اے مسیحی !کیا تُو خُدا کی شریعت سے محبت رکھتا ہے؟ 
06/06/2023
آپ کام کیوں کرتے ہیں؟
22/07/2023
اے مسیحی !کیا تُو خُدا کی شریعت سے محبت رکھتا ہے؟ 
06/06/2023
آپ کام کیوں کرتے ہیں؟
22/07/2023

اصلاحی ہونے کی جُرات

جب ہم اصلاحی علمِ الٰہی کی تفہیم  حاصل کرتے  ہیں تو   نہ صرف نجات کے بارے میں ،  بلکہ ہر چیز کے بارے میں ہمارا تصور بدل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب لوگ اصلاحی  علمِ الٰہی کے بنیادی  عقائد کو سمجھنے میں کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور آخر جب اُن کو سمجھتے ہیں تو  وہ  اکثر ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے اُن کو دوسری مرتبہ نجات ملی ہو۔   بہت  سے لوگ تو میرے سامنے اس بات کا  بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ حقیقت میں  کچھ   نے تو   پہلی مرتبہ  نجات  کا تجربہ حاصل کیا۔یہ   اُن کےاصلاحی علمِ الٰہی کی جانچ پڑتال  کی بدولت ہی تھا کہ  اُنہوں نے  اپنی فطری آلودگی   ،گناہ میں مردہ حالت،   خدا کے اپنے لوگوں کے لیے غیر مشروُط چناؤ اور دوسروں کے رّد کیے جانے،  مسیح کی اپنے لوگوں کی  مخلصی کے لیے حقیقی کامیابی اور روح القدس کے موثر فضل،جس کی وجہ سے وہ خدا کے نجات بخش فضل سے ثابت قدم رہتے ہیں ۔اورخدا کا اپنے نام کو جلال دینے کے لیے ساری تاریخ میں عہد کے  ذریعے کام کرنے کے طریقہ  کی واضح حقیقت  کو جانا۔ جب لوگوں کو  با لآخر  اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا کو نہیں چُنا بلکہ خدا نے اُنہیں چُن لیا ہےتو وہ فطرتی طور پر اپنے لیے  خدا کے حیرت انگیز فضل کے بارے میں  عاجزانہ  اعتراف کے مقام پر آ جاتے ہیں۔ جب ہمیں  احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے بدبخت ہیں تو  صرف تب ہی ہم حقیقی طور پریہ گیت  "حیرت انگیز فضل ” گا سکتے ہیں۔ اور اصلاحی  علم الٰہی   یہ کرتا ہےکہ : یہ ہمیں ظاہری اور باطنی طور پر  بدلتا ہے اور  ستائش   میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔یہ  نہ صرف اتوار کو بلکہ پوری  زندگی کے ہر دن   اپنے حاکم اور ثالوث،  رحمدل  اور پیار کرنے والے خدا کی ستائش کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔  اصلاحی علم الٰہی صرف ایک تمغہ نہیں ہے جس کو ہم تب پہنتے ہیں جب اصلاحی  بننا یا مقبول اور مشہور ہونا ہوتا ہے، بلکہ یہ ایسا علم الٰہی ہے جس سے  ہم جیتے ، سانس لیتے ، اِس کا اقرار کرتے  اور   یہاں تک کہ جب کوئی اس پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا دفاع کرتے   ہیں۔

 سولہویں صدی کے پروٹسٹنٹ اصلاح کاروں نے  اپنے پندرہویں صدی کے پیشروؤں  اور اپنی سترہویں صدی  کی اولاد  کے  ساتھ مل کر اپنے نظریے کی تبلیغ اور دفاع اس لیے نہیں کیا  تھا کیونکہ یہ مقبول و مشہور تھا مگر اس لیے کہ  یہ بائبلی تھا۔اور اُنہوں نے اس کی خاطر اپنی جانیں داؤ پر لگا دیں۔ وہ نہ صرف کلامِ  مقدس کی الٰہی تعلیم کی خاطر   اپنی جانیں دینے کو تیار تھے بلکہ وہ اس کے لیے جینے، مصیبت اٹھانے اور بیوقوف کہلائے جانےکے لئے بھی تیار تھے۔ اس میں کوئی غلطی نہ کریں  کہ اصلاح کار  اپنی خود اعتمادی اور خود انحصاری  کی وجہ سے دلیر اور بہادر نہیں تھے بلکہ اس حقیقت کی وجہ سے کہ وہ انجیلِ مقدس کے باعث عاجز  کیے گئے تھے۔ وہ اس لیے دلیر تھے کیونکہ وہ رُوح القدس سے بھرے ہوئے تھے ۔ اورجھوٹ کے تاریک دور میں سچائی کی روشنی کا پرچار کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔   جس سچائی کی اُنہوں نے تبلیغ کی وہ نئی نہیں تھی بلکہ قدیم سے تھی۔  یہ شہیدوں ،  آبائے کلیسیا، رسولوں، اور کلیسیا کے بزرگان کا عقیدہ تھاـیہ کلامِ مقدس میں بیان کیا گیا خدا کا عقیدہ تھا۔

