
اَمریکی کلیسیا میں جدیدیت کا تنازع
24/03/2025
عقیدہ
27/03/2025مسیحیت اور دُنیاوی فلسفہ

جے ۔گریشم میچن نے اپنی انمول تصنیف’’مسیحیت اور لبرل ازم‘‘ کا تعارُف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ ’’تصادم کے دَور‘‘ میں رہتے تھے۔ شاید تمام بنی نوع انسان اُس وقت سے تصادم میں زندگی بسر کر رہی ہے جب سے انسان گناہ میں گِراہے۔ بنیادی تصادم ہمیشہ شیطان اور عورت کی نسل (پیدائش ۳: ۱۵) کے درمیان رہا ہے، لیکن یہ تصادم مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔ میچن اپنے زمانے کے اِس تصادم کو مادیت پسندی اور روحانی زندگی کے درمیان تصادم کے طور پر دیکھتا ہے، جو ایک سو سال بعد بھی حقیقی طور پر ہماری زندگیوں میں موجود ہے۔
میچن اپنی تصنیف میں سائنسی ترقی کی بدولت ہماری جسمانی زندگیوں میں آنے والی بہتر ی کوسراہتے ہیں۔مگر وہ اِس خطرے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اِن کامیابیوں نے بہت سے لوگوں کو اس حقیقت سے اندھا کر دیا ہے کہ زندگی جسمانی آسائشوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنی توجہ محض مادی چیزوں پر مرکوز کر لی ہے اور مادیت پسند بن گئے ہیں۔ اُن کے نزدیک صرف وہی دُنیا حقیقت ہے جو نظر آتی ہے اور جسے چھوا جا سکتا ہے۔ مافوق الفطرت کام، یعنی خدا کا اِس دُنیا میں فطرت سے بڑھ کر کام، اُن کے نزدیک قطعی ناممکن ہے۔ لیکن میچن یہاں دانشمندی سے یسوع کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں کہ اگر آدمی ساری دُنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا(متی ۱۶: ۲۶)؟
میچن کی کتاب کاعظیم مقصد اِس بات پر زَور دینا ہے کہ محض حقیقی مسیحیت ہی مادیت پسندی کا مقابلہ کر سکتی ہے ، اور یہ ظاہر کرنا کہ حقیقی مسیحیت آزاد خیال یا جدید جعلی مسیحیت سے بالکل مختلف اور اُس کے برعکس ہے۔ ہر باب میں حقیقی مسیحیت کی ماہیت کے بارے میں میچن کے خیالات مسیحی حقائق کی گہری اور طاقتور اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اِس اہم موضوع پر بات کرنے سے پہلے وہ ہمارے زمانے میں مسیحیوں کو درپیش وسیع تر مسائل، خاص طور پر فطرت پسندی اور مادیت پسندی پر مختصراً غور کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی تنزلی بھی آئی ہے۔‘‘
جیسا کہ میچن دیکھتے ہیں کہ ’’جدید بےایمانی‘‘ نے نہ صرف حقیقی مذہب پر حملہ کیا ہے بلکہ عام طور پر لوگوں کی اعلیٰ زندگی کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ مادیت پسندانہ دُنیاوی نظریے نے انسانی ذہن اور روح کی عظیم کامیابیوں کو پروان چڑھانے کی آزادی سے محدود کر دیا ہے۔وہ جدید فن، موسیقی اور ادب کو انسانی کامیابی کے جدید زوال کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔
روح کے نظرانداز کرنے کےمہلک اثرات کی ایک مثال جو وہ پیش کرتے ہیں وہ جدید تعلیم کا شعبہ ہے۔اُن کے تبصرے حقیقی نبوتی معلوم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ ۱۹۲۲ء کی بات ہے۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ ’’سکولوں کا انتخاب والدین سے چھین کر ریاست کے ہاتھوں میں دے دیا جانا چاہئے۔‘‘سرکاری سکولوں میں’’بچوں کو ایسے ماہرینِ نفسیات کی زیرِنگرانی رکھا جاتا ہے جنہیں خود انسانی زندگی کے اعلیٰ شعبوں کے بارے میں واقفیت نہیں ۔‘‘درحقیقت، تعلیم میں ’’سرکاری ضابطہ پرستی‘‘ دیگر جگہوں کی طرح ہے، یہ ایک ’’بے کار افادیت پسندی‘‘ کی طرف لے جا رہا ہے جس میں تمام اعلیٰ اُمنگیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ایسی تعلیم صرف اُن چیزوں کو اہمیت دیتی ہے جو مادیت پسندی کے تخمینے میں مفید ہے۔
