
بائبل مقدس
12/02/2025
چھوٹے اور چھوٹی چیزیں
18/02/2025کلیسیا

ہمارے دَور کے جدیدیت پسندوں کے دعووں کے برعکس جس تاریخی مسیحیت کا جے- گریشام میچن نے دفاع کیا وہ انفرادیت پسندی پر مبنی نہیں تھی۔اُنہوں نے اپنی کتاب ’’مسیحیت اورآزاد خیالی‘‘ کے باب ۵ میں بیان کیا کہ مسیحیت ’’بنی نوع اِنسان کی سماجی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے‘‘، پھر وہ اِس باب کو نجات کے سماجی نتائج پر غوروفکر کے ساتھ ختم کرتاہے یعنی اِنجیل انسانی اداروں، بشمول خاندانوں، سماجوں ، کام کی جگہ اور یہاں تک کہ حکومت کو بھی تبدیل کرتی ہے۔
میچن اپنی بحث یہیں پر ختم نہیں کرتا ۔ بلکہ اِس کے بعد وہ سب سے اعلیٰ اوراہم ادارے یعنی ’’مسیح کی کلیسیا‘‘ پر بات کرتا ہے۔ درحقیقت، مسیحیت اور آزاد خیالی کےپورا مقالے کا مقصود مقصد آخری باب میں پورا ہوتا ہے، جہاں میچن کلیسیا کے بارے میں ایک اعلیٰ نقطےنظر کی بحالی پر زَور دیتا ہے۔ تاہم، اِس کتاب سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں میں بھی کلیسیا کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ہم تعجب کر سکتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اِس آخری باب کا بغور مطالعہ کیا ہو گا۔
میچن اِس باب کا آغاز ’’اِنسان کی عالم گیر بھائی چارے‘‘ پر مبنی ایک کمزور شکل کی سماج کو چیلنج کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ وہ گذشتہ باب میں بیان کرتے ہیں کہ آزاد خیالی حقیقی مسیحیت سے ہٹ گئی ہے، اِس لئے مسیح میں بھائی اور بہنوں کی حقیقی رفاقت کو برقرار رکھنے کے لئے واضح نظریاتی حدود کی ضرورت ہے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’ عصرِ حاضر میں کلیسیا کوسب سے بڑا خطرہ باہر کے دُشمنوں سے نہیں بلکہ خوداپنے اُن کلیسیائی اراکین سے ہے؛ جو کلیسیا کے اندر ایک ایسا ایمان اور سرگرمیاں متعارف کرواتے ہیں جو بنیادی طور پر مسیحیت مخالف ہیں۔‘‘ نتیجتاً، ’’کلیسیا میں دو گروہوں کے درمیان علیحدگی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ میچن کی سادہ اور صاف اپیل نے لوگوں عزت اور غیر جانبدارانہ دوستی کا رویہ حاصل کیا ( جیسا کہ ایک سیکولر جرنلسٹ ایچ۔ ایل مینکن مباحثے کو غور سے دیکھتے ہوئے بیان کرتا ہے )۔
کلیسیا کے اندرگروہوں میں یہ علیحدگی کیسے ہوگی؟ جس وقت کتاب شائع ہوئی، تب تقسیم کے دونوں اطراف سے زیادہ امکان یہ تھا کہ آزاد خیال فِرقے کی ایک چھوٹی سی تعداد خود کلیسیا چھوڑ دے گی۔ میچن نے خود بھی اُنہیں اِیمان داری سے یہ قدم اُٹھانے کی دعوت دی۔ مگر یہاں وہ ایک اَور صورتِ حال کا اندازہ لگاتے ہیں کہ قدامت پسندوں کو کلیسیا چھوڑنے پر مجبور کرنا پڑے گا۔ ایک دہائی کے بعد یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا، مگر بعدازاں میچن کو جدیدیت کے زیرِ اثر کلیسیا ئی بورڈز کے خلاف ’’بے وفائی‘‘ کے بڑے جرم کے باعث عہدے سے ہٹا دِیا گیا۔ اپنی پاسبانی بلاہٹ کے وفادار رہنے کے لئے اُنہیں اور اُن کے ساتھیوں کو اپنی یہ صلیب اُٹھانی پڑی۔