 اصلاح کاروں   نے اپنے علمِ الہٰیات کو تشکیل نہیں دیا بلکہ وہ جو کچھ تھے  اُن کے علمِ الہٰیات نے اُنہیں تشکیل کیاتھا۔ کلامِ مقدس کے علمِ الٰہی نے اُنہیں اصلاح کاربنا یا۔ کیونکہ وہ اصلاح کار بننے کےلیے نہیں نکلے تھے بلکہ وہ  خدااور ا ُس کے   کلام کے وفادار بننے کے لیے نکلے تھے۔نہ تو  اصلاح کے پانچ ’’سولے‘‘(Solas) اور نہ ہی فضل کے نظریات ( کیلون کے پانچ نقاط) اصلاح کاروں    کی ایجاد  تھی۔ اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح سے  اصلاحی نظریے کا مجموعہ تھے۔ بلکہ وہ بنیادی نظریاتی لوازم  بن گئے جس نے بعد کی کلیسیا کو اپنے  ایمان  کا اعتراف کرنے اور اس کا دفاع کرنے میں  مدد فراہم کی۔ آج بھی بہت سے ایسےلوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ اصلاحی علمِ الٰہی کو قبول کرتے ہیں مگر ان کے اصلاحی علمِ الٰہی کی گہرائی صرف ’’اصلاح کے سولوں‘‘ اور فضل  کے نظریات تک   ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اصلاحی علمِ الٰہی سے  وابستگی رکھتے  ہیں مگر وہ  اپنے اصلاحی  ہونے کی یہ  وابستگی  دوسرے لوگوں  کےبارے میں جانے  بغیر   رکھتے  ہیں۔  اس طرح کے "پوشیدہ کیلونسٹ” نہ تو سولہویں اور سترہویں صدی کے  کسی بھی تاریخی اصلاحی  اقرار الایمان کا اعتراف کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی واضح اصلاحی علمِ الٰہیات کی زبان  استعمال کرتے ہیں۔

بہرحال اگر ہم حقیقی معنوں میں تاریخی اصلاحی اقرارالایمان  کے  مطابق  اصلاحی  علمِ الٰہی سے وابستگی رکھتے ہیں تو  ہم اپنے اصلاحی ہونے کی پہچان کروائے بغیر نہیں رہ سکتے۔در حقیقت  "پوشیدہ کیلونسٹ ”  رہنا ناممکن ہے،  اور پوشیدگی  میں  ہمارا اصلاحی رہنا بھی ناممکن ہےـیہ لازمی   ظاہر ہو جائے گا۔تاریخی اصلاحی  ہونے کے لیے اصلاحی اقرار الایمان کے ساتھ وابستگی رکھنا بہت ضروری ہے اور نہ صرف وابستگی رکھنا بلکہ اس کا اعتراف کرنا ، پرچار کرنا، اور دفاع کر نا ضروری ہےاصلاحی علمِ الٰہی بنیادی طور پر ایک اقراری علمِ الٰہی  کا نام ہے۔