ریاست کے تعلیمی نظام کو برباد کرنے کےاِس رجحان کی ایک مثال، میچن نے نیبراسکا کے ۱۹۱۹ء میں منظور شدہ ایک قانون کاحوالہ دیتے ہوئے دی۔ اِس قانون کے مطابق، کسی بھی سرکاری یا نجی سکول میں تب تک انگریزی زبان کے علاوہ کوئی اِور زبان نہیں پڑھائی جا سکتی جب تک کہ طالب علم انگریزی میں آٹھویں جماعت کے برابر مہارت حاصل نہ کر لے۔(اِس قانون کے تحت کسی بھی سرکاری یا نجی سکول میں انگریزی زبان کے علاوہ کسی بھی زبان کی تعلیم پر اُس وقت تک پابندی عائد کی گئی تھی جب تک کہ طالب علم آٹھویں جماعت میں انگریزی میں مہارت حاصل نہ کر لے)۔ میچن اِس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ یعنی کوئی غیر ملکی زبان شاید لاطینی یا یونانی بھی، اُس وقت تک نہیں پڑھائی جائے گی جب تک کہ طالب علم اِسے سیکھنے کے لئےقدرے بالغ نہ ہو جائے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس میں جدید اجتماعیت ایسے مطالعے سے متعلق ہے جو حقیقی ذہنی ترقی کے لئے مطلقاً ضروری ہے۔‘‘بدقسمتی سے، آج ہم سب لاطینی اور یونانی زبان کے بارے میں میچن جیسا جذبہ نہیں رکھتے، مگر ہم اپنے اردگرد سرکاری سکولوں کے لئے بہت سے سرکاری ضابطوں کے تباہ کُن اثرات دیکھ سکتے ہیں۔
میچن نبوتی انداز میں اپنے دَور کے بہت سے سرکاری سکولوں کا کردار بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی اِس بات پر غور کرے کہ امریکہ کے کئی علاقوں میں سرکاری سکولوں کا کیا حال ہے یعنی وہاں مادیت پسندی، مسلسل ذہنی کوشش کی حوصلہ شکنی، اور وہاں جعلی سائنس کی خطرناک حوصلہ افزائی، تجرباتی نفسیات کو کمزور کر دیتی ہے – کوئی بھی شخص ایسی ریاست کے تصور سے ہی خوف زدہ ہو سکتا ہے جس میں ایسے روح کش نظام سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔
ذرہ سوچیں کہ وہ آج ہمارے سکولوں کے بارے میں کیا کہتے۔ وہ اُن ماہرینِ نفسیات کی کمزوریوں کو دیکھتے اور اِس بات پر اصرار کرتےکہ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ بچوں کو اُن کے بارے میں بہترمحسوس کرایا جائے اور مگر وہ اِس مقصد میں بُری طرح سے ناکام ہیں۔
میچن کسی بھی طرح سے سرکاری سکول کے مخالف نہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
اگر سرکاری سکول کے نظام کا مطلب اُن لوگوں کو مُفت تعلیم فراہم کرنا ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بے شک یہ جدید دَور کی ایک قابلِ ذکر اور مفید کامیابی ہے؛ لیکن جب یہ نظام حکومت کے کنٹرول میں آجاتا ہے تواجارہ داری اورظلم و ستم کا ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے ۔
اِس جبری نظام نے والدین کے اُن حقوق کو تباہ کر دیا جس سے وہ اپنے اُن بچوں کی تعلیم کا تعین کرنا چاہتےتھے جو خدا نے اُنہیں عطا کئے ہیں اور ساتھ ہی یہ نظام غالب فطرت پسندی کے نام پرہر قسم کے حقیقی فکری بگاڑ کو کچل دیتا ہے۔ میچن سرکاری سکولوں کو مکمل طور پر مسیحی بنانے پر مجبور نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن میں مسیحی سوچ کے لئے جگہ ہو۔
