مسیحیت کی طویل تاریخ کو دیکھنے کی ضرورت ہےتاکہ تصدیق کی جا سکے کہ یہ بات درُست ہے یا نہیں۔شاید یہ کہنا بھی درُست ہو کہ مسیحیت فقط ایک عقیدہ نہیں، ایک زندگی ہونی چاہئے۔ لیکن ’’یہ دعویٰ کہ مسیحیت ایک زندگی ہے ، بالکل اسی طرح تاریخی تحقیق سے مشروط ہےجس طرح نیرو بادشاہ کے تحت رومی سلطنت ایک آزاد جمہوریت تھی۔‘‘ مگر جب ہم اِس دعوے کی تحقیق کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ شروع ہی سے مسیحی ایمان کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔
میچن اپنی کتاب میں ایک مضبوط دلیل پیش کرتے ہیں کہ مسیحیت کی بنیادعقائدی ایمان پر ہے۔ لیکن ہمیں عقیدے کی کیا ضرورت ہے، خاص طور پر جب ہم مغربی دُنیا کے اخلاقی انحطاط جیسے سنگین مسئلے سے دوچار ہیں؟ اِس زوال کے آغاز میں میچن نے ایک اہم بصیرت پیش کی جو آج بھی متعلقہ ہے یعنی لبرل ازم تاکیدی انداز میں ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے، ’’جبکہ مسیحیت ایک غالب اشارے سے شروع ہوتی ہے‘‘جو ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کون ہے اور اُس نے ہمارے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ہمارے تاریخی لمحات میں، ’’مسیحی‘‘ لبرل ازم اور جارحانہ سیکولرازم دونوں ہی نصیحت آموز اور تبلیغی نظر آتے ہیں۔ اب عوامی مصروفیات اور یہاں تک کہ عام گفتگو کے لئے بھی لامتناہی قوانین موجود ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ کسی کو کیا کرنا چاہئے اور کیا کہنا ، یا کیا نہیں کہنا چاہئے۔اب لبرل سماجی اور سیاسی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ تاکیدی ہو گئی ہے۔
بے شک ہمیں دُنیوی تاکید کو دنیاوی تاکید سے چیلنج کرنا چاہئے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ہمیں مسیحی ایمان کے ’’غالب اشارے‘‘ پر اپنی تاکید کو بنیاد بنانا ہو گا۔ ایک عزیز دوست جس نے سامنے آکر حیران کردیا جب ایک مسیحی خاندان سے پوچھا گیا کہ وہ انسانی جِنس کے بارے میں کیا یقین رکھتے ہیں، اُنہوں نے جواب میں مسیحی تاکید کا اشتراک کیا کہ اگر ہمارا ایمان ہے کہ خدا نے یہ دُنیا بنائی ہے اور وہی اِس پر حکومت کرتا ہے تو ہم چیزوں کو اپنی مرضی سے بنانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور زندگی گزارنے کے ایسے کئی طریقے ہیں جو خدا کی تعظیم کا باعث بنتے اور ہماری بھلائی کے لئے ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید شادی جو خدا کی طرف سے نعمت ہے ،کے بارے میں بات کی اور وضاحت کی کہ خدا نے ہمیں اپنی صورت پر مرد اور عورت خلق کیا ہے۔
ایسا کرنا ضروری تھا۔ مگر شاید شام کاوہ سب سے طاقتور لمحہ تھا جب ایک سترہ سال کی ایمان دار لڑکی اپنے غیر مسیحی دوست کو سمجھاتے ہوئے رو رہی تھی کہ مسیحی مذہب کس قدر خوب صورت ہے، وہ اِس لئے رو رہی تھی، کیوں کہ اُس کی عزیز دوست اِس حقیقت کو دیکھ نہیں پا رہی تھی۔ اُس کی دوست نے مسیحی ایمان کو تاکیدی مجموعے میں محدود کر دیا تھا – تاہم اِس دوست کے ذہن میں گھناونی ضروریات تھیں ۔ لیکن دوسری طرف وہ جوان خاتون مسیحی ایمان کو ایک ایسی زندگی کے طور پر جانتی تھی جو ایک عقیدے سے نکلتاہے، ایک ایسا عقیدہ جو زندگی، سکون، اُمید اور جلال پیش کرتا ہے۔ اسی لئے اُس نے اپنی دوست کے ساتھ غالب اشارے کی صورت میں عقیدے کا اشتراک کیا۔
ہمیں مسیحیوں اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی پورے طور سے خدا کی شریعت کو جاننے اور اُس کا دفاع کرنے کی تربیت دینی چاہئے۔ لہٰذا، ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم خدا کے کلام کے اشاروں ور اُس کی تاکید کو سمجھیں کہ وہ کیسے بنیاد رکھتے اور ہمیں آگاہ کرتے ہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم اِس مرتی ہوئی دُنیا میں جو پیغام لے کر آئیں وہ اتنا زبردست اور خوبصورت نہ ہو جتنا ہونا چاہئے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