کلیسیائی اتحاد کو برقرار رکھنے کی جوابی اپیلوں نے اُن مسائل کو پوشیدہ کر دیا جو میچن نے پیش کئے تھے، اِس طرح کلیسیائی امن پسندی نے نہ تو دیرپا امن فراہم کیا اور نہ ہی اتحاد : ’’لہٰذا، کوئی بھی اَور چیز اِتنا تنازع پیدا نہیں کرتی، جتنا کہ ایک ہی تنظیم کے اندر ایسے لوگوں کو جبری اتحاد میں رکھنا جو بنیادی طور پر اپنے مقاصد میں اختلاف رکھتے ہوں۔‘‘ نظریاتی گمراہی کی برداشت ’’ بے ایمانی‘‘ ہے۔
اِس کے بعد میچن کو کسی اَور صورت کی توقع تھی: یعنی بعض خدام فعال آزادی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں، وہ اپنی جماعت کی راسخ العتقادی یا اپنی پریسبٹری کی درُستی (درست تعلیم) پر اکتفا کر سکتے ہیں۔ میچن کا ردّ عمل یہ تھا کہ یہ پریسبٹیرین تصور کا متبادل نہیں ۔ پریسبٹیرین کو کلیسیا کی اجتماعی گواہی کے لئے خود کو وقف کرنا چاہئے۔ کیوں کہ، کلیسیا کے ہر منبر کی آواز پوری کلیسیا کی آواز ہوتی ہے۔ لہٰذا، کلیسیا کے تمام پاسبان اُس کے تمام منبروں سے منادی کرنے کے ذمے دار ہیں۔
میچن کے علم الکلیسیا نے مقدسوں کی حقیقی شراکت اور جھوٹی شراکت میں امتیاز کرنے کی کوشش کی۔وہ بیان کرتے ہیں کہ،اگر آپ کی سوچ میں شراکت نہیں تو آپ کی زِندگی میں بھی شراکت نہیں۔ اِس لئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ نظریاتی بے اعتنائی نے وسیع تر چرچ ازم کو جنم دیا جس نے الہٰیاتی آزادخیالی کو کلیسیا کے منبروں میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ لہٰذا، کلیسیائی نظریے کے ساتھ وہ ’’مخلصانہ معاہدہ‘‘، جس کا اظہار کلیسیا کے اقرارالایمان اور کیٹیکیزم میں کیا گیا ہے حقیقی مسیحی رفاقت مہیا کر سکتا ہے۔
اِس معاہدے کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئےایک کلیسیا کو درج ذیل چار کاموں کو جاں فشانی سے سر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اوّل، ایمان کے دفاع کے لئے خود کو وقف کرنا۔ دوم، ایک کلیسیا کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عہدے داروں( پاسبانوں )کی تخصیص میں احتیاط برتے، اور کلیسیائی عہدے کے لئے اعلیٰ اہلیت کا معیار قائم کرے۔ سوم: لازم ہے کہ محض حکمران بزرگ ہی حکومت کریں، یعنی اُنہیں منبر کی منادی کی حفاظت کرنی چاہئے۔ آخر میں، ایک کلیسیا پر لازم ہے کہ وہ اپنے کلیسیائی اراکین میں موجود جہالت کو دُور کرنے کے لئے سوال و جوابات پر مبنی تدریس (کیٹی کیزم )اور شاگردیت کی دیگر خدمات کو بحال کرے۔ مختصر یہ کہ کلیسیا پر لازم ہے کہ وہ اپنے نظریے کی مختار بنے۔ اپنے نظریے کی تشہیر اور دفاع میں محتاط رہے، حتیٰ کہ اپنی دفاع جنگ اور اختصاصیت کے ساتھ بھی۔
میچن کا مقصد کلیسیا کو تقسیم کرنا نہیں تھا۔ بلکہ آزادخیال ایسا کرنا چاہتے تھے۔ میچن نےکلیسیا کے اتحاد کو اُس کے قابل ِ تائید طریقے سے آگے بڑھایا، یعنی دُنیا سے واضح علیحدگی کے ذریعے سے۔ ایک صدی بعد ہم دیکھتے ہیں کہ میچن کی رائے درُست تھی۔آزاد خیال کافی حد تک دُنیا کی مانند بن چکے تھے، جس کے باعث مرکزی پروٹسٹنٹ فرقہ اپنا مقصد اور اپنے اراکین تیزی سے کھو رہے تھے۔