میچن جس قسم کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ تنگ نظری، تعصب یا غرور پر مبنی مسیحی تعلیم نہیں۔ بلکہ وہ ہمیں وسیع، گہرا اور عاجز بنانے کے لئے غیر مسیحی افکار کے مطالعہ کی سختی سے تلقین کرتے ہیں۔
سقراط نہ مسیحی تھا اور نہ ہی گوئٹے، لیکن اُن کے ناموں کا جو احترام کیا جاتا ہے ہم اُس میں برابرکے شریک ہیں۔ وہ عام انسانوں سے کہیں بلند مقام رکھتا ہے؛ اگر باشاہی میں چھوٹا بڑا ہے ، تو وہ یقیناً کسی فطری برتری کے باعث بڑا نہیں، بلکہ ایک ایسے غیر مستحق استحقاق کی وجہ سے بڑا ہے جو اُسے مغرور بنانے کے بجائے عاجز بناتا ہے۔
میچن کے زمانے کے وسیع تر روحانی تصادم نے خود کو امریکی پروٹسٹنٹ ازم میں ظاہر کیا، جس نے اِس تقسیم کو واضح کیا۔امریکہ میں اُنیسویں صدی کی اِسےبشارتی شہنشاہت (Evangelical Empire) کہا جاتاتھا، بیسویں صدی میں جدیدیت پسند اور بنیاد پرست گروہوں میں تقسیم ہوگیا۔ بعدازاں، اِن فرقوں کو بالترتیب مرکزی اور بشارتی فرقوں کے نام سے جانا جانے لگا۔ لبرل فرقے نے بےایمانی سے سمجھوتے کی اپنی حکمتِ عملی جاری رکھی ، جس کے باعث اُن کی تعداد اور اثرورسوخ میں مسلسل کمی آتی گئی۔ بشارتی فرقے نے بعض بائبلی بنیادوں پر زَور دیالیکن اُنہوں نے مکمل بائبلی علم الہٰیکے بجائے بائبلی استخراج کی حکمت عملی اپنانے کا رجحان جاری رکھا۔ امریکہ میں بشارتی فرقے کی تعداد اور اثر و رسوخ میں بھی کمی دیکھی گئی ۔
میچن کو اِس بات پر بالکل حیرت نہیں ہوئی۔وہ جانتا تھا کہ بے ایمانی سے سمجھوتا اور نہ ہی بائبلی استخراج، مسیح کے مقصد کو مؤثر طریقے سے فروغ دے سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسیحیت کے متبادل پیش کئے جانے والےدُنیاوی فلسفے آخرکار روحانی اور ثقافتی تنزلی کا باعث بنیں گے۔ اُنہوں نے مارکس ازم – لینن ازم کو اُبھرتے ہوئے تو دیکھا لیکن وہ اِن کے باعث دُنیا پر آنے والی تباہیوں کو نہ دیکھ سکے۔ بعض کمیونسٹ یا اشتراکی ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مادی بہتری دیکھی جا سکتی ہے، لیکن یہ پیش رفت اِتنی سُست تھی کہ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ کیا کسی اَور طرزِ حکومت میں یہ تبدیلیاں زیادہ تیزی سے نہیں ہو سکتی۔ میچن نے صاف طور پر دیکھ لیا تھا کہ اِس گناہ آلودہ دُنیا کی ضرورت ایک مکمل اور آزمودہ مسیحیت ہےجو پوری بائبلی تعلیم کو تسلیم کرتی ہے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ اُن کی کتاب’’ظاہر کرے گی کہ مسیحیت کیا ہے، تاکہ لوگوں کو ضعِیف اور ابتدائی نکمی باتوں سے دُور کیا جا سکے اور دوبارہ خدا کے فضل کی طرف رجوع کرنے کی راہنمائی کی جا سکے۔‘‘ اُن کی کتاب واقعی مسیح کے مقصد کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھاتی ہے اور اب بھی بائبل کی عظیم تعلیمات کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں واضح طور پر اِس دُنیا کے ضعیف اور بلآخر بے کار فلسفوں کا مسیحی متبادل فراہم کرتی ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