اصلاحی  علمِ الٰہی  ہمہ جہت علمِ الٰہی بھی ہے۔یہ نہ صرف  ہمارے  علم کو بدل دیتا  ہے بلکہ ہم اس علم کو کیسے جانتے ہیں اِس  کوبھی  بدل دیتا ہے۔ یہ نہ صرف  خدا کے بارے میں ہمارے تصور  کو بدلتا ہےبلکہ یہ اپنی ذات کے  بارے میں بھی ہمارے تصور   کو بدل دیتا ہے۔  فی الحقیقت یہ نہ صرف نجات کے بارے میں ہمارے  نظریے کو بدلتا ہے بلکہ یہ ہمارے ستائش کرنے کےطریقے ، منادی کرنے ، اپنے بچوں کی پرورش کرنے ، کلیسیا کے ساتھ ہمارےبرتاؤ،  ہمارے دعا کرنے کے انداز ، کلامِ مقدس کے مطالعہ کرنے ،ہمارے جینے  ، چلنے پھرنے  اور ہماری زندگی گزارنے کے طریقے   کو بھی بدل دیتا ہے۔ اصلاحی علمِ الٰہی ایک ایسا علمِ الٰہی نہیں ہے جسے ہم چھپا سکتے ہیں،اور  نہ ہی یہ ایک ایسا علمِ الٰہی ہے جس کو ہم محض    زبانی کلامی   ادا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کرنا   تو پوری تاریخ میں بدعتی اور مذہبی ترقی پسندوں  کی عادت رہی ہے۔ وہ اپنے اصلاحی  اقرار الایمان  پر عمل  کرنے کا دعویٰ   تو کرتے ہیں مگر  حقیقت میں کبھی بھی وہ اِن کا اعتراف نہیں کرتے۔  وہ صرف تبھی  اصلاحی ہونے کا دعویٰ  کرتے ہیں جب وہ دفاعی انداز میں ہوتے ہیں یعنی جب اُن کی  ترقی پسندالٰہیات  کو سوالات کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اور اگر تو وہ پادری ہوں تو پھر صرف تب اقرار کرتے ہیں  جب ان کی ملازمتیں  خطرے میں ہوں۔ اگرچہ مذہبی آزاد خیال جو اپنی  شناخت "اصلاح کاروں” کے طور پر  کراتے ہیں گرجا گھروں   اور فرقوں میں پائے جا سکتے ہیں ۔اس طرح کی شناخت پر شرمندہ ہیں اور اس بات کو جان گئے ہیں کہ "اصلاح کاروں” کے طور پر متعارف ہونا کچھ کے لیے ٹھوکر  اور کچھ  کے نزدیک  ایک جُرم ہے۔ مزید برآں کلیسیا کے تاریخی عام نشانات کے مطابق خدا کے کلام کی خالص منادی، خدا کے کلام کے مطابق دُعا، بپتسمہ اور عشائے ربانی کی مقدس  رسومات کا صحیح استعمال،   اور کلیسیائی نظم و نسق کی مستقل مشق شامل ہے۔اس طرح  کی اصلاحی کلیسیائیں  اکثر سچی کلیسیائیں  نہیں ہوتیں۔ آج بہت سے کلیسیائی اراکین  اور پادری ایسے بھی ہیں جو روایاتی اصلاحی  اور پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں اور فرقوں میں ہیں ، جنہوں نے اپنی کلیسیاؤں اور فرقوں کے ساتھ مل کر اپنی اصلاحی لنگرگاہ کو چھوڑ دیا ہے اوربرسوں پہلے  اپنے اقرارالایمان کو مسترد کر دیا ہے۔

اِس رجحان کے برعکس ، ہمیں  منِبر پرسب سے زیادہ ضرورت ایسے مردوں کی ہے جن کے پاس اصلاحی ہونے کی جُرا ت موجود ہے۔ایسے مرد جو کہ  ایک بار مقدسین کے حوالے کیے جانے والے ایمان سے شرمندہ نہیں بلکہ اس کی خاطر مقابلہ کرنے کو تیار ہیں صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ اپنی ساری زندگی اور اپنی پوری قوت کے ساتھ۔ ہمیں منبر پر ایسے مردوں کی ضرورت ہے جو سچائی کی منادی میں بے باک اور مستحکم  اور بیک وقت مہربان اور ہمدرد ہوں۔ ہمیں ایسے مردوں کی ضرورت ہے جو  وقت  بے وقت اصلاحی علمِ الٰہی کی سچائی کی  منادی   ، دوسروں کو قصور وار ٹھرانے والی  انگلی کے ساتھ نہیں  بلکہ دوسروں کو سہارا دینے والے بازو  کے ساتھ،  مصنوعی چمک دمک کے  بغیر کریں۔ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے  جو   اصلاحی اقرار الایمان سے خاص کر اس لیے محبت رکھتے ہیں  کیونکہ وہ خداوند ہمارے خدا سے اور اس کے لاتبدیل، الہامی،اور مستند کلام سے محبت رکھتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہمارے پاس منبر پر ایسے مرد  ہوں گے جن میں اصلاحی ہونے کی جُرات ہو،  سامعین  میں ایسے لوگ ہوں گے  جواصلاحی علمِ الٰہی کو اور  پوری زندگی پر اِس کے اثرات کو سمجھیں گے، تاکہ ہم اور زیادہ  خدا کو اپنے پورے دل ، روح ، جان اور طاقت سے محبت کر سکیں اور اپنے پڑوسی سے  اپنی مانند محبت کر سکیں۔ یہی وہ علمِ الہٰیات ہے جس نے سولہویں صدی میں کلیسیا کی اصلاح کی ، اور یہی وہ واحد علمِ الہٰیات ہے جو اکیسویں صدی  میں اصلاح اور  بحالی لائے گا۔ کیونکہ آج کے شدید  ترقی پسند مذہبی آزاد خیالی کے زمانے میں ، ہم  سب سے زیادہ بنیاد پرست  ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی تکبر کے ساتھ نہیں بلکہ کلیسیا کے  کھوئے ہوئے لوگوں کے لیے ہمت اور ہمدردی کے ساتھ،خدا کی شان  اور صرف اُسی کے جلال کے لیے۔


یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔

 

برک پارسن
برک پارسن
ڈاکٹر برک پارسن سینفورڈ فلوریڈا میں سینٹ اینڈروز چیپل کے سینئر پاسٹر ہیں اور لیگنئیر منسٹریز کے چیف پبلشنگ افسرہیں۔وہ ٹیبل ٹاک میگیزین کے مدیر اور لیگنئیر منسٹریز کے تدریسی ساتھی ہیں۔ وہ کتاب ’’ہمارے پاس عقائد کیوں ہیں ؟‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