امریکہ میں بشارتی کلیسیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اُنہوں نے دُنیا کے سامنے اپنا دفاع یا اجتماعی گواہی کو برقرار رکھا ہے؟ مذہبی تجربے پر زَور دینے اور نظریے سے بے پرواہی نے امریکی بشارتی حلقوں پراپنا اثر ڈالا ہے ،جہاں اقرارالایمان سے وابستگی، کیٹی کیزم سے فرار اور کلیسیائی ضابطے کے اطلا ق کی عدم دلچسپی دیکھی گئی ہے۔ کیا یہ حیران کُن بات نہیں کہ بہت سارے ایمان کا اقرار کرنے والے مسیحیوں کے لئے چرچ میں ہفتہ وار شرکت اوراقرار ایمان سے وقف ہونے زندگی کے لئے ترجیح کم ہو گئی ہے؟ اب ہم اپنے ذوق اور ترجیحات کی بنیاد پر کلیسیاؤں میں شامل ہونے اور اُسے چھوڑنے کے لئے خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔ یا اِس سے بھی بد تر، ہم مذہبی صداقت کی اپنی انفرادی تلاش میں کلیسیا کو مکمل طور پر ترک کر دیتے ہیں۔ عصرِ حاضر کی کلیسیاؤں نے جہان کی شرائط کو اپنی مرضی سے قبول کر لیا ہے، اور اپنے دَور کی دُنیا داری کے خلاف لڑنے کے بجائے، اُنہوں نے بے دھڑک مذہبی صارفین کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خود کو بازار کے بھاؤ فروخت کرنے کی کوشش کی ہے۔صداقت سے مرغوب دور میں ، کلیسیا کے مستند ہونے کے بارے میں میچن بروقت یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی دَور کی حقیقی کلیسیا کے مستند ہونے کا اندازہ ہم اُس کی درج ذیل ظاہری نشانیوں سے لگا سکتے ہیں؛ کلیسیا میں کلام کی درُست منادی، پاک رسوم کی درُست ادائیگی اور کلیسیائی ضابطے کا اطلاق۔
میچن کی کتاب بعنوان’’مسیحیت اور آزادخیالی‘‘ کی حقیقی قدر اُن لوگوں پر کھو جائے گی جو اِس کتاب کے آخری باب کا بغور مطالعہ نہیں کرتے۔ لہٰذا، ایک ایسی کلیسیا جو اپنے اَصل مقصد کو کسی فرد کے شخصی مذہبی تجربے کی ترقی میں تلاش کرتی ہے، وہ دُنیاوی فلسفے کا شکار ہو چکی ہے۔ میچن ہمیں کلیسیائی بلاہٹ کو بائبلی نظریے اور اقرارالایمان کے معیارات میں خلاصہ کی گئی تعلیمات کی نگہبانی کے طور پر دیکھنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔یہ ایسے زائرین کی مثال ہے جنہوں نے اپنے آسمانی گھر کی جانب سفر میں دُنیا داری کو ترک کر دیا ہے ۔میچن اپنی کتاب کا اختیام اِن الفاظ سے کرتا ہے آسمانی گھر ایسی جگہ ہے جو اُمید مہیا کرتی ہے۔
کیا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لڑائی جھگڑے سے پناہ مل جائے؟ جہاں انسان اپنی زندگی کی جنگ کی تیاری بآسانی کر سکے؟ کیا ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں دو یا تین افراد یسوع کے نام پر جمع ہو سکتے ہوں، اور اِن لمحات میں وہ قوم سے قوم اور نسل سے نسل کو جدا کرنے والی تمام چیزوں کو بھول جائیں، جہاں انسان اپنا غرور وتکبر ، جنگی جوش، صنعتی تنازعے کی اُلجھنوں کے مسائل سب کچھ بھول جائے اور فقط مسیح کی صلیب تلے بے حد شکرگزاری کے ساتھ متحد ہو۔ اگر کوئی ایسی جگہ ہے تو وہ ہے خدا کا گھر، وہی آسمان کا دروازہ۔ اِس گھر کی دہلیز کے نیچے سے ایک دریا نکلے گا جو تھکی ماندی دُنیا کو دوبارہ تر و تازہ کرے گا۔
یہ مضمون سب سے پہلے لیگنئیر منسٹریز کے بلاگ میں شائع ہو چکا ہے۔